Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اس وائرس نام بھی عجیب ہے اور کام بھی۔رونا رلانا اس کے نام کا حصہ ہی نہیں بلکہ کام بھی ہے۔جس سے چمٹ جائے اس سے اس کے اپنوں کو دور رہنے پر مجبور کرتا ہے اور اگر جان لینے کا سبب بن جائے تو لوگوں کو جنازے میں شرکت تک سے روک دیتا ہے۔اس وائرس سے پہلے کسی قریب ترین عزیز کی بیماری یا موت کی اطلاع پر پورے پورے گھر عیادت یا جنازے میں شرکت کے لیے دوڑے جاتے تھے لیکن اب حال دوسرا ہے۔اب بیمار یا متوفی کے گھر والے خود اعلان کرتے ہیں کہ براہ کرم اپنے اپنے گھروں سے دعا کریں،تشریف لانے کی ضرورت نہیں۔
آج ہی میرے دفتر (دنیا کراچی)کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے سگے بڑے بھائی لاہور کے ایک نجی اسپتال میں کورونا کے باعث آئی سی یو میں ہیں۔میں نے پہلے تو انہیں حوصلہ دیا،بیمار کے لیے دعا کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید یہ دفتر سے چھٹی چاہ رہے ہیں تاکہ اگلے روز لاہور روانہ ہوسکیں۔ان کی جانب سے ایسی کوئی بات سامنے نہ آنے پر میں نے خود ہی پیشکش کردی کہ آپ فوری لاہور جائیں ،دفتر کا اضافی کام مل بانٹ کر ہوجائیگا۔جس پر وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ بھابھی نے آنے سے منع کردیا ہے اور کہا ہے اپنا خیال رکھو،بس دعا کرو۔عیادت کے لیے آنے میں راستے بھر کورونا کا خطرہ ہے اس لیے گھر اور دفتر تک محدود رہو۔
ان کی اس مجبوری پر خود مجھے رونا آگیا اور بے اختیار ایک بار یہ دعا نکلی کہ یا اللہ اپنا کرم کردے۔اپنے حکم سے اس وائرس کو ختم کردے۔انسان کے بس میں اس سے لڑنا نہیں ہے۔صرف بچنے کی دعا کرنا ہے۔ہم نے خوامخواہ اس سے لڑائی مول لی ہوئی ہے۔
اب تک کیسے کیسے اچھے انسان جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں،اس دنیاسے چلے گئے۔جن کے بڑے بڑے جنازے ہونے تھے وہ چند افراد کی موجودگی میں ایمبولنس سے قبرستان پہنچائے جارہے ہیں۔پوری دنیا کے ہر شعبے کا کام بند ہے یا اب کسی حد تک بحال ہونا شروع ہوا ہے۔انسانیت کے مسیحا ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر دوران علاج خود مبتلا ہورہا ہے یا جان سے جا رہے ہیں۔لیڈی ڈاکٹرز زیادہ مشکل میں ہیں ،انہیں گھروں کو واپس لوٹ کر کچن اور چھوٹے بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرنا تو ہے ہی مشکل کام،،سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے دوران ہونے والی دیگر امراض سے ہونے والی اموات میں شرکت بھی عجیب طریقہ کار سے دوچار ہے۔دل کے دورے سے گزشتہ دنوں تعلیمی حلقوں کی معروف شخصیات پروفیسر انوار احمد زئی،ڈاکٹر آصف فرخی اور نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین شرف الزمان اچانک انتقال کرگئے۔
گزشتہ دنوں ماہر تعلیم اور عظیم دانشور پروفیسر انوار احمد زئی کے جنازے میں شرکت کا موقع ملا۔ایس او پی کے مطابق ماسک اور دستانے پہنے صرف قریبی دوست احباب شریک تھے۔کوئی ان کے بھائیوں اور بیٹے سے گلے لگ کر رونا چاہ رہا تھا لیکن مجبور تھا،دور کھڑے ہوکر ہی رو رہا تھا ۔پھر بھی خاندان کے صرف چند قریبی افراد نے ان کے صاحبزادے عزیز احمد زئی اور داماد کو گلے لگایا،تسلی دی اور دعاکی۔پروفیسر انوار احمد زئی کے نہایت قریبی ساتھی اور دست راست عمران چشتی بھی غم سے نڈھال تھے۔سب ہی شرکاء متوفی کے بھائیوں مسرور احمد زئی اور دیگر سے تعزیت کر رہے تھے۔مرحوم کی نماز جنازہ گلستان جوہر بلاک ون میں ادا کی گئی اور یاسین آباد میں ان کی اہلیہ کی قبر کے قریب سپرد خاک کردیا گیا۔پروفیسر انوار احمد زئی کی شخصیت ہمہ جہت تھی،آپ کا علمی کام اور تحقیق ہمیشہ علم کے پیاسوں کے کام آتی رہے گی۔
اردو ادب کا بڑا نام ڈاکٹر آصف فرخی بھی اسی دوران اس دنیا سے گئے۔ان کے اہل خانہ نے ادبی حلقوں میں پیغام پہنچایا کہ لوگ گھروں سے دعا کریں،کورونا کے باعث جنازے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ڈاکٹر آصف فرخی کی نماز جنازہ جامعہ کراچی کی مسجد ابراہیم میں ادا کی گئی اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔
اسی طرح جناب شرف الزمان کا جنازہ بھی قریبی عزیز و اقارب کی موجودگی میں ادا کیا گیا اور ماڈل کالونی کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ فیس بک اس وقت ڈیتھ بک بنی ہوئی ہے۔چاروں صوبوں سے کورونا اور نان کرونا اموات کی بری خبریں آرہی ہیں۔اسپتال بھر چکے ہیں جن میں ہر طرح کے مریض ہیں۔سمجھ دار عوام پریشان ہیں اور احتیاط بھی کر رہے ہیں اور غافل لوگ سڑکوں پر عام دنوں کی طرح گھوم رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وائرس کو پھیلارہے ہیں۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔۔آمین
اس وائرس نام بھی عجیب ہے اور کام بھی۔رونا رلانا اس کے نام کا حصہ ہی نہیں بلکہ کام بھی ہے۔جس سے چمٹ جائے اس سے اس کے اپنوں کو دور رہنے پر مجبور کرتا ہے اور اگر جان لینے کا سبب بن جائے تو لوگوں کو جنازے میں شرکت تک سے روک دیتا ہے۔اس وائرس سے پہلے کسی قریب ترین عزیز کی بیماری یا موت کی اطلاع پر پورے پورے گھر عیادت یا جنازے میں شرکت کے لیے دوڑے جاتے تھے لیکن اب حال دوسرا ہے۔اب بیمار یا متوفی کے گھر والے خود اعلان کرتے ہیں کہ براہ کرم اپنے اپنے گھروں سے دعا کریں،تشریف لانے کی ضرورت نہیں۔
آج ہی میرے دفتر (دنیا کراچی)کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے سگے بڑے بھائی لاہور کے ایک نجی اسپتال میں کورونا کے باعث آئی سی یو میں ہیں۔میں نے پہلے تو انہیں حوصلہ دیا،بیمار کے لیے دعا کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید یہ دفتر سے چھٹی چاہ رہے ہیں تاکہ اگلے روز لاہور روانہ ہوسکیں۔ان کی جانب سے ایسی کوئی بات سامنے نہ آنے پر میں نے خود ہی پیشکش کردی کہ آپ فوری لاہور جائیں ،دفتر کا اضافی کام مل بانٹ کر ہوجائیگا۔جس پر وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ بھابھی نے آنے سے منع کردیا ہے اور کہا ہے اپنا خیال رکھو،بس دعا کرو۔عیادت کے لیے آنے میں راستے بھر کورونا کا خطرہ ہے اس لیے گھر اور دفتر تک محدود رہو۔
ان کی اس مجبوری پر خود مجھے رونا آگیا اور بے اختیار ایک بار یہ دعا نکلی کہ یا اللہ اپنا کرم کردے۔اپنے حکم سے اس وائرس کو ختم کردے۔انسان کے بس میں اس سے لڑنا نہیں ہے۔صرف بچنے کی دعا کرنا ہے۔ہم نے خوامخواہ اس سے لڑائی مول لی ہوئی ہے۔
اب تک کیسے کیسے اچھے انسان جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں،اس دنیاسے چلے گئے۔جن کے بڑے بڑے جنازے ہونے تھے وہ چند افراد کی موجودگی میں ایمبولنس سے قبرستان پہنچائے جارہے ہیں۔پوری دنیا کے ہر شعبے کا کام بند ہے یا اب کسی حد تک بحال ہونا شروع ہوا ہے۔انسانیت کے مسیحا ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر دوران علاج خود مبتلا ہورہا ہے یا جان سے جا رہے ہیں۔لیڈی ڈاکٹرز زیادہ مشکل میں ہیں ،انہیں گھروں کو واپس لوٹ کر کچن اور چھوٹے بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرنا تو ہے ہی مشکل کام،،سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے دوران ہونے والی دیگر امراض سے ہونے والی اموات میں شرکت بھی عجیب طریقہ کار سے دوچار ہے۔دل کے دورے سے گزشتہ دنوں تعلیمی حلقوں کی معروف شخصیات پروفیسر انوار احمد زئی،ڈاکٹر آصف فرخی اور نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین شرف الزمان اچانک انتقال کرگئے۔
گزشتہ دنوں ماہر تعلیم اور عظیم دانشور پروفیسر انوار احمد زئی کے جنازے میں شرکت کا موقع ملا۔ایس او پی کے مطابق ماسک اور دستانے پہنے صرف قریبی دوست احباب شریک تھے۔کوئی ان کے بھائیوں اور بیٹے سے گلے لگ کر رونا چاہ رہا تھا لیکن مجبور تھا،دور کھڑے ہوکر ہی رو رہا تھا ۔پھر بھی خاندان کے صرف چند قریبی افراد نے ان کے صاحبزادے عزیز احمد زئی اور داماد کو گلے لگایا،تسلی دی اور دعاکی۔پروفیسر انوار احمد زئی کے نہایت قریبی ساتھی اور دست راست عمران چشتی بھی غم سے نڈھال تھے۔سب ہی شرکاء متوفی کے بھائیوں مسرور احمد زئی اور دیگر سے تعزیت کر رہے تھے۔مرحوم کی نماز جنازہ گلستان جوہر بلاک ون میں ادا کی گئی اور یاسین آباد میں ان کی اہلیہ کی قبر کے قریب سپرد خاک کردیا گیا۔پروفیسر انوار احمد زئی کی شخصیت ہمہ جہت تھی،آپ کا علمی کام اور تحقیق ہمیشہ علم کے پیاسوں کے کام آتی رہے گی۔
اردو ادب کا بڑا نام ڈاکٹر آصف فرخی بھی اسی دوران اس دنیا سے گئے۔ان کے اہل خانہ نے ادبی حلقوں میں پیغام پہنچایا کہ لوگ گھروں سے دعا کریں،کورونا کے باعث جنازے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ڈاکٹر آصف فرخی کی نماز جنازہ جامعہ کراچی کی مسجد ابراہیم میں ادا کی گئی اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔
اسی طرح جناب شرف الزمان کا جنازہ بھی قریبی عزیز و اقارب کی موجودگی میں ادا کیا گیا اور ماڈل کالونی کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ فیس بک اس وقت ڈیتھ بک بنی ہوئی ہے۔چاروں صوبوں سے کورونا اور نان کرونا اموات کی بری خبریں آرہی ہیں۔اسپتال بھر چکے ہیں جن میں ہر طرح کے مریض ہیں۔سمجھ دار عوام پریشان ہیں اور احتیاط بھی کر رہے ہیں اور غافل لوگ سڑکوں پر عام دنوں کی طرح گھوم رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وائرس کو پھیلارہے ہیں۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔۔آمین
اس وائرس نام بھی عجیب ہے اور کام بھی۔رونا رلانا اس کے نام کا حصہ ہی نہیں بلکہ کام بھی ہے۔جس سے چمٹ جائے اس سے اس کے اپنوں کو دور رہنے پر مجبور کرتا ہے اور اگر جان لینے کا سبب بن جائے تو لوگوں کو جنازے میں شرکت تک سے روک دیتا ہے۔اس وائرس سے پہلے کسی قریب ترین عزیز کی بیماری یا موت کی اطلاع پر پورے پورے گھر عیادت یا جنازے میں شرکت کے لیے دوڑے جاتے تھے لیکن اب حال دوسرا ہے۔اب بیمار یا متوفی کے گھر والے خود اعلان کرتے ہیں کہ براہ کرم اپنے اپنے گھروں سے دعا کریں،تشریف لانے کی ضرورت نہیں۔
آج ہی میرے دفتر (دنیا کراچی)کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے سگے بڑے بھائی لاہور کے ایک نجی اسپتال میں کورونا کے باعث آئی سی یو میں ہیں۔میں نے پہلے تو انہیں حوصلہ دیا،بیمار کے لیے دعا کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید یہ دفتر سے چھٹی چاہ رہے ہیں تاکہ اگلے روز لاہور روانہ ہوسکیں۔ان کی جانب سے ایسی کوئی بات سامنے نہ آنے پر میں نے خود ہی پیشکش کردی کہ آپ فوری لاہور جائیں ،دفتر کا اضافی کام مل بانٹ کر ہوجائیگا۔جس پر وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ بھابھی نے آنے سے منع کردیا ہے اور کہا ہے اپنا خیال رکھو،بس دعا کرو۔عیادت کے لیے آنے میں راستے بھر کورونا کا خطرہ ہے اس لیے گھر اور دفتر تک محدود رہو۔
ان کی اس مجبوری پر خود مجھے رونا آگیا اور بے اختیار ایک بار یہ دعا نکلی کہ یا اللہ اپنا کرم کردے۔اپنے حکم سے اس وائرس کو ختم کردے۔انسان کے بس میں اس سے لڑنا نہیں ہے۔صرف بچنے کی دعا کرنا ہے۔ہم نے خوامخواہ اس سے لڑائی مول لی ہوئی ہے۔
اب تک کیسے کیسے اچھے انسان جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں،اس دنیاسے چلے گئے۔جن کے بڑے بڑے جنازے ہونے تھے وہ چند افراد کی موجودگی میں ایمبولنس سے قبرستان پہنچائے جارہے ہیں۔پوری دنیا کے ہر شعبے کا کام بند ہے یا اب کسی حد تک بحال ہونا شروع ہوا ہے۔انسانیت کے مسیحا ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر دوران علاج خود مبتلا ہورہا ہے یا جان سے جا رہے ہیں۔لیڈی ڈاکٹرز زیادہ مشکل میں ہیں ،انہیں گھروں کو واپس لوٹ کر کچن اور چھوٹے بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرنا تو ہے ہی مشکل کام،،سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے دوران ہونے والی دیگر امراض سے ہونے والی اموات میں شرکت بھی عجیب طریقہ کار سے دوچار ہے۔دل کے دورے سے گزشتہ دنوں تعلیمی حلقوں کی معروف شخصیات پروفیسر انوار احمد زئی،ڈاکٹر آصف فرخی اور نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین شرف الزمان اچانک انتقال کرگئے۔
گزشتہ دنوں ماہر تعلیم اور عظیم دانشور پروفیسر انوار احمد زئی کے جنازے میں شرکت کا موقع ملا۔ایس او پی کے مطابق ماسک اور دستانے پہنے صرف قریبی دوست احباب شریک تھے۔کوئی ان کے بھائیوں اور بیٹے سے گلے لگ کر رونا چاہ رہا تھا لیکن مجبور تھا،دور کھڑے ہوکر ہی رو رہا تھا ۔پھر بھی خاندان کے صرف چند قریبی افراد نے ان کے صاحبزادے عزیز احمد زئی اور داماد کو گلے لگایا،تسلی دی اور دعاکی۔پروفیسر انوار احمد زئی کے نہایت قریبی ساتھی اور دست راست عمران چشتی بھی غم سے نڈھال تھے۔سب ہی شرکاء متوفی کے بھائیوں مسرور احمد زئی اور دیگر سے تعزیت کر رہے تھے۔مرحوم کی نماز جنازہ گلستان جوہر بلاک ون میں ادا کی گئی اور یاسین آباد میں ان کی اہلیہ کی قبر کے قریب سپرد خاک کردیا گیا۔پروفیسر انوار احمد زئی کی شخصیت ہمہ جہت تھی،آپ کا علمی کام اور تحقیق ہمیشہ علم کے پیاسوں کے کام آتی رہے گی۔
اردو ادب کا بڑا نام ڈاکٹر آصف فرخی بھی اسی دوران اس دنیا سے گئے۔ان کے اہل خانہ نے ادبی حلقوں میں پیغام پہنچایا کہ لوگ گھروں سے دعا کریں،کورونا کے باعث جنازے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ڈاکٹر آصف فرخی کی نماز جنازہ جامعہ کراچی کی مسجد ابراہیم میں ادا کی گئی اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔
اسی طرح جناب شرف الزمان کا جنازہ بھی قریبی عزیز و اقارب کی موجودگی میں ادا کیا گیا اور ماڈل کالونی کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ فیس بک اس وقت ڈیتھ بک بنی ہوئی ہے۔چاروں صوبوں سے کورونا اور نان کرونا اموات کی بری خبریں آرہی ہیں۔اسپتال بھر چکے ہیں جن میں ہر طرح کے مریض ہیں۔سمجھ دار عوام پریشان ہیں اور احتیاط بھی کر رہے ہیں اور غافل لوگ سڑکوں پر عام دنوں کی طرح گھوم رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وائرس کو پھیلارہے ہیں۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔۔آمین
اس وائرس نام بھی عجیب ہے اور کام بھی۔رونا رلانا اس کے نام کا حصہ ہی نہیں بلکہ کام بھی ہے۔جس سے چمٹ جائے اس سے اس کے اپنوں کو دور رہنے پر مجبور کرتا ہے اور اگر جان لینے کا سبب بن جائے تو لوگوں کو جنازے میں شرکت تک سے روک دیتا ہے۔اس وائرس سے پہلے کسی قریب ترین عزیز کی بیماری یا موت کی اطلاع پر پورے پورے گھر عیادت یا جنازے میں شرکت کے لیے دوڑے جاتے تھے لیکن اب حال دوسرا ہے۔اب بیمار یا متوفی کے گھر والے خود اعلان کرتے ہیں کہ براہ کرم اپنے اپنے گھروں سے دعا کریں،تشریف لانے کی ضرورت نہیں۔
آج ہی میرے دفتر (دنیا کراچی)کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے سگے بڑے بھائی لاہور کے ایک نجی اسپتال میں کورونا کے باعث آئی سی یو میں ہیں۔میں نے پہلے تو انہیں حوصلہ دیا،بیمار کے لیے دعا کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید یہ دفتر سے چھٹی چاہ رہے ہیں تاکہ اگلے روز لاہور روانہ ہوسکیں۔ان کی جانب سے ایسی کوئی بات سامنے نہ آنے پر میں نے خود ہی پیشکش کردی کہ آپ فوری لاہور جائیں ،دفتر کا اضافی کام مل بانٹ کر ہوجائیگا۔جس پر وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ بھابھی نے آنے سے منع کردیا ہے اور کہا ہے اپنا خیال رکھو،بس دعا کرو۔عیادت کے لیے آنے میں راستے بھر کورونا کا خطرہ ہے اس لیے گھر اور دفتر تک محدود رہو۔
ان کی اس مجبوری پر خود مجھے رونا آگیا اور بے اختیار ایک بار یہ دعا نکلی کہ یا اللہ اپنا کرم کردے۔اپنے حکم سے اس وائرس کو ختم کردے۔انسان کے بس میں اس سے لڑنا نہیں ہے۔صرف بچنے کی دعا کرنا ہے۔ہم نے خوامخواہ اس سے لڑائی مول لی ہوئی ہے۔
اب تک کیسے کیسے اچھے انسان جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں،اس دنیاسے چلے گئے۔جن کے بڑے بڑے جنازے ہونے تھے وہ چند افراد کی موجودگی میں ایمبولنس سے قبرستان پہنچائے جارہے ہیں۔پوری دنیا کے ہر شعبے کا کام بند ہے یا اب کسی حد تک بحال ہونا شروع ہوا ہے۔انسانیت کے مسیحا ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر دوران علاج خود مبتلا ہورہا ہے یا جان سے جا رہے ہیں۔لیڈی ڈاکٹرز زیادہ مشکل میں ہیں ،انہیں گھروں کو واپس لوٹ کر کچن اور چھوٹے بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرنا تو ہے ہی مشکل کام،،سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے دوران ہونے والی دیگر امراض سے ہونے والی اموات میں شرکت بھی عجیب طریقہ کار سے دوچار ہے۔دل کے دورے سے گزشتہ دنوں تعلیمی حلقوں کی معروف شخصیات پروفیسر انوار احمد زئی،ڈاکٹر آصف فرخی اور نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین شرف الزمان اچانک انتقال کرگئے۔
گزشتہ دنوں ماہر تعلیم اور عظیم دانشور پروفیسر انوار احمد زئی کے جنازے میں شرکت کا موقع ملا۔ایس او پی کے مطابق ماسک اور دستانے پہنے صرف قریبی دوست احباب شریک تھے۔کوئی ان کے بھائیوں اور بیٹے سے گلے لگ کر رونا چاہ رہا تھا لیکن مجبور تھا،دور کھڑے ہوکر ہی رو رہا تھا ۔پھر بھی خاندان کے صرف چند قریبی افراد نے ان کے صاحبزادے عزیز احمد زئی اور داماد کو گلے لگایا،تسلی دی اور دعاکی۔پروفیسر انوار احمد زئی کے نہایت قریبی ساتھی اور دست راست عمران چشتی بھی غم سے نڈھال تھے۔سب ہی شرکاء متوفی کے بھائیوں مسرور احمد زئی اور دیگر سے تعزیت کر رہے تھے۔مرحوم کی نماز جنازہ گلستان جوہر بلاک ون میں ادا کی گئی اور یاسین آباد میں ان کی اہلیہ کی قبر کے قریب سپرد خاک کردیا گیا۔پروفیسر انوار احمد زئی کی شخصیت ہمہ جہت تھی،آپ کا علمی کام اور تحقیق ہمیشہ علم کے پیاسوں کے کام آتی رہے گی۔
اردو ادب کا بڑا نام ڈاکٹر آصف فرخی بھی اسی دوران اس دنیا سے گئے۔ان کے اہل خانہ نے ادبی حلقوں میں پیغام پہنچایا کہ لوگ گھروں سے دعا کریں،کورونا کے باعث جنازے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ڈاکٹر آصف فرخی کی نماز جنازہ جامعہ کراچی کی مسجد ابراہیم میں ادا کی گئی اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔
اسی طرح جناب شرف الزمان کا جنازہ بھی قریبی عزیز و اقارب کی موجودگی میں ادا کیا گیا اور ماڈل کالونی کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ فیس بک اس وقت ڈیتھ بک بنی ہوئی ہے۔چاروں صوبوں سے کورونا اور نان کرونا اموات کی بری خبریں آرہی ہیں۔اسپتال بھر چکے ہیں جن میں ہر طرح کے مریض ہیں۔سمجھ دار عوام پریشان ہیں اور احتیاط بھی کر رہے ہیں اور غافل لوگ سڑکوں پر عام دنوں کی طرح گھوم رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وائرس کو پھیلارہے ہیں۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔۔آمین