Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کسی بھی عہدہ کے لیے دو باتوں کا ھونا اشد ضروری ھے۔ ایک قابلیت اور دوسری ایمانداری۔ ان دونوں میں سے اگر ایک بھی نہ ھو تو نہ انفرادی ترقی ممکن اور نہ اجتماعی۔ بلکہ تنزلی ھی تنزلی ھے۔ کسی بھی پیشے سے منسلک فرد کو آپ قابلیت اور ایمانداری کے پیمانے کے تحت ہی پرکھ سکتے ھیں۔مثال کے طور پر ایک ٹیچر بہت ہی قابل ھے لیکن وہ بے ایمان ھے۔ وہ کلاس میں نہیں آتا ، یا وقت پر نہیں آتا اور اگر وقت پر آ جاۓ تو پیریڈ لگنے سے پہلےہی رخصت ھو جاتا ھے۔ بس وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے کلاس لیتا ھے۔ کلا س لینے کو وہ مجبوری سمجھتا ھے۔اس میں قابلیت ھے لیکن وہ ایماندار نہیں۔
دوسری صورت میں ایک ٹیچر بہت ھی ایماندار ھے۔ کلاس میں روزانہ باقاعدگی سے آتا ھے۔ پیریڈ شروع ھونے سے پہلے آتا ھے اور پیریڈ ختم ھونے کے بعد جاتا ھے۔وہ ایماندار تو ھے لیکن اس میں قابلیت نہیں ، اس کو پڑھانا نہیں آتا۔
تیسری صورت میں ایک ایسے فرد کے بارے میں سوچیے، جو بے ایمان بھی ھے اور جس میں قابلیت بھی نہیں۔
یہ پاکستان کی بد قسمتی ھے کہ یہاں کے بیشتر حکمران قابلیت اور ایمان دونوں سے عاری رہے ہیں۔
زیادہ تر حکمران بے ایمان ھونے کے ساتھ ساتھ نکمے، نکھٹو اور بالکل بے کار ھیں۔ ان کا IQ level ایک چوکیدار اور چپراسی سی بھی کم ھے۔ لیکن یہ عوام کے سروں پر بیٹھ گۓ ہیں یا انہیں بٹھا دیا گیا ھے۔
ایک اور اھم بات یہ کہ جب تک یہ لوگ حکومت سے باہر ھوتے ہیں ان کو تمام مسائل نظر آرھے ھوتے ہیں ، یہ لوگ، عوام کو درپیش ہر مسئلہ محسوس کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ حکومت میں آتے ہیں یہ لوگ گونگے، بہرے اور نابینا ھو جاتے ہیں۔
یہ لوگ ایسے عجیب وغریب فیصلے کرتے ہیں جو کسی بھی ذی شعور انسان کی فہم وفراست سے بالا تر ھوتے ہیں۔اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ لوگ سابقہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتے ھیں۔ان کی اپنی کارکردگی صفر ھوتی ھے۔ اور بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ھیں کہ ھم یہ کر دیں گے ، ھم وہ کر دیں گے۔ لیکن ھوتا کچھ بھی نہیں۔ اور ملک ہر شعبہ میں زوال پذیر ھوتا چلا جاتا ھے۔
ہر سیاسی جماعت کا طرز حکمرانی کم وبیش ایک ہی جیسا ھے۔ کبھی لوٹ مار بڑھ جاتی ھے اور کبھی اس میں مزید اضافہ ھو جاتا ھے۔ لیکن لوٹ مار کا سلسلہ بد دستور جاری وساری ھے۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جا رہا ھے۔ بد حال اور مفلوک الحال عوام کسی مسیحا کے انتظار میں ھے کہ کوئ آۓ اور ان کی کشتی کو پار لگاۓ۔
اللہ پاک سے دعا ھے کہ وہ اس ملک کو ایماندار اور قابل حکمران عطا فرماۓ۔ ایسے حکمران جو دیکھ سکتے ھوں، سن سکتے ھوں اور محسوس بھی کر سکتے ھوں۔ جو یہ نہ کہیں کہ ھم یہ کر دیں گے اور ھم وہ کر دیں گے، بلکہ ایسے حکمران جو کہیں ھم نے عام آدمی کی فلاح کے لیے یہ بھی کیا ھے اور ھم نے وہ بھی کیا ھے۔
کسی بھی عہدہ کے لیے دو باتوں کا ھونا اشد ضروری ھے۔ ایک قابلیت اور دوسری ایمانداری۔ ان دونوں میں سے اگر ایک بھی نہ ھو تو نہ انفرادی ترقی ممکن اور نہ اجتماعی۔ بلکہ تنزلی ھی تنزلی ھے۔ کسی بھی پیشے سے منسلک فرد کو آپ قابلیت اور ایمانداری کے پیمانے کے تحت ہی پرکھ سکتے ھیں۔مثال کے طور پر ایک ٹیچر بہت ہی قابل ھے لیکن وہ بے ایمان ھے۔ وہ کلاس میں نہیں آتا ، یا وقت پر نہیں آتا اور اگر وقت پر آ جاۓ تو پیریڈ لگنے سے پہلےہی رخصت ھو جاتا ھے۔ بس وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے کلاس لیتا ھے۔ کلا س لینے کو وہ مجبوری سمجھتا ھے۔اس میں قابلیت ھے لیکن وہ ایماندار نہیں۔
دوسری صورت میں ایک ٹیچر بہت ھی ایماندار ھے۔ کلاس میں روزانہ باقاعدگی سے آتا ھے۔ پیریڈ شروع ھونے سے پہلے آتا ھے اور پیریڈ ختم ھونے کے بعد جاتا ھے۔وہ ایماندار تو ھے لیکن اس میں قابلیت نہیں ، اس کو پڑھانا نہیں آتا۔
تیسری صورت میں ایک ایسے فرد کے بارے میں سوچیے، جو بے ایمان بھی ھے اور جس میں قابلیت بھی نہیں۔
یہ پاکستان کی بد قسمتی ھے کہ یہاں کے بیشتر حکمران قابلیت اور ایمان دونوں سے عاری رہے ہیں۔
زیادہ تر حکمران بے ایمان ھونے کے ساتھ ساتھ نکمے، نکھٹو اور بالکل بے کار ھیں۔ ان کا IQ level ایک چوکیدار اور چپراسی سی بھی کم ھے۔ لیکن یہ عوام کے سروں پر بیٹھ گۓ ہیں یا انہیں بٹھا دیا گیا ھے۔
ایک اور اھم بات یہ کہ جب تک یہ لوگ حکومت سے باہر ھوتے ہیں ان کو تمام مسائل نظر آرھے ھوتے ہیں ، یہ لوگ، عوام کو درپیش ہر مسئلہ محسوس کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ حکومت میں آتے ہیں یہ لوگ گونگے، بہرے اور نابینا ھو جاتے ہیں۔
یہ لوگ ایسے عجیب وغریب فیصلے کرتے ہیں جو کسی بھی ذی شعور انسان کی فہم وفراست سے بالا تر ھوتے ہیں۔اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ لوگ سابقہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتے ھیں۔ان کی اپنی کارکردگی صفر ھوتی ھے۔ اور بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ھیں کہ ھم یہ کر دیں گے ، ھم وہ کر دیں گے۔ لیکن ھوتا کچھ بھی نہیں۔ اور ملک ہر شعبہ میں زوال پذیر ھوتا چلا جاتا ھے۔
ہر سیاسی جماعت کا طرز حکمرانی کم وبیش ایک ہی جیسا ھے۔ کبھی لوٹ مار بڑھ جاتی ھے اور کبھی اس میں مزید اضافہ ھو جاتا ھے۔ لیکن لوٹ مار کا سلسلہ بد دستور جاری وساری ھے۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جا رہا ھے۔ بد حال اور مفلوک الحال عوام کسی مسیحا کے انتظار میں ھے کہ کوئ آۓ اور ان کی کشتی کو پار لگاۓ۔
اللہ پاک سے دعا ھے کہ وہ اس ملک کو ایماندار اور قابل حکمران عطا فرماۓ۔ ایسے حکمران جو دیکھ سکتے ھوں، سن سکتے ھوں اور محسوس بھی کر سکتے ھوں۔ جو یہ نہ کہیں کہ ھم یہ کر دیں گے اور ھم وہ کر دیں گے، بلکہ ایسے حکمران جو کہیں ھم نے عام آدمی کی فلاح کے لیے یہ بھی کیا ھے اور ھم نے وہ بھی کیا ھے۔
کسی بھی عہدہ کے لیے دو باتوں کا ھونا اشد ضروری ھے۔ ایک قابلیت اور دوسری ایمانداری۔ ان دونوں میں سے اگر ایک بھی نہ ھو تو نہ انفرادی ترقی ممکن اور نہ اجتماعی۔ بلکہ تنزلی ھی تنزلی ھے۔ کسی بھی پیشے سے منسلک فرد کو آپ قابلیت اور ایمانداری کے پیمانے کے تحت ہی پرکھ سکتے ھیں۔مثال کے طور پر ایک ٹیچر بہت ہی قابل ھے لیکن وہ بے ایمان ھے۔ وہ کلاس میں نہیں آتا ، یا وقت پر نہیں آتا اور اگر وقت پر آ جاۓ تو پیریڈ لگنے سے پہلےہی رخصت ھو جاتا ھے۔ بس وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے کلاس لیتا ھے۔ کلا س لینے کو وہ مجبوری سمجھتا ھے۔اس میں قابلیت ھے لیکن وہ ایماندار نہیں۔
دوسری صورت میں ایک ٹیچر بہت ھی ایماندار ھے۔ کلاس میں روزانہ باقاعدگی سے آتا ھے۔ پیریڈ شروع ھونے سے پہلے آتا ھے اور پیریڈ ختم ھونے کے بعد جاتا ھے۔وہ ایماندار تو ھے لیکن اس میں قابلیت نہیں ، اس کو پڑھانا نہیں آتا۔
تیسری صورت میں ایک ایسے فرد کے بارے میں سوچیے، جو بے ایمان بھی ھے اور جس میں قابلیت بھی نہیں۔
یہ پاکستان کی بد قسمتی ھے کہ یہاں کے بیشتر حکمران قابلیت اور ایمان دونوں سے عاری رہے ہیں۔
زیادہ تر حکمران بے ایمان ھونے کے ساتھ ساتھ نکمے، نکھٹو اور بالکل بے کار ھیں۔ ان کا IQ level ایک چوکیدار اور چپراسی سی بھی کم ھے۔ لیکن یہ عوام کے سروں پر بیٹھ گۓ ہیں یا انہیں بٹھا دیا گیا ھے۔
ایک اور اھم بات یہ کہ جب تک یہ لوگ حکومت سے باہر ھوتے ہیں ان کو تمام مسائل نظر آرھے ھوتے ہیں ، یہ لوگ، عوام کو درپیش ہر مسئلہ محسوس کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ حکومت میں آتے ہیں یہ لوگ گونگے، بہرے اور نابینا ھو جاتے ہیں۔
یہ لوگ ایسے عجیب وغریب فیصلے کرتے ہیں جو کسی بھی ذی شعور انسان کی فہم وفراست سے بالا تر ھوتے ہیں۔اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ لوگ سابقہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتے ھیں۔ان کی اپنی کارکردگی صفر ھوتی ھے۔ اور بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ھیں کہ ھم یہ کر دیں گے ، ھم وہ کر دیں گے۔ لیکن ھوتا کچھ بھی نہیں۔ اور ملک ہر شعبہ میں زوال پذیر ھوتا چلا جاتا ھے۔
ہر سیاسی جماعت کا طرز حکمرانی کم وبیش ایک ہی جیسا ھے۔ کبھی لوٹ مار بڑھ جاتی ھے اور کبھی اس میں مزید اضافہ ھو جاتا ھے۔ لیکن لوٹ مار کا سلسلہ بد دستور جاری وساری ھے۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جا رہا ھے۔ بد حال اور مفلوک الحال عوام کسی مسیحا کے انتظار میں ھے کہ کوئ آۓ اور ان کی کشتی کو پار لگاۓ۔
اللہ پاک سے دعا ھے کہ وہ اس ملک کو ایماندار اور قابل حکمران عطا فرماۓ۔ ایسے حکمران جو دیکھ سکتے ھوں، سن سکتے ھوں اور محسوس بھی کر سکتے ھوں۔ جو یہ نہ کہیں کہ ھم یہ کر دیں گے اور ھم وہ کر دیں گے، بلکہ ایسے حکمران جو کہیں ھم نے عام آدمی کی فلاح کے لیے یہ بھی کیا ھے اور ھم نے وہ بھی کیا ھے۔
کسی بھی عہدہ کے لیے دو باتوں کا ھونا اشد ضروری ھے۔ ایک قابلیت اور دوسری ایمانداری۔ ان دونوں میں سے اگر ایک بھی نہ ھو تو نہ انفرادی ترقی ممکن اور نہ اجتماعی۔ بلکہ تنزلی ھی تنزلی ھے۔ کسی بھی پیشے سے منسلک فرد کو آپ قابلیت اور ایمانداری کے پیمانے کے تحت ہی پرکھ سکتے ھیں۔مثال کے طور پر ایک ٹیچر بہت ہی قابل ھے لیکن وہ بے ایمان ھے۔ وہ کلاس میں نہیں آتا ، یا وقت پر نہیں آتا اور اگر وقت پر آ جاۓ تو پیریڈ لگنے سے پہلےہی رخصت ھو جاتا ھے۔ بس وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے کلاس لیتا ھے۔ کلا س لینے کو وہ مجبوری سمجھتا ھے۔اس میں قابلیت ھے لیکن وہ ایماندار نہیں۔
دوسری صورت میں ایک ٹیچر بہت ھی ایماندار ھے۔ کلاس میں روزانہ باقاعدگی سے آتا ھے۔ پیریڈ شروع ھونے سے پہلے آتا ھے اور پیریڈ ختم ھونے کے بعد جاتا ھے۔وہ ایماندار تو ھے لیکن اس میں قابلیت نہیں ، اس کو پڑھانا نہیں آتا۔
تیسری صورت میں ایک ایسے فرد کے بارے میں سوچیے، جو بے ایمان بھی ھے اور جس میں قابلیت بھی نہیں۔
یہ پاکستان کی بد قسمتی ھے کہ یہاں کے بیشتر حکمران قابلیت اور ایمان دونوں سے عاری رہے ہیں۔
زیادہ تر حکمران بے ایمان ھونے کے ساتھ ساتھ نکمے، نکھٹو اور بالکل بے کار ھیں۔ ان کا IQ level ایک چوکیدار اور چپراسی سی بھی کم ھے۔ لیکن یہ عوام کے سروں پر بیٹھ گۓ ہیں یا انہیں بٹھا دیا گیا ھے۔
ایک اور اھم بات یہ کہ جب تک یہ لوگ حکومت سے باہر ھوتے ہیں ان کو تمام مسائل نظر آرھے ھوتے ہیں ، یہ لوگ، عوام کو درپیش ہر مسئلہ محسوس کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ حکومت میں آتے ہیں یہ لوگ گونگے، بہرے اور نابینا ھو جاتے ہیں۔
یہ لوگ ایسے عجیب وغریب فیصلے کرتے ہیں جو کسی بھی ذی شعور انسان کی فہم وفراست سے بالا تر ھوتے ہیں۔اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ لوگ سابقہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتے ھیں۔ان کی اپنی کارکردگی صفر ھوتی ھے۔ اور بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ھیں کہ ھم یہ کر دیں گے ، ھم وہ کر دیں گے۔ لیکن ھوتا کچھ بھی نہیں۔ اور ملک ہر شعبہ میں زوال پذیر ھوتا چلا جاتا ھے۔
ہر سیاسی جماعت کا طرز حکمرانی کم وبیش ایک ہی جیسا ھے۔ کبھی لوٹ مار بڑھ جاتی ھے اور کبھی اس میں مزید اضافہ ھو جاتا ھے۔ لیکن لوٹ مار کا سلسلہ بد دستور جاری وساری ھے۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جا رہا ھے۔ بد حال اور مفلوک الحال عوام کسی مسیحا کے انتظار میں ھے کہ کوئ آۓ اور ان کی کشتی کو پار لگاۓ۔
اللہ پاک سے دعا ھے کہ وہ اس ملک کو ایماندار اور قابل حکمران عطا فرماۓ۔ ایسے حکمران جو دیکھ سکتے ھوں، سن سکتے ھوں اور محسوس بھی کر سکتے ھوں۔ جو یہ نہ کہیں کہ ھم یہ کر دیں گے اور ھم وہ کر دیں گے، بلکہ ایسے حکمران جو کہیں ھم نے عام آدمی کی فلاح کے لیے یہ بھی کیا ھے اور ھم نے وہ بھی کیا ھے۔