اس سیارے پر جِسے زمین کہا جاتا ہے انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس نے ہتھیار ایجاد کیے ہیں۔ پتھروں کے ہتھیار سے لکڑی اور دھاتوں سے بنے نیزے تک، تلوار اور تیر کمان سے پاوڈر گن تک، غلیل سے مشین گنز تک، تیز دھار کلہاڑوں سے گرنیڈز تک,خنجر سے M4 Caribine تک، منجنیق سے جدید قسم کے ڈرونز تک، اسکے علاوہ مختلف رینج تک حملہ کرنے والے ٹینکس، جنگی طیارے، ٹیزرز، انواع اقسام کے بم، خطرناک گیسوں سے بنے گرنیڈز، نیوکلیر میزائل اور ہائیڈروجن بم سب انسان کی ایجاد ہیں۔ اور ممکنہ طور پر کئی ہتھیار تیاری کے مراحل میں بھی ہوں گے۔
ان ہتھیاروں کو بنانے کے پسِ پردہ عوامل میں شکار، دفاع، اور زمین و وسائل پر غاصبانہ قبضہ تھا۔ سلطنت روم میں گلیڈیٹرز ہتھیاروں سے کھیلتے بھی نظر آتے ہیں اور کئی تہذیبوں میں ہتھیاروں پر مبنی کئی کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں مگر ہتھیاروں کا بنیادی استعمال خون ریزی ہی رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسان کے ہتھیار جدید ہوتے گئے۔ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کہ ہتھیاروں کو مزید طاقتور اور زیادہ رینج تک تباہ کن بنایا گیا۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پتھروں کی تراش خراش کر کہ ہتھیار بنانے کی کوشش سے ہتھیاروں کی منافع بخش صنعت نے جنم لیا۔
سٹاک ہوم تحقیقی ادارہ برائے بین الاقوامی امن (SIPRI) کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ملٹری اخراجات 1.917 ٹریلین ڈالر تھے۔ پورے براعظم افریقہ کی کل جی ڈی پی 2.5 ٹریلین ڈالر ہے۔ اوراگر افریقہ کے 54 ممالک میں ساوتھ افریقہ اور مصر کو نکال دیا جائے تو یہ ملٹری اخراجات افریقہ کے 52 ملکوں کی قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہیں۔ افریقہ ایک ایسا براعظم ہے جہاں کے بیشتر ممالک میں بھوک افلاس اور بیماری نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ جب بھی دنیا دیگر معاملات سے فرصت نکال کر انسانوں میں غذائیت کی کمی، قحط، بھوک، بیماری اور جہالت کی بات کرتی ہے تو افریقہ کو بطور مثال پیش کرتی ہے۔ افریقہ کے بعد جنوبی ایشیاء میں یہ ساری چیزیں پائی جاتی ہیں۔
دفاعی اخراجات کا صرف 60 فیصد 5 ممالک امریکہ، چین، سعودی عرب، انڈیا اور فرانس پر مشتمل ہے۔ اور یہ ممالک دنیا میں اپنے تنازعات کی وجہ سے ہر سال اپنے دفاعی اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرتے ہیں۔ امریکہ پوری دنیا میں مختلف محاذوں پر طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ مشرق وسطی ہو یا میکسیکو، ویتنام ہو یا شمالی کوریا، روس ہو یا چین، ایران ہو یا افغانستان امریکہ بلواسطہ یا بلاواسطہ جنگی محاذ پر سرگرم ہے جسکے لیے اسے اپنی جی ڈی پی میں سے بھاری رقم دفاع کی مد میں رکھنا پڑتی ہے 2019 میں امریکہ کے دفاعی اخراجات 732 ارب ڈالر تھے. اسی طرح انڈیا جیسے پسماندہ ملک کی چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑائی اسے اپنے دفاعی اخراجات کے لیے بھاری رقم مختص کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایسے ہی چین اور پاکستان اپنے سالانہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں جی ڈی پی کا بڑا تناسب رکھتے ہیں۔
ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک طرف جہاں جنگی سازوسامان کی صنعت کو ترقی ملی وہیں کروڑوں انسانوں کو اس صنعت نے روزگار بھی فراہم کیا۔ عالمی بینک کے مئی 2020 تک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں اسوقت 2 کروڑ 76 لاکھ 1 ہزار ملٹری و پیرا ملٹری پرسنل ہیں۔ اور دنیا انکی ٹریننگ، انکے استعمال میں آنے والے جدید ہتھیاروں اور دیگر اخراجات پر ہر سال بجٹ میں بھاری رقوم مختص کرتی ہے۔ تنازعات کا شکار ملک اس مد میں بھاری رقوم مختص کرتے ہیں جبکہ پر امن خطے میں رہنے والے ملک اس میں اعتدال برقرار رکھتے ہیں۔
اس دنیا میں بڑے تنازعات عرب دنیا، جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطی میں پائے جاتے ہیں۔ اور اگر ان ملکوں کی معیشت کے ساتھ دیگر چیزوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ملک بدحال معیشت کے ساتھ، جہالت، غربت، پسماندگی، صحت و تعلیم کی ناکافی سہولیات کے ساتھ لوگوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ کئی ملکوں میں آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے بنیادی تعلیم و صحت کی سہولیات تک میسر نہیں۔ وسائل کا غلط استعمال انہیں غربت کے دائروی بہاو سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ مالیاتی خسارے انہیں عالمی مالیاتی اداروں کی جی حضوری کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسکے باوجود یہ نا تو اپنا دفاعی بجٹ کم کرتے اور نا تنازعات کے حل کی طرف پیش رفت کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر تنازعات کا بھی مطالعہ کیا جائے تو کہیں یہ لسانی بنیادوں پر تو کہیں مذہبی تفرقہ بازی اور کہیں جغرافیہ پر مبنی ہیں۔ ایران اور سعودیہ عرب کے مذہبی و نظریاتی بینادوں پر جھگڑے نے مشرق وسطی میں انتشار پیدا کر رکھا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان بشمول چین کے جغرافیائی تنازع سے براعظم ایشیاء کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ اور ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل یہ ملک اپنے لوگوں کی زندگیاں بہتر کرنے کی بجائے ایک ایسی ریس میں شامل ہیں جسکا نتیجہ تباہی ہے۔ اور کراہ ارض پر انسانوں کے ساتھ دیگر جانداروں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے سوا کچھ نہیں۔
کرونا اور اس جیسی ماضی میں تمام وباوں نے انسان کو ہر بار بتایا ہے کہ ویکسین بنانے کے لیے جنگی طیارے بنانے کی فیکٹریاں کی نہیں بلکہ لیبارٹریوں کی ضرورت ہے۔ بے ہنگم، بے مقصد ہجوم کو قابو میں لانے اور انکی تربیت کرنے کے لیے بیرکوں کی نہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے۔ سائنسدان، ٹیچرز، ڈاکٹرز، نرسز کی ضرورت ہے۔ انسان کو اس سیارے پر اپنی بقا کے لیے تمام ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اسے قدرت اور ماحول کے غضب سے لڑنے کے قابل بنا سکیں۔ جب ملکوں کے وسائل اور دولت انسانوں کی خوراک، تعلیم، صحت اور تربیت پر خرچ ہونے کی بجائے انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے ہتھیاروں پر خرچ ہوگی تو نا تو ہم وباوں سے نمٹ سکیں گے، نا ماحول ہماری حفاظت کرے گا، اور نا ہم بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک فراہم کر سکیں گے۔
اب یہ فیصلہ انسان نے کرنا ہے کہ اس نے بدلتے ماحول کا مقابلہ کرنا ہے یا خود کو اپنے ہی بنائے تباہ کن ہتھیاروں سے تباہ کر کہ صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ 2 کروڑ 76 لاکھ مسلح افراد پر وسائل کا استعمال کرنا ہے۔یا 7 ارب 57 کروڑ کی تعلیم، صحت، تربیت اور خوراک کے ساتھ بہتر معیار زندگی فراہم کرنے پر وسائل خرچ کرنے ہیں۔ آنے والے وقت میں جب آبادی زیادہ اور وسائل کم ہوں گے تو بھوک انسان کی سب سے بڑی دشمن ہوگی۔ قحط انسان کے لیے سب سے بڑا محاذ ہوگا اور یقنناٙٙ دھاتوں سے بنے ہتھیار اور گولیاں انسان کا پیٹ نہیں بھریں گی۔ انسان کو اس سیارے پر جسے زمین کہا جاتا ہے اپنی بقاء کے لیے یہ سوچنا پڑے گا۔