کورونا کی وباء سےمتاثر ھونے والوں میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی خواتین اساتذہ بھی شامل ھیں جو ایک سنگین مالی بحران سے دوچار ھیں۔ یہ وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں جو فروری سے بند ہیں اور اس وقت سے اب تک کسی ایک بچے سے بھی فیس نہیں لی گئی۔
ایسے پرائیویٹ اسکولوں میں ملازمت کرنے والی لیڈی ٹیچرز کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے۔
خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے اپنے گھر کے اخراجات کی مکمل ذمہ داری خود سنبھال رکھی ھے۔ وہ اپنی ماہانہ تنخواہوں سے اپنے گھر کا خرچہ چلاتی ھیں۔ ان میں سے کئی ٹیچرز کے شوہر موجود ہیں لیکن وہ کسی مجبوری کے تحت کام کاج نہیں کرتے اور اپنے خرچے کے لیے بھی اپنی بیوی کے محتاج ھیں۔
دوسری قسم ایسی خواتین اساتذہ کی ھے جو غیر شادی شدہ ہیں اور جو اپنی تنخواہ اپنے والد/والدہ کو دے دیتی ھیں اور ان کی یہ تنخواہ گھریلو اخراجات میں استعمال ھوتی ھے۔ اور یوں یہ ٹیچرز اپنے والدین کو مالی طور پر support کرتی ہیں۔
تیسری قسم ان خواتین اساتذہ کی ھے جو شوقیہ ٹیچنگ کر رھی ھیں۔ وہ یا تو کسی اور job کا انتظار کر رھی ھیں یا پھر وہ اپنی شادی کی منتظر ھیں۔ انھیں ملازمت کی ضرورت نہیں۔ وہ محض بوریت دور کرنے کے لیے ٹیچنگ کر رہی ھیں۔
وہ خواتین اساتذہ جو اپنا گھر چلاتی ھیں یا جو اپنے والدین کو معاشی طور پر support کرتی ھیں، ان کی تعداد سب سے زیادہ ھے اور اس وقت وہ شدید اذیت اور کرب میں مبتلا ھیں۔
ان کے پاس گھر کے اخراجات کے لیے پیسے نہیں۔ وہ اپنی جمع پونجی ختم کر چکی ھیں۔اب وہ کریں تو کریں کیا؟ کس کے آگے ہاتھ پھلائیں، کس سے بھیک مانگیں۔
ذرا تصور کیجیے ایک ایسی خاتون ٹیچر کا جو کراۓ کے گھر میں رہتی ھو۔ جس کے بچے ھوں، جو اپنے والدین یا شوہر کو بھی مالی طور پر support کرتی ھو، وہ کہاں سے مکان کا کرایہ ادا کرے ، کیسے بجلی اور گیس کے بل ادا کرے اور کیسے اپنے بچوں کا پیٹ پالے۔
میں حکومت سندھ سے اپیل کرتا ھوں کہ وہ ایسے نجی اسکولوں کی خواتین اساتذہ کے لیے کسی امدادی پیکیج کا اعلان کرے جنھیں اسکولوں کی بندش کی وجہ سے تنخواہ نہیں مل پا رہی۔
میں وفاقی حکومت سے بھی درخواست کرتا ھوں کہ عارضی طور پر بے روزگار ھو جانے والی لاکھوں خواتین اساتذہ کے لیے بھی مالی اعانت کا کوئ پروگرام تشکیل دے۔ تا کہ یہ اساتذہ مالی پریشانیوں سے نکل کر با عزت اور پر سکون ذندگی گزار سکیں۔