جدید دور کا ایک اہم تقاضا تعلیم ہے جس کے بغیر معاشرے میں ایڈجسٹ ہونا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اب سب سے زیادہ توجہ تعلیم پہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں۔
ا۔ اردو میڈیم تعلیم
2۔ انگلش میڈیم تعلیم
3۔ آکسفورڈ سلیبس کی تعلیم
خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرے حصے میں دوسری کیٹیگری والی تعلیم آئی۔ میٹرک میں بہت اچھے مارکس آنے کی وجہ سے مجھے بھی پری میڈیکل میں داخل کروا دیا گیا شاید والدین کے ذہن میں مجھے ڈاکٹر بنانے کےخواب پنپ رہے تھے۔ مڈل کلاس فیملیز سے تعلق رکھنے والے والدین جب لڑکی کو پڑھا رہے ہوتے ہیں تو ایک خیال ان کے دماغ میں ضرور آتا ہے کہ اتنا پیسہ لگا کہ ڈاکٹر تو بنا دیں لیکن چلے تو اس نے اگلے گھر ہی جانا ہے۔ دوسری طرف لڑکی بھی یہی سوچ رہی ہوتی کہ خوامخواہ والدین کے پیسے لگوانے ہیں۔ کوئی بھی ماسٹرز کی ڈگری کر لوں گی یہی کافی ہے۔ اسی کشمکش میں وہ اپنی تعلیم پہ وہ توجہ نہیں دے سکتی جس کی ضرورت ہوتی۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ اچھے مارکس تو آ گئے لیکن اتنے اچھے نہ آئے کہ ایم بی بی ایس کر لوں۔
پاکستانی یونیورسٹیز میں انٹرمیڈیٹ کے بعد بی ایس 4 سالہ پروگرام 2005 سے شروع ہو چکا تھا لیکن اپنے شہر میں سہولت نہ ہونے کی وجہ سے دو سالہ بی ایس سی باٹنی، ذوالوجی اور کیمسٹری کے مضامین میں کرنی پڑی۔ باٹنی سے رغبت تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے داخلہ لینے کے بعد کالج میں باٹنی کی پروفیسر تبادلہ کروا کے دوسرے کالج چلی گئی لیکن ہماری امیدیں جلد ہی رنگ لائیں اور ہمیں ڈاکٹر فاروق احمد سے باٹنی پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کے ٹیچنگ کے انداز اور بوٹینیکل کنسیپٹس سے متاثر ہو کر مستقبل میں باٹنی میں ماسٹرز کرنے کی ڈھان لی۔ Cycas اور Pinus سے الفت کی وجہ سے کالج میں دوستوں نے میری چھیڑ ہی بنا لی تھی۔
بی ایس سی کے بعد ایم ایس سی میں داخلہ لینے کے لئے سب سے مشکل مرحلہ مضمون کا انتخاب اور متعلقہ یونیورسٹی کے میرٹ پہ آنا ہوتا ہے۔ ان دونوں مراحل کو بخوبی سر انجام دیا اور بالآخر ایم ایس سی مکمل کر لی۔ شروع میں ٹارگٹ ایم ایس سی ہی تھا لیکن چونکہ میں نے 8th کلاس ، B.Sc اور M.Sc میں سکالر شپ حاصل کیا جس کی رقم مجھے میرے اخراجات سے زیادہ ملی لہذا مجھے ایم فل کرنے کیلئے اینکرجمنٹ ملی۔ ایک بار پھر میں نے باٹنی کا انتخاب کیا۔ جب بھی کسی سے اپنی تعلیمی مضمون کا ذکر کریں تو وہ اس مضمون میں ہوئی ریسرچ اور سکوپ بارے ضرور پوچھتے ہیں تو میں نے اپنے ذاتی تجربہ اور کچھ تگ و دو سے ذیل میں دی گئی باتیں اخذ کی ہیں۔
باٹنی کا سکوپ اور ریسرچ درج ذیل فیلڈز پہ منحصر ہے۔
1۔ Forensic Botany ایک نئی شاخ ہے جس میں پودے کے فیچرز سے کریمینل انویسٹیگیشن کی جا سکتی ہے۔ یہ ریسرچ کیلئے ایک نیا اور اچھا فیلڈ ہے۔
2۔ پودے کی اندرونی ساخت Digital 3D Imaging کی مدد سے واضح کی جا سکتی ہے۔
3۔ – Crude Drugs میں Adulterants کی Detection بھی جدید باٹنی کا فیلڈ ہے۔
4۔ آجکل Archeological Plant Remains کی شناخت پہ بھی ریسرچ ہو رہی ہے۔
5۔ Genome Skimming ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے پودوں کے Microsatellite loci کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
6۔ Expressed Sequence Tag-Simple Sequence Repeats (EST-SSR) Markers کی مدد سے Genetic Diversity معلوم کی جا سکتی ہے۔
7۔ پودوں کی وہ سی پیشیز جن کو دنیا سے ختم ہونے کا خدشہ ہے ان کی کنزرویشن کے پراجیکٹس پہ کام کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کچھ انٹرنیشنل این جی اوز جیسے WWF اور IUCN کر رہی ہیں۔
8۔ Herbal Medicines کو دنیا میں ایک بار پھر اہمیت دی جا رہی ہے۔ جن کی Detection اور Extraction پر کام کیا جا سکتا ہے۔
9۔ ٹشو کلچر ٹیکنیک کی مدد سے نہ صرف کم وقت میں نئے پودے تیار کیے جا سکتے ہیں بلکہ پودے اگائے بغیر ان کے پراڈکٹس بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
10۔ Genetic Engineering اور Hybridisation کی مدد سے High Yielding Varities اور بغیر بیج کے فروٹس بنائے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں فیصل آباد میں NIAB ، NIBGE اور اسلام آباد میں ARC بہت اچھا کام کر ہے ہیں۔
11۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ HEC اور باقی نیشنل اور انٹرنیشنل سائنٹیفک اداروں سے پراجیکٹس حاصل کر کے کام کیا جا سکتا ہے۔
12۔ مختلف پودوں میں Organic Dyes کی Detection اور Extraction کر کے انڈسٹریل سکیل پہ لانچ کیا جا سکتا۔
13۔ Environmental Consultants کے طور پہ بھی کام کیا جا سکتا۔ جس میں Hazardous اور Beneficial پودوں کی باالترتیب ممانعت اور گروتھ پہ کام ہو سکتا ہے نیز نرسریز، EIA اور گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس کو کنسلٹینسی مہیا کی جا سکتی ہے.
14۔ GPS/GIS ٹیکنالوجیز کی مدد سے Biodiversity کی Mapping کی جا سکتی ہے۔