Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86

یہ چند دنوں کی نہیں، مہینوں نہیں بلکہ برسوں کی بات ہے کہ میں اس سوچ میں رہا کہ کسی طرح آپ سے بات کروں، میرے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیوکہ اس خیال نے سب سے پہلے اس وقت جنم لیا جب شاید میری عمر چند سال ہوگی، جب دنیا اور اس سے متعلق تمام تصورات اور نظریات بھی واضح نہیں تھے۔
مسجد سے آنے والی صدائیں ایک مختلف تاثر چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں گھر میں سے کوئی بڑا باقاعدہ نئی سرگرمی میں مصروف ہوجاتا۔ مجھے یاد ہے سب سے پہلے اماں نے ایک دن کہا بیٹا تم بھی وضو کرو اور نماز ادا کرو۔ انہوں نے مجھے اس کا طریقہ سکھایا، جسے پہلی بار میں تھوڑا بھول گیا۔
میرا یہ سب عمل کرنا، اس وقت محض بڑوں کے حکم کو ماننے اور ایک تابعداری کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے جو کچھ مجھے بتایا وہ بھی آہستہ آہستہ ذہن کے گوشوں میں بیٹھا۔
بڑوں نے آپ کا تعارف ایسے ہی کرایا جیسے گھر کے بزرگ کا کرایا جاتا ہے، آپ کی عظمت اور کبریائی کا ذکر پھر آپ کے کلام کا حوالہ، یہ سب سننے میں آیا۔ اس کے لیے والدہ نے مجھے پڑھانا شروع کیا۔ میری نانی اماں نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی۔ وہ قصے کہانیوں کے ذریعے مجھے نہ صرف آپ کا تذکرہ کرتی تھیں بلکہ اچھے اور بُرے کی تفریق بھی واضح کرتی تھیں۔
مجھے صحیح طور پر یاد نہیں کس نے یہ بتایا تھا کہ آپ سے بات کی جائے، یقین جانئے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ کیسے بات کریں۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی بزرگ سے مکالمے کی ہمت پیدا کرنا ہو۔ ایک دن حوصلہ کرکے آپ کا کلام کھولا، تو آپ نے میرے جیسے انسانوں کے لیے بالکل صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے۔
آپ کی ذات رحمٰن اور رحیم ہے، انہیں صفات کے ساتھ آپ کا نام لے کر کوئی بھی کام شروع کرتے ہیں۔ رحمٰن آپ کی ایسی صفت یعنی جس کی رحمت میں جوش وخروش ہے، جو بہت زیادہ رحمتیں برسانے والا ہے۔ اور رحیم یعنی جس کی رحمت میں دوام اور تسلسل اور استواری ہے۔
سب سے پہلا لفظ حمد ہے، جو ہر قسم کی خوبیوں اور کمالات کے اعتراف کے لیے عام ہے۔ اسی میں شکر کا مفہوم بھی ہے، جس میں آپ کی ربوبیت ، رحمت اور عدل کی نشانیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور یہ شکر ہی نقطہ آغاز تھا۔
آپ نے واضح کردیا کہ آپ کے کلام سے کون لوگ فائدہ اٹھائیں گے اور کن لوگوں کو ہدایت حاصل ہوگی۔ آپ کے کلام پر عمل کرنے کے لیے قلب کی جو صلاحیت ضروری ہے ان میں اپنے عمل کو بالکل راست بنانا اور دوسروں پر رحم کے جذبات دل میں پیدا کرنا ہے۔ آپ نے بتادیا کہ ایسے بھی ہوں گے جنہیں آپ کی باتیں اچھی نہیں لگیں گی۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں وہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ آپ کے ماننے والے ہیں اور اس دن کو بھی مانتے ہیں جس کا آپ نے وعدہ کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ ایسے نہیں ہیں یہ دوسروں کو دھوکہ دینا چاہتےہیں ۔
میں نے یہ بات اپنے اندر کبھی دیکھی تھی اور اب احساس ہوا کہ واقعی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اچھا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کر نہیں رہے ہوتے۔
آپ نے درست کہا ہے کہ یہ حقیقت میں خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔
اماں نے چھوٹے ہوتے ہی مجھے بتادیا تھا کہ آپ کو جھوٹ اچھا نہیں لگتا، میں نے زندگی میں بے شمار مرتبہ جھوٹ بولا، جب چھوٹا تھا تو اماں کی بات یاد آجاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی بھول گئی۔
اصل میں اماں مجھے ڈراتی تھیں کہ اگر جھوٹ بولو گے تو وہ ماریں گی اور سچ بولنے پر مجھے انعام دیں گی۔ شاید مار کا ڈر اور انعام کا لالچ سب بہت پیچھے رہ گیا۔
آپ جانتے ہیں کچھ چھپا نہیں۔ زندگی میں کبھی بہت زیادہ اس چیز کو محسوس بھی نہیں کیا کہ اس کے نقصانات کتنے ہیں۔
اماں نے مجھے ایک سبق سکھایا تھا کہ بڑوں کی بات ماننا یعنی اطاعت کرنا ہی بندگی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کسیے ابلیس نے آپ کی بات نہیں مانی، اطاعت نہیں کی۔ یہ بھی بتایا کہ اس کا نام شیطان بھی اسی لئے پڑا کیونکہ وہ بڑا جلدباز، تندخو، مشتعل مزاج اور شریر وسرکش تھا۔
ابلیس نے آپ کی بات نہ مان کر گھمنڈ کیا۔ آپ نے اپنے بندے کے لیے تمام آسائشیں بہم پہنچائیں مگر ابلیس نے اسے بھی اپنی راہ پر ڈالا اور اطاعت سے منع کیا۔ اس کے لیے لالچ دل میں پیدا کردی۔ اور وہ بھٹک گیا۔
آپ کی نافرمانی نے جہاں اُسے سزا کا حق دار ٹھہرایا وہاں آپ نے اپنے بندے کو بھی راندہ درگاہ کیا۔
آپ نے انہیں اپنے گھر سے نکال باہر کیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ تم دونوں کے درمیان اب دشمنی کا رشتہ ہے۔ جب تک تم اس زمین پر رہو گے۔
آپ نے اسی وقت اپنے بندوں کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اوار پاک چیزیں ہیں انہیں تم کھاو۔ لیکن اس کھلے دشمن کے نقش قدم پر ہرگز نہیں چلنا۔ کیونکہ وہ تمہیں بُرائی اور بے حیائی کی راہ دکھائے گا۔
آپ نے یہ باتیں اپنے کلام مں بتائی مگر ہم نے اسے غور سے نہیں پڑھا اور بے شمار ایسی باتوں پر عمل بھی کیا اور کررہے ہیں جن سے آپ نے سختی سے منع کیا ہے۔ پھر وہی بات اطاعت کی آجاتی ہے۔ ہم میں سے جس نے اپنی عادت بنالی کہ وہ آپ کے بتائے راستے پر چلے گا وہ ناکام نہیں رہا۔ اس کی خیر ہی ہوئی ہے۔
سب سے بڑھ کر لوگوں نے آپ کی تعریف ہی نہیں سمجھنے کی کوشش کی، آپ کی ذات کو ماننے والے ہم سب ہیں مگر آپ کو سمجھنے والے شاید اتنے نہیں۔ کیونکہ ہم نے آپ کے ساتھ تعلق بنانے کا عہد تو کیا ہے لیکن اس کو مضبوط اور پختہ بنانے کے طریقے اختیار نہیں کئے۔

یہ چند دنوں کی نہیں، مہینوں نہیں بلکہ برسوں کی بات ہے کہ میں اس سوچ میں رہا کہ کسی طرح آپ سے بات کروں، میرے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیوکہ اس خیال نے سب سے پہلے اس وقت جنم لیا جب شاید میری عمر چند سال ہوگی، جب دنیا اور اس سے متعلق تمام تصورات اور نظریات بھی واضح نہیں تھے۔
مسجد سے آنے والی صدائیں ایک مختلف تاثر چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں گھر میں سے کوئی بڑا باقاعدہ نئی سرگرمی میں مصروف ہوجاتا۔ مجھے یاد ہے سب سے پہلے اماں نے ایک دن کہا بیٹا تم بھی وضو کرو اور نماز ادا کرو۔ انہوں نے مجھے اس کا طریقہ سکھایا، جسے پہلی بار میں تھوڑا بھول گیا۔
میرا یہ سب عمل کرنا، اس وقت محض بڑوں کے حکم کو ماننے اور ایک تابعداری کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے جو کچھ مجھے بتایا وہ بھی آہستہ آہستہ ذہن کے گوشوں میں بیٹھا۔
بڑوں نے آپ کا تعارف ایسے ہی کرایا جیسے گھر کے بزرگ کا کرایا جاتا ہے، آپ کی عظمت اور کبریائی کا ذکر پھر آپ کے کلام کا حوالہ، یہ سب سننے میں آیا۔ اس کے لیے والدہ نے مجھے پڑھانا شروع کیا۔ میری نانی اماں نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی۔ وہ قصے کہانیوں کے ذریعے مجھے نہ صرف آپ کا تذکرہ کرتی تھیں بلکہ اچھے اور بُرے کی تفریق بھی واضح کرتی تھیں۔
مجھے صحیح طور پر یاد نہیں کس نے یہ بتایا تھا کہ آپ سے بات کی جائے، یقین جانئے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ کیسے بات کریں۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی بزرگ سے مکالمے کی ہمت پیدا کرنا ہو۔ ایک دن حوصلہ کرکے آپ کا کلام کھولا، تو آپ نے میرے جیسے انسانوں کے لیے بالکل صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے۔
آپ کی ذات رحمٰن اور رحیم ہے، انہیں صفات کے ساتھ آپ کا نام لے کر کوئی بھی کام شروع کرتے ہیں۔ رحمٰن آپ کی ایسی صفت یعنی جس کی رحمت میں جوش وخروش ہے، جو بہت زیادہ رحمتیں برسانے والا ہے۔ اور رحیم یعنی جس کی رحمت میں دوام اور تسلسل اور استواری ہے۔
سب سے پہلا لفظ حمد ہے، جو ہر قسم کی خوبیوں اور کمالات کے اعتراف کے لیے عام ہے۔ اسی میں شکر کا مفہوم بھی ہے، جس میں آپ کی ربوبیت ، رحمت اور عدل کی نشانیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور یہ شکر ہی نقطہ آغاز تھا۔
آپ نے واضح کردیا کہ آپ کے کلام سے کون لوگ فائدہ اٹھائیں گے اور کن لوگوں کو ہدایت حاصل ہوگی۔ آپ کے کلام پر عمل کرنے کے لیے قلب کی جو صلاحیت ضروری ہے ان میں اپنے عمل کو بالکل راست بنانا اور دوسروں پر رحم کے جذبات دل میں پیدا کرنا ہے۔ آپ نے بتادیا کہ ایسے بھی ہوں گے جنہیں آپ کی باتیں اچھی نہیں لگیں گی۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں وہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ آپ کے ماننے والے ہیں اور اس دن کو بھی مانتے ہیں جس کا آپ نے وعدہ کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ ایسے نہیں ہیں یہ دوسروں کو دھوکہ دینا چاہتےہیں ۔
میں نے یہ بات اپنے اندر کبھی دیکھی تھی اور اب احساس ہوا کہ واقعی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اچھا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کر نہیں رہے ہوتے۔
آپ نے درست کہا ہے کہ یہ حقیقت میں خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔
اماں نے چھوٹے ہوتے ہی مجھے بتادیا تھا کہ آپ کو جھوٹ اچھا نہیں لگتا، میں نے زندگی میں بے شمار مرتبہ جھوٹ بولا، جب چھوٹا تھا تو اماں کی بات یاد آجاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی بھول گئی۔
اصل میں اماں مجھے ڈراتی تھیں کہ اگر جھوٹ بولو گے تو وہ ماریں گی اور سچ بولنے پر مجھے انعام دیں گی۔ شاید مار کا ڈر اور انعام کا لالچ سب بہت پیچھے رہ گیا۔
آپ جانتے ہیں کچھ چھپا نہیں۔ زندگی میں کبھی بہت زیادہ اس چیز کو محسوس بھی نہیں کیا کہ اس کے نقصانات کتنے ہیں۔
اماں نے مجھے ایک سبق سکھایا تھا کہ بڑوں کی بات ماننا یعنی اطاعت کرنا ہی بندگی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کسیے ابلیس نے آپ کی بات نہیں مانی، اطاعت نہیں کی۔ یہ بھی بتایا کہ اس کا نام شیطان بھی اسی لئے پڑا کیونکہ وہ بڑا جلدباز، تندخو، مشتعل مزاج اور شریر وسرکش تھا۔
ابلیس نے آپ کی بات نہ مان کر گھمنڈ کیا۔ آپ نے اپنے بندے کے لیے تمام آسائشیں بہم پہنچائیں مگر ابلیس نے اسے بھی اپنی راہ پر ڈالا اور اطاعت سے منع کیا۔ اس کے لیے لالچ دل میں پیدا کردی۔ اور وہ بھٹک گیا۔
آپ کی نافرمانی نے جہاں اُسے سزا کا حق دار ٹھہرایا وہاں آپ نے اپنے بندے کو بھی راندہ درگاہ کیا۔
آپ نے انہیں اپنے گھر سے نکال باہر کیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ تم دونوں کے درمیان اب دشمنی کا رشتہ ہے۔ جب تک تم اس زمین پر رہو گے۔
آپ نے اسی وقت اپنے بندوں کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اوار پاک چیزیں ہیں انہیں تم کھاو۔ لیکن اس کھلے دشمن کے نقش قدم پر ہرگز نہیں چلنا۔ کیونکہ وہ تمہیں بُرائی اور بے حیائی کی راہ دکھائے گا۔
آپ نے یہ باتیں اپنے کلام مں بتائی مگر ہم نے اسے غور سے نہیں پڑھا اور بے شمار ایسی باتوں پر عمل بھی کیا اور کررہے ہیں جن سے آپ نے سختی سے منع کیا ہے۔ پھر وہی بات اطاعت کی آجاتی ہے۔ ہم میں سے جس نے اپنی عادت بنالی کہ وہ آپ کے بتائے راستے پر چلے گا وہ ناکام نہیں رہا۔ اس کی خیر ہی ہوئی ہے۔
سب سے بڑھ کر لوگوں نے آپ کی تعریف ہی نہیں سمجھنے کی کوشش کی، آپ کی ذات کو ماننے والے ہم سب ہیں مگر آپ کو سمجھنے والے شاید اتنے نہیں۔ کیونکہ ہم نے آپ کے ساتھ تعلق بنانے کا عہد تو کیا ہے لیکن اس کو مضبوط اور پختہ بنانے کے طریقے اختیار نہیں کئے۔