آئیڈیاز کے کارخانوں کی مشینوں کو جیسے زنگ لگے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں اور ہنر کہیں دور بلکہ بہت دور آنکھ اوجھل ہوگئے۔برسوں سے ’پرانا منجن‘ ہے جسے ہر سال عید پر نئی پیکنگ کے ساتھ پیش کردیا جاتا ہے اور ایسی دھوم دھڑکے ساتھ تشہیر کی جاتی ہے کہ لگتا ہے اس بار تو کچھ نیا مل ہی جائے گا۔ لیکن ہر بار گھسے پٹے آئیڈیاز کے ساتھ عید نشریات پیش ہوتی ہیں۔ جن میں مہمانوں کے زرق برق چمکیلے اور بھڑکیلے لباس ہوتے ہیں۔ بات بے بات پر فل شگاف قہقہوں کا طوفان، اُس پر وہی سوالات اور حفظ شدہ جواب جن کو سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران مختلف چینلز کی عید نشریات کو دیکھ کر ہمیں بخوبی معلوم ہوگیا ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، جاوید شیخ، میرا، صبا قمر وغیرہ کو بچپن میں کتنی عیدی ملی تھی اور وہ کس طرح اسے استعمال میں لایا کرتی تھیں۔ ناظرین تو اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ مہوش حیات، عید کا دن کیسے گزارتی ہیں یا نیلم منیر کی زندگی میں کون سی عیدخراب یا یادگار گزری۔عالم یہ ہے کہ حالات حاضرہ کے پروگرام کرنے والے ایک دوسرے کے مخالف سیاست دانوں کو ’بابو جی‘ بلکہ یہ کہیں کہ دلہا بنا کر لے آتے ہیں۔ اور جنہیں سیاست دان نہیں ملتے وہ دوسرے چینلز کے میزبانوں پر ہی یہ ذمے داری ڈال دیتے ہیں۔جو سوال و جواب ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ناظرین تو یہ بھی جان چکے ہیں کہ فلاں سیاست دان کو شیر خرما پسند ہے یا بریانی یا پھر وہ سو کر دن گزارتے ہیں ۔نیو ز اینکرز اور ہوسٹ، بن ٹھن کر حسب روایت تہوار دفتر میں گزارتے ہیں‘ یہ بات بھی ہمیں گھٹی کی طرح گھول کر پلا دی گئی ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جس طرح ماہ صیام میں بھولے بسرے نعت خواہ اور قاری حضرات کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ سینئر فنکاروں کی یاد بھی عید کے دن ہی آتی ہے۔ مانا ہے کہ اس سارے منجن کو فروخت کرنے میں گاہک کچھ تھوڑے بہت نئے مل جاتے ہیں لیکن ان میں اکثر بالخصوص خواتین، مہمانوں کے صرف ملبوسات دیکھتی ہیں، انہیں سننے میں ذرا کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ جبھی لگتا ہے کہ ذہن نشین کرانے کے لیے بار بار ایک جیسے سوال دہرائے جاتے ہیں اور پھر یکسانیت سے بھرے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔
کیسی عجیب بات ہے کہ پورے رمضان، مقدس مہینے کی فضلیت بیان کرنے میں اپنی تمام تر ’لیاقت‘ اور ’قابلیت‘ استعمال کرنے والے میزبان عید کے دن اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں تو کورونا وائرس اور پھر طیارہ حادثے کی وجہ سے ٹی وی چینلز پر وہ دھوم دھڑکا نہیں ہوا جس سے عید کے دنوں میں گزرنا پڑتا تھا۔ لیکن پھر بھی سب نے اپنا برابر حصہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔زور و شور سے باور کرایا گیا کہ اس مرتبہ کچھ ذرا ہٹ کر ہوگا لیکن دیکھنے کے بعد لگا کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ خصوصی عید پلے کے نام پر مزاحیہ جملوں پر نہ ہنسنے کی خامی ، بیک گراؤنڈ لافٹر سے پوری کردی گئی ۔ ڈراموں کی کہانیوں میں بھی محبوب قدموں پر لانے کے گُر بتائے جارہے ہیں۔ اوٹ پٹانگ ڈرامائی موڑ کو دیکھ کر مسکرانا نہیں رونا ہی آتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان ڈراموں میں اپنی تئیں یہ جدت لائی گئی ہے کہ دو تین فلم اسٹارزکو شامل کردیں اور تھوڑا نا چ گانا۔ بس ’خصوصی عید پلے‘ کا کام پورا ہوگیا۔۔کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جوسرپٹ بھاگتے ان شہ سواروں کو یہ سمجھائے کہ عید ٹرین‘ یا پھر ’ہاف پلیٹ‘ جیسا ہی تھوڑا بہت کام کرلیں تو عید کا مزا دوبالاہ ہوجائے۔اسی طرح عید پر فلموں کی ٹی وی پر نمائش بھی اب عام ہوگئی ہے۔ پہلے مزاحیہ مشاعرہ بھی ہوجایا کرتا تھا لیکن اب ’ادب‘ کی ناقدری کا رنگ عید نشریات میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ چینلز پر اسپانسر ز کی عدم فراہمی بھی اس شعبے کو جیسے کھا گئی ہے۔لگتا صرف یہ ہے کہ عید صرف، فنکار، گلوکار، سیاست دان یا کھلاڑی مناتے ہیں، ادیب اور شعرا حضرات کا اس سے کوئی تعلق نہیں، کوئی ہمت کرکے بلکہ یہ کہیں کہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کبھی امجد اسلام امجد، افتخار عارف یا پھر اصغر ندیم سید کو بلا کر بہت بڑا احسان کرلیتا ہے۔
کم و بیش ستر کے قریب چینلز ہیں جہاں ہر فن مولا اور غیر معمولی خصوصیات والے ہزاروں افراد ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو عید کی طے شدہ نشریات سے جان چھڑا کر کچھ ایسا کر جائے جو برسوں تک ذہنوں میں محفوظ رہے۔ اسی لیے بحالت مجبوری یہی کہا جاسکتا ہے چینلز کی میٹھی عید کی میٹھی خوشیوں کو جہاں پہلے برداشت کرتے آئے ہیں وہیں اسی طرح مستقبل میں بھی کرتے رہیں۔