Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میں فلائٹ سے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ۔ بورڈنگ کارڈ بھی ہاتھ میں تھا لہذا اپنا سامان چیک کروا کر اور باڈی سرچ کے بعد اندر ائر پورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس میں سیر کرنے لگی ۔ سارہ اور مایا کے پسندیدہ ڈینش بسکٹ خریدے اور انور کے لیے ایک ڈارک چاکلیٹ کا پیکٹ ۔ بورڈ کیس کھول کر چیزیں اس میں ڈالنا چاہیں تو جگہ کم محسوس ہوئی ۔ بالآخر ایک اضافی شاپر سنبھال کر اپنے جہاز کا گیٹ نمبر چیک کر نے لگی۔ جہاز کے لگنے میں ابھی کچھ وقت تھا میں نے ایک کافی کا کپ خریدا اور آہستہ آہستہ اپنے مطلوبہ لاؤنج میں پہنچ گئی ۔ میرا مطلوبہ لاؤنج ائر پورٹ کی سب سے نچلی منزل پر تھا۔ دس پندرہ منٹ تک مٹر گشت کرتے کرتے میں انتظار گاہ میں پہنچ گئی اور بیٹھتے ہی اپنا انٹرنیٹ کنکٹ کرکے سب سے پہلے صدف کو شکریہ لکھا پھر میرے شوہر نامدار آن لائین نظر آئے تو ان کو میسج کیا کہ جہاز بروقت ہی برلن پہنچے گا ۔ انور عارف نقوی صاحب کے یہاں گئے ہوئے تھے انہوں نے مزید بتایا کہ اردو انجمن کے اگلے جلسے کے لیے تاریخ طے کر دی گئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے ایئر پورٹ لینے آئیں گے یا کہ میں ٹرین سے گھر آجاؤں ؟ انور نے میرے اس سوال کو مذاق میں لیتے ہوئے کہا کہ “ ہاں اب تک تو تمہیں میں نہ کبھی ایئر پورٹ چھوڑنے گیا ہوں نہ ہی لینے آیا ہوں تو اس بار بھی خود ہی آجانا” میں انور سے بات چیت کے دوران فیس بک پر خبر دیکھی کہ معروف ایکٹوسٹ اور قانون دان عاصمہ جیلانی کی وفات ہوگئی ہے۔ میں نے ایک چھوٹا سا اسٹیٹس فیس بک پر اس حوالے سے لکھا ابھی پوسٹ نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا کہ جہاز میں سوار ہونے والے مسافر اے اور بی کیٹگری کے حوالے سے جہاز میں داخل ہونے کے لیے چیکنگ کی قطار بنا لیں۔ میں نے اپنے بورڈنگ کارڈ پر نظر ڈالی وہاں اے لکھا تھا ۔ میں قطار میں لگنے کو جیسے ہی کھڑی ہوئی تو محسوس ہوا کہ میرے سر سے کوئی درد چیرتا ہوا میرے ہاتھ، جبڑے اور سینے میں داخل ہورہا ہے۔ ایک دم آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ میں واپس اپنی سیٹ پر گرتے ہوئے بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کچھ سائے میرے سامنے سے گزر رہے ہیں ۔ میں نے مدد کے لیے پکارنا چاہا لیکن آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ میں اسی حالت میں وہاں بیٹھی رہی کچھ دیر بعد ہمت کر کے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو دھڑام سے زمین پر گر گئی۔ جہاز کی سیکیورٹی کا عملہ دوڑ کر میرے پاس آیا ، مجھے اتنا یاد ہے کہ کسی نے آواز لگا کر مجھے جگانے کی کوشش کی۔ میں بے ہوش ہوگئی تھی۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو میں ایک ہسپتال نما جگہ پر تھی اورایئر پورٹ کے کئی لوگ اور ایمرجنسی میڈیکل ٹیم میرے ارد گرد بیٹھی مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر ایک ڈاکٹر نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا کہ میری ابلاغ کی زبان کون سی ہے یا میں کون سی زبان میں بہتر طور پر بات کر سکتی ہوں۔ میرے منہ سے “ اردو “ نکلا۔ انہوں نے میرے جرمن پاسپورٹ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا “کیا تم جرمن نہیں جانتی ؟ تب میں نے فوری کہا کہ ہاں بالکل انگریزی ، جرمن اردو اور ہندی میں بات کر سکتی ہوں۔ فوری ایک جرمن میل نرس نے آگے بڑھ کر مجھے بتانا شروع کیا کہ میرا بلڈ پریشر انتہائی درجے تک بڑھا ہوا ہے اور ای سی جی بھی نارمل نہیں ہے۔ اس لیے ایئر پورٹ کے ایمرجنسی روم سے مجھے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے گھر فون کرنا ہے تب اس نے میرے اوور کوٹ کی جیب سے فون نکال کر دیا میں نے انور کو فون کیا لیکن انہوں نے ریسو نہیں کیا تو میں نے ایک میسج بھیجا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے میں اس جہاز سے نہیں آرہی۔ شاید پہلے وہ یہ خبر پڑھ کر مذاق سمجھے لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے کال کی تو میں نے مختصراً انہیں بتایا کہ میں اس وقت ایمبولینس میں ہوں ہسپتال جانے کے لیے۔۔۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ ڈاکٹر یا ایمرجنسی عملے نے میرا فون لے لیا اور نہایت پرخلوص ہوکر محبت سے کہا کہ میں اب بات نہ کروں بلکہ نام بتادوں تو وہ کوپن ہیگن میں اور جرمنی میں میرے لوگوں سے رابطہ کر کے انہیں خود تمام صورتحال بتا دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ انور اور صدف مرزا نامی دو لوگوں سے رابطہ کر کے میری صورتحال بتا دیجئے۔ وہ مہربان شخص میرے فون کو کچھ دیر ہاتھ میں لے کر نمبر و نام تلاش کرنے لگا ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے فون میں رابطے کے نام اردو میں محفوظ ہیں اور افسوس کہ میں اردو نہیں پڑھ سکتا۔ اس وقت مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہر جگہ اردو سے محبت کا اظہار شاید درست نہیں ۔۔۔۔ لاطینی حروف تہجی کی اہمیت اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔خاص طور پر کسی ریکارڈ یا نشانی کے لیے۔
میں نے دوبارہ موبائل سے انور اور صدف کے نمبر نکال کر اسے دیے جو اس نے اپنے فون میں محفوظ کر لیے۔ ہم ہسپتال پہنچے اور ایمرجنسی وارڈ پہنچا دیئے گئے جہاں ایک جرمن بولنے والی نرس کا فوری انتظام ہوا۔ ڈنمارک میں بھی لوگ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح اتنی انگریزی نہیں بولتے ۔ بس کام چلانے کی حد تک ہی گفتگو کرتے ہیں۔ میرا ای سی جی اور بلڈ پریشر مستقل بڑھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کچھ مشینوں اور دواؤں کے زریعے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نرس نے بلڈ لینے اور ڈرپ لگانے کے لیے بازو اور ہاتھوں کی پشت پر نسیں تلاش کرنا شروع کی اور کئی جگہ ناکامی کے بعد میری ہتھیلی کی پشت سے خون کے فوارے سے چھوٹ گئے۔ میرے کپڑے اور بستر پر خون چاروں طرف پھیل گیا۔ وہ نرس گھبرا گئی اور آواز دے کر مزید عملے کو بلایا۔ ایک صحتمند اور لمبی چوڑی نرس نے آکر تمام حالات قابو کئے اور بازو میں صحیح جگہ نس تلاش کرکے ڈرپ اور سرنج لگائی ۔ اس دوران وہ مجھ سے مسکرا کر کہنے لگی
تم پریشان نہ ہو ۔۔۔ذرا سا ہی خون نکلا ہے وہ بھی علاج کے لیے لیکن تم جرمنوں نے تو ہم ڈینش لوگوں کا بہت ناحق خون بہایا ہے”
وہ یہ بات مذاق میں کہہ رہی تھی لیکن میں نے اپنا دامن بچاتے ہوئے کہا کہ میں تو پیدائشی پاکستانی ہوں جرمن شہریت تو مصلحتاً لینا پڑی ۔۔۔مجھ میں تو کسی ظالم شخص کا خون ہو ہی نہیں سکتا میرے جسم میں بھی محنت و محبت کے علاوہ کسی اور خون کا نمونہ نہیں ہے اور ایسے نادر خون کو ناحق مغالطے میں ضائع کرنا دور اندیشی نہیں ” ہے “ میرے اس جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی تمہاری تو شکل و رنگت اور قد کاٹھ ہی بتا رہا ہے کہ تم مظلوم قوم سے تعلق رکھتی ہو۔ اسی ہنسی مذاق میں گہری گفتگو جاری رہی ۔ میری حالت رفتہ رفتہ بہتر ہورہی تھی، کچھ ٹیسٹ ہوگئے تھے اور کچھ باقی تھے۔ میرا لباس تبدیل کر کے مجھے ہسپتال کے وارڈ میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ اسی اثناء میں صدف مرزا ایمرجنسی روم میں زبیر صاحب کے ساتھ داخل ہوئیں۔ بیچاری کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ انہوں نے کافی دیر بعد جرمنی سے انور کا میسج اور میری مس فون کال اپنے فون پر دیکھ کر انور سے رابطہ کیا تھا اور ایڈریس لے کر ہسپتال پہنچی تھیں۔ زبیر صاحب بھی بہت فکر مند تھے۔ صدف کو دیکھ کر مجھے تھوڑی ڈھارس ہوئی ۔ اُن کے وہاں ہوتے ہی کچھ اور ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے کہا کہ ایسی خطرے کی اب کوئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی چوبیس گھنٹے وہ مجھے زیر نگرانی رکھیں گے ۔ صدف کچھ دیر بیٹھ کر اگلی صبح آنے کا کہہ کر چلی گئیں ۔ ادھر جرمنی میں انور پریشان ہوگئے اور بڑی بیٹی سارہ کو ہوسٹل سے فوری گھر آنے کا کہہ کر اپنی کوپن ہیگن کے لیے فلائٹ تلاش کرنا شروع ہوگئے۔ انہیں دو دن کے بعد کی فلائٹ مل رہی تھی۔ میری بیٹیاں میرا حال سن کر پریشان تھیں ۔ میری عزیز از جان دوست اور بھابھی قدسیہ اور ذوالقرنین بھائی نے ہمیشہ کی طرح میرے بچوں اور انور کو حوصلہ دیا، انور کے بڑے بھائی سرور غزالی جو دوست زیادہ ہیں انہوں نے بھی انور کو حوصلہ دیا۔سرور بھائی کی ہمت دلانے کی وجہ سے انور کو ہمیشہ ہر مشکل سے نجات کا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملی ہے۔
مجھے ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں کئی مشینوں اور تاروں میں جکڑ کر لٹا دیا گیا۔ چوبیس گھنٹے ایسی حالت میں رہنے کا سوچ کر مجھے پریشانی تھی۔ لیکن اگلی صبح مجھے صرف ای سی جی اور بلڈ پریشر کی چھوٹی سے مشین لگا دی گئی اور نارمل چلنے پھرنے کو کہا گیا۔ اس دوران اس وارڈ میں ایک بوڑھی عورت بھی آگئی تھی جو تھوڑی بہت جرمن جانتی تھی۔ صبح ناشتے کے وقت وہ جرمن زبان سے آشنا نرس میرے پاس آئی اور گذشتہ روز اپنی ناکام بلڈ لینے کی کوشش پر معذرت کی۔ اس نرس نے بتایا کہ اس کا دوست پاکستانی ہے اور وہ چند اردو کے الفاظ جیسے سلام و شکریہ کہنا جانتی ہے۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں اردو اور ہندی زبانیں برلن کی جامعات میں پڑھاتی ہوں تو وہ بضد ہوئی کہ میں صحتمند ہونے کے بعد اسے اسکائیپ پر اردو زبان بولنا سکھا دوں ، اس نے میرا فون نمبر لے لیا۔ اس نرس نے کہا کہ اردو کی تحریری مشق میں ابھی اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن بول کر اور سن کر وہ اردو زبان کے ابلاغ سے آشنا ہونا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ برلن جاکر اور طبیعت کی بحالی کے بعد میں اُس کو آن لائین اردو ضرور سکھاؤنگی۔
صبح جب ڈاکٹرز وزٹ پر آئے تو مجھے انہوں نے خبر دی کہ گذشتہ روز مجھے ہلکا سا ہارٹ اٹیک آیا تھا جس کی جانچ کے لیے انجیو پلاسٹی یا انجیو گرافی کرنا لازمی ہے۔ اگلی صبح مجھے کوپن ہیگن کے کارڈ یو سینٹر منتقل کیا جائے گا جہاں یہ انجیوپلاسٹی ہوگی۔ جس کے کامیاب نتائج کے بعد کے دو دن کے بعد مجھے فلائی کرکے واپس برلن جانے کی اجازت ہوگی۔
میں یہ سب کچھ سن کر پریشان ہوگئی اور انور کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے برلن میں ہیلتھ انشورنس کے دفتر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن کے ہسپتال سے وہ لوگ بھی رابطے میں ہیں اور اگر ہیلی کاپٹر سے بھی فوری برلن لاکر علاج کروانا مقصود ہو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن کوپن ہیگن کے ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ رسک نہ لیا جائے اور انجیوپلاسٹی یا گرافی کے بعد ہی مریض کو واپس بھیجا جائے۔ کچھ ضروری کاغذی کارروائی کے بعد یہ طے پا گیا کہ اگلی صبح مجھے کارڈیالوجی کے بہترین اور معروف ہسپتال Rigshospitalet میں منتقل کر دیا جائے گا۔
لنچ ٹائم سے گھنٹہ بھر پہلے صدف مرزا اور عالیہ ہسپتال پہنچ گئے۔ عالیہ میرے لیے جیولری کا تحفہ لے کر آئی تھی۔ اس نے بہت محبت سے تحفہ دیتے ہوئے کہا
“ آنٹی آپ سے اتنی جلدی دوبارہ ملاقات کا نہیں سوچا تھا ۔۔۔آپ کا تحفہ دینے میں خود آجاتی لیکن یہ کچھ اچھا نہیں کیا آپ نے کہ گفٹ لینے کے لیے اتنا بڑا رسک لے لیا”
میں اور صدف اس کی اس شرارتی گفتگو پر ہنس پڑے ۔ عالیہ نے ساری میڈیکل رپورٹس دیکھیں اور تسلی دی کہ اب سب ٹھیک ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر وہیں راہداری میں کچھ دیر چہل قدمی بھی کرتی رہی اور ساتھ ساتھ میرا بلڈ پریشر اور ای سی جی بھی دیکھتی رہی۔ عالیہ اور صدف کافی دیر بیٹھ کر واپس چلی گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد سرور صاحب اور زبیر صاحب دوبارہ آئے اور مجھے تسلی دے کر گئے کہ صبح انور ظہیر کو وہ ائر پورٹ سے لے کر ہسپتال پہنچا دیں گے ۔ انور نے ہسپتال کے قریب ہی اپنا ایک ہوٹل بھی بک کر لیا تھا۔ وہ اگلے روز صبح کی پہلی فلائیٹ سے کوپن ہیگن پہنچ رہے تھے ۔ میں نے ان دونوں مہربانوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ چودھری سرور صاحب اور زبیر صاحب نے اس مشکل وقت میں میری بہت مدد کی تھی ان دونوں کا اور صدف مرزا کا یہ احسان مجھے زندگی بھر یاد رہے گا کہ اس غیر زبان پردیس میں وہ میری زبان بنے اور اس مشکل وقت میں میری فیملی کے لیے بھی مددگار رہے۔ میں نے پاکستان فون کرکے اپنے چھوٹے بھائی اعظم اور بہن ثروت کو جب اطلاع دی تو وہ دونوں بھی بے حد پریشان ہوگئے۔ دو ماہ قبل میری بڑی بہن کی تکلیف دہ علالت اور وفات نے انہیں ایک جھٹکا پہلے ہی دے رکھا تھا۔ اعظم نے صدقہ و خیرات کے ساتھ ساتھ دعائے صحت کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر دیں۔ میں سب کی دعائیں ، محبتیں سنبھالے اپنے رب کی کرم نوازیوں کے ساتھ مطمئن تھی اور امید تھی کہ اللہ مجھ پر ہمیشہ کی طرح مہربان رہے گا اور کامیاب انجیوگرافی ہوجائے گی۔
اگلے روز صبح فجر کی نماز میں نے بستر بیمار پر ہی ادا کی اور ساتھ ہی دو رکعت نماز کا اہتمام اپنی صحت و زندگی کے لیے کیا۔ صبح نہار منہ کچھ ضروری بلڈ ٹیسٹ اور دواؤں کے بعد مجھے دوسرے ہسپتال میں ٹرانسفر کرنے کے لیے ہسپتال کی ایمبولینس اور عملہ آگیا۔ ادھر انور کا بھی اسی دوران فون آیا کہ وہ گھر سے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہورہے ہیں ۔میری ہمت بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جلد مجھے برلن اپنے ساتھ لے جانے کے لیےآرہے ہیں اس لیے میں کوئی فکر نہ کروں۔ انور اپنی طبیعت میں بہت حساس اور نرم دل انسان ہیں اُن کی یہی خوبیاں شاید ان کی کمزوری بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ مشکل وقت میں ہمت جلد ہار دیتے ہیں لیکن اس بار میں نے ان کے لہجے میں ایک عزم محسوس کیا تھا۔ اُن کے ساتھ اس چھبیس سالہ رفاقت میں ایسے لمحات کم ہی آئے ہیں لیکن جب بھی یہ لمحے آئے ہیں مجھے اپنی زندگی سے محبت ہوتی محسوس ہوئی ہے۔
ہسپتال پہنچ کر مجھ سے کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور بتایا گیا کہ آج کے شیڈیول میں میرا آپریشن پہلے نمبر پر ہے۔ ضروری ہدایات اور اطلاعات بہم پہنچانے کے بعد مجھے آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا۔ مکمل طور پر میں اس انجیو گرافی میں بے ہوش نہیں تھی بلکہ ڈاکٹروں کی تمام کارروائی سامنے اسکرین پر دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ میری کلائی پر ایک چھوٹا سا کٹ لگا کر ایک باریک تار نما چیز دل تک پہنچائیں گے اور جہاں جہاں دل کی شریانوں میں راستہ تنگ محسوس ہوگا وہاں ایک ہوا کا چھوٹا سا غبارہ نما عنصر چھوڑ دیا جائے گا جو دل کی تنگ شریانوں کو کھولنے کا کام کرئے گا۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اگر کلائی سے دل تک نہ پہنچا جاسکا تو ٹانگ میں جانگھ کے حصے پر طبع آزمائی کی جائے گی۔ لیکن ہم ٹھہرے شاعر و ادیب لوگ ! اتنے معتبر ، خوبصورت اور نرم خومسیحاؤں نے جب کلائی پکڑنے کا کہا تو کیسے انہیں دل کا راستہ نہ دکھاتے۔ کچھ دیر بعد ہمارے دل تک وہ اپنے فنِ مسیحائی کا جب راستہ پا گئے تو مبارکباد دیتے ہوئے کامیاب آپریشن کی نوید سنائی۔ ساتھ میں دل میں اضافی عنصر کو ڈال کر کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر سے باہر روم میں شفٹ کردیا۔ اس وقت دل زیرو میٹر کی نئی کنڈیشن میں آگیا تھا اور اس ہی لمحے ہسپتال کے کمرے میں انور بھی پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے بڑھ کر ملنا چاہا تو نرس نے ہمیں کمرے میں یہ کہہ کر الگ کر دیا کہ ابھی مجھے کچھ دیر کے لیے سونا بہت ضروری ہے۔ پھر کسی جذباتی سین کے بغیر وہ انور کو اپنے ساتھ ڈائینگ ہال میں لے جاکر ناشتہ کرونے لگی اور میری کلائی سے خون میں ڈالی گئی اضافی ہوا کو نکال کر سونے کے لیے دوائی کھلا دی۔
کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو انور بیچارے سامنے کرسی پر اُونگھ رہے تھے۔ میں پلنگ سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو وہ جاگ گئے۔ پھر ہم نے ڈھیروں گفتگو ایسے ہی کی جیسے شادی کے بعد ملنے پر ایک دوسرے کی قربت پاکر کی تھی۔ اسی دوران واٹس ایپ پر بچوں کے ساتھ ویڈیو کال کی تو دونوں میری بیٹیاں بھی کچھ مطمئن ہوئیں ۔ کچھ اور فون کال کرنے کے کچھ دیر بعد میں نے لنچ کیا اور ہاتھ میں ڈرپ کی بوتل کا اسٹینڈ پکڑ کر گھوم پھر کر کمرے کا جائزہ لینے لگی۔
چند لمحوں بعد ہی ایک نرس کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے ہشاش بشاش دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی کہ تم نے اپنے شوہر کی آمد سے جو تازگی اور توانائی پائی ہے وہ تمہارے چہرے اور تمہاری حرکت سے عیاں ہے۔ پھر کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر میں کرسی پر ہی بیٹھ گئی۔ اس ہسپتال کا تمام عملہ نہایت خوش اخلاق تھا۔ میں جرمنی سے اس ہسپتال کی سروس کا میعار اور ڈاکٹرز کی قابلیت کا موازنہ کرنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی میں طب اور صحت سے متعلق جو علاج و سہولت ہے وہ اعلیٰ درجے کی ہے لیکن یہاں کوپن ہیگن میں یہ تمام سروسز اور میعار اعلیٰ ترین درجے پر محسوس ہورہا تھا۔ انور جو کہ میڈیکل کے طالب علم رہ چکے ہیں اور میڈیکل فزکس کے حوالے سے ان کا جرمنی کے ہسپتالوں میں کام کرنے اور واقفیت کا سلسلہ پرانا ہے، مجھے بتانے لگے کہ دل کے تمام امراض کے علاج کے لیے یورپ بھر میں ڈنمارک کا نام سر فہرست ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا جو تمہارا یہاں علاج ممکن ہوا۔ انور رات تک میرے ساتھ ہسپتال میں ہی رہے ۔ رات کو زبیر صاحب اور چودھری سرور صاحب میری مزاج پرسی کے لیے آئے تو انور کو بھی ساتھ ہی ان کے ہوٹل پہنچانے کے لیے ساتھ لے گئے ۔ایک دن اس کارڈ یو ہسپتال میں رہنے کے بعد مجھے دوبارہ اسی ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں مجھے ائر پورٹ سے پہنچایا گیا تھا۔ میری حالت قدرے بہتر تھی میں جلد از جلد واپس اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔ پرانے ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹروں اور نرسوں نے میرا پر تپاک استقبال کیا اور کامیاب انجیو گرافی کی مبارکباد دی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تمام لوگ بالکل کسی اپنے قریبی دوست یا رشتہ دار کی طرح مجھے یوں ویلکم کر رہے ہیں۔ میرے کمرے میں وہ ضعیف عورت بھی مجھے کامیاب انجیو گرافی پر مبارکباد ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ دینے لگی۔ اس نے انور کو کہا کہ تم اب اپنی بیوی کو کبھی کہیں اکیلا نہ جانے دینا۔ انور نے مسکرا کر جواباً کہا کہ “ میں کب اس کو کہیں اکیلا جانے دیتا ہوں یہ خود ہی مجھے اکیلا چھوڑ کر جاتی رہتی ہے”
شام کو ڈاکٹروں نے تمام میڈیکل رپورٹ دیکھ کر بتایا کہ ایک دو دن میں میں واپس فلائی کر کے جرمنی جاسکتی ہوں۔ کچھ احتیاطی تدابیر اور دوائیاں لکھ کر دی گئیں اور جرمنی میں مذید علاج کے لیے بھی زور دیا۔ انور نے بھی ڈاکٹروں کے مشورے سے برلن واپسی کی فلائٹ بک کروائیں اور میں دو دن بعد انور کے ساتھ واپسی کے لیے اسی ائر پورٹ پر پہنچ گئی جہاں سے ہسپتال پہنچا دی گئی تھی۔ ائر پورٹ پر صدف مرزا اور زبیر صاحب مجھے الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ صدف کے ہاتھ میں پھر تحائف کا ایک تھیلا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ انور بھائی کے بورڈ کیس میں تو جگہ ہوگی اس لیے میں نے کچھ اور بھی چیزیں آپ لوگوں کے لیے بطور تحفہ لے لیں۔ کھلانے ، پلانے اور تحائف دینے کے معاملے میں صدف نے اپنا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ ہم نے ایک بار پھر سب کو الوداع کہا اور ائر پورٹ میں سامان کی اسکرینگ کروانے اور باڈی سرچ کے بعد اپنے برلن جانے والے جہاز کا گیٹ نمبر تلاش کرتے ہوئے اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اس سفر نے میری زندگی میں تبدیلی کا ایک نیا موڑ شروع کیا تھا ۔ جب اعلان ہوا کہ اے گروپ کے مسافر قطار بنا لیں تو میں نے انور کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ انور نے میرا ہاتھ دبا کر تسلی دی کہ وہ میری زندگی کے ہمسفر ہی نہیں بلکہ رہبر بھی ہیں۔ اس وقت اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے کاندھے پر کسی نے پیچھے سے زور سے ہاتھ رکھا ہے۔ میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا وہ “ یوحان” تھا میری جرمن دوست اندریا کا ڈینش شوہر جو کاروباری معاملات اور اپنے والدین سے ملاقات کی غرض سے اکثر کوپن ہیگن آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا ۔ اُس نے انور کی زبانی انور سے کہا
” مجھے یقین ہے کہ اس یادگار سفر نے تمہاری بہادر بیوی کی ہمت اور بڑھا دی ہوگی اور ساتھ میں تمہیں بھی ہوشیار کر دیا ہوگا کہ تمہاری بیوی اب زندگی میں تمہیں کبھی بھی اور کہیں بھی ایڈوینچر دکھانے کی ایک اور کامیاب کوشش کر سکتی ہے”
اس کی اس بے ساختہ صاف گوئی پر ہم تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔ لیکن اس قہقہے نے اچانک میرے سینے میں ایک ہلکا سا درد جگا دیا ۔ دل نے مجھ سے کہا
“آہستہ ! اب زندگی کی بھاگ دوڑ کو لگام دینا سیکھو۔۔۔۔۔ اب تم اور تمہارا یہ دل تمہاری سفر کی بہت سی صعوبتوں کو نہیں سہہ سکتے”
لیکن میں نے بھی مسکرا اس درد کو برداشت کیا اور اپنے دل سے کہا” جو گزر گیا اسے بھول کر آگے بڑھو ! ابھی بہت سے سفر تمہارے منتظر ہیں “۔
ختم شد
میں فلائٹ سے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ۔ بورڈنگ کارڈ بھی ہاتھ میں تھا لہذا اپنا سامان چیک کروا کر اور باڈی سرچ کے بعد اندر ائر پورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس میں سیر کرنے لگی ۔ سارہ اور مایا کے پسندیدہ ڈینش بسکٹ خریدے اور انور کے لیے ایک ڈارک چاکلیٹ کا پیکٹ ۔ بورڈ کیس کھول کر چیزیں اس میں ڈالنا چاہیں تو جگہ کم محسوس ہوئی ۔ بالآخر ایک اضافی شاپر سنبھال کر اپنے جہاز کا گیٹ نمبر چیک کر نے لگی۔ جہاز کے لگنے میں ابھی کچھ وقت تھا میں نے ایک کافی کا کپ خریدا اور آہستہ آہستہ اپنے مطلوبہ لاؤنج میں پہنچ گئی ۔ میرا مطلوبہ لاؤنج ائر پورٹ کی سب سے نچلی منزل پر تھا۔ دس پندرہ منٹ تک مٹر گشت کرتے کرتے میں انتظار گاہ میں پہنچ گئی اور بیٹھتے ہی اپنا انٹرنیٹ کنکٹ کرکے سب سے پہلے صدف کو شکریہ لکھا پھر میرے شوہر نامدار آن لائین نظر آئے تو ان کو میسج کیا کہ جہاز بروقت ہی برلن پہنچے گا ۔ انور عارف نقوی صاحب کے یہاں گئے ہوئے تھے انہوں نے مزید بتایا کہ اردو انجمن کے اگلے جلسے کے لیے تاریخ طے کر دی گئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے ایئر پورٹ لینے آئیں گے یا کہ میں ٹرین سے گھر آجاؤں ؟ انور نے میرے اس سوال کو مذاق میں لیتے ہوئے کہا کہ “ ہاں اب تک تو تمہیں میں نہ کبھی ایئر پورٹ چھوڑنے گیا ہوں نہ ہی لینے آیا ہوں تو اس بار بھی خود ہی آجانا” میں انور سے بات چیت کے دوران فیس بک پر خبر دیکھی کہ معروف ایکٹوسٹ اور قانون دان عاصمہ جیلانی کی وفات ہوگئی ہے۔ میں نے ایک چھوٹا سا اسٹیٹس فیس بک پر اس حوالے سے لکھا ابھی پوسٹ نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا کہ جہاز میں سوار ہونے والے مسافر اے اور بی کیٹگری کے حوالے سے جہاز میں داخل ہونے کے لیے چیکنگ کی قطار بنا لیں۔ میں نے اپنے بورڈنگ کارڈ پر نظر ڈالی وہاں اے لکھا تھا ۔ میں قطار میں لگنے کو جیسے ہی کھڑی ہوئی تو محسوس ہوا کہ میرے سر سے کوئی درد چیرتا ہوا میرے ہاتھ، جبڑے اور سینے میں داخل ہورہا ہے۔ ایک دم آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ میں واپس اپنی سیٹ پر گرتے ہوئے بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کچھ سائے میرے سامنے سے گزر رہے ہیں ۔ میں نے مدد کے لیے پکارنا چاہا لیکن آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ میں اسی حالت میں وہاں بیٹھی رہی کچھ دیر بعد ہمت کر کے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو دھڑام سے زمین پر گر گئی۔ جہاز کی سیکیورٹی کا عملہ دوڑ کر میرے پاس آیا ، مجھے اتنا یاد ہے کہ کسی نے آواز لگا کر مجھے جگانے کی کوشش کی۔ میں بے ہوش ہوگئی تھی۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو میں ایک ہسپتال نما جگہ پر تھی اورایئر پورٹ کے کئی لوگ اور ایمرجنسی میڈیکل ٹیم میرے ارد گرد بیٹھی مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر ایک ڈاکٹر نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا کہ میری ابلاغ کی زبان کون سی ہے یا میں کون سی زبان میں بہتر طور پر بات کر سکتی ہوں۔ میرے منہ سے “ اردو “ نکلا۔ انہوں نے میرے جرمن پاسپورٹ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا “کیا تم جرمن نہیں جانتی ؟ تب میں نے فوری کہا کہ ہاں بالکل انگریزی ، جرمن اردو اور ہندی میں بات کر سکتی ہوں۔ فوری ایک جرمن میل نرس نے آگے بڑھ کر مجھے بتانا شروع کیا کہ میرا بلڈ پریشر انتہائی درجے تک بڑھا ہوا ہے اور ای سی جی بھی نارمل نہیں ہے۔ اس لیے ایئر پورٹ کے ایمرجنسی روم سے مجھے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے گھر فون کرنا ہے تب اس نے میرے اوور کوٹ کی جیب سے فون نکال کر دیا میں نے انور کو فون کیا لیکن انہوں نے ریسو نہیں کیا تو میں نے ایک میسج بھیجا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے میں اس جہاز سے نہیں آرہی۔ شاید پہلے وہ یہ خبر پڑھ کر مذاق سمجھے لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے کال کی تو میں نے مختصراً انہیں بتایا کہ میں اس وقت ایمبولینس میں ہوں ہسپتال جانے کے لیے۔۔۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ ڈاکٹر یا ایمرجنسی عملے نے میرا فون لے لیا اور نہایت پرخلوص ہوکر محبت سے کہا کہ میں اب بات نہ کروں بلکہ نام بتادوں تو وہ کوپن ہیگن میں اور جرمنی میں میرے لوگوں سے رابطہ کر کے انہیں خود تمام صورتحال بتا دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ انور اور صدف مرزا نامی دو لوگوں سے رابطہ کر کے میری صورتحال بتا دیجئے۔ وہ مہربان شخص میرے فون کو کچھ دیر ہاتھ میں لے کر نمبر و نام تلاش کرنے لگا ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے فون میں رابطے کے نام اردو میں محفوظ ہیں اور افسوس کہ میں اردو نہیں پڑھ سکتا۔ اس وقت مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہر جگہ اردو سے محبت کا اظہار شاید درست نہیں ۔۔۔۔ لاطینی حروف تہجی کی اہمیت اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔خاص طور پر کسی ریکارڈ یا نشانی کے لیے۔
میں نے دوبارہ موبائل سے انور اور صدف کے نمبر نکال کر اسے دیے جو اس نے اپنے فون میں محفوظ کر لیے۔ ہم ہسپتال پہنچے اور ایمرجنسی وارڈ پہنچا دیئے گئے جہاں ایک جرمن بولنے والی نرس کا فوری انتظام ہوا۔ ڈنمارک میں بھی لوگ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح اتنی انگریزی نہیں بولتے ۔ بس کام چلانے کی حد تک ہی گفتگو کرتے ہیں۔ میرا ای سی جی اور بلڈ پریشر مستقل بڑھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کچھ مشینوں اور دواؤں کے زریعے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نرس نے بلڈ لینے اور ڈرپ لگانے کے لیے بازو اور ہاتھوں کی پشت پر نسیں تلاش کرنا شروع کی اور کئی جگہ ناکامی کے بعد میری ہتھیلی کی پشت سے خون کے فوارے سے چھوٹ گئے۔ میرے کپڑے اور بستر پر خون چاروں طرف پھیل گیا۔ وہ نرس گھبرا گئی اور آواز دے کر مزید عملے کو بلایا۔ ایک صحتمند اور لمبی چوڑی نرس نے آکر تمام حالات قابو کئے اور بازو میں صحیح جگہ نس تلاش کرکے ڈرپ اور سرنج لگائی ۔ اس دوران وہ مجھ سے مسکرا کر کہنے لگی
تم پریشان نہ ہو ۔۔۔ذرا سا ہی خون نکلا ہے وہ بھی علاج کے لیے لیکن تم جرمنوں نے تو ہم ڈینش لوگوں کا بہت ناحق خون بہایا ہے”
وہ یہ بات مذاق میں کہہ رہی تھی لیکن میں نے اپنا دامن بچاتے ہوئے کہا کہ میں تو پیدائشی پاکستانی ہوں جرمن شہریت تو مصلحتاً لینا پڑی ۔۔۔مجھ میں تو کسی ظالم شخص کا خون ہو ہی نہیں سکتا میرے جسم میں بھی محنت و محبت کے علاوہ کسی اور خون کا نمونہ نہیں ہے اور ایسے نادر خون کو ناحق مغالطے میں ضائع کرنا دور اندیشی نہیں ” ہے “ میرے اس جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی تمہاری تو شکل و رنگت اور قد کاٹھ ہی بتا رہا ہے کہ تم مظلوم قوم سے تعلق رکھتی ہو۔ اسی ہنسی مذاق میں گہری گفتگو جاری رہی ۔ میری حالت رفتہ رفتہ بہتر ہورہی تھی، کچھ ٹیسٹ ہوگئے تھے اور کچھ باقی تھے۔ میرا لباس تبدیل کر کے مجھے ہسپتال کے وارڈ میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ اسی اثناء میں صدف مرزا ایمرجنسی روم میں زبیر صاحب کے ساتھ داخل ہوئیں۔ بیچاری کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ انہوں نے کافی دیر بعد جرمنی سے انور کا میسج اور میری مس فون کال اپنے فون پر دیکھ کر انور سے رابطہ کیا تھا اور ایڈریس لے کر ہسپتال پہنچی تھیں۔ زبیر صاحب بھی بہت فکر مند تھے۔ صدف کو دیکھ کر مجھے تھوڑی ڈھارس ہوئی ۔ اُن کے وہاں ہوتے ہی کچھ اور ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے کہا کہ ایسی خطرے کی اب کوئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی چوبیس گھنٹے وہ مجھے زیر نگرانی رکھیں گے ۔ صدف کچھ دیر بیٹھ کر اگلی صبح آنے کا کہہ کر چلی گئیں ۔ ادھر جرمنی میں انور پریشان ہوگئے اور بڑی بیٹی سارہ کو ہوسٹل سے فوری گھر آنے کا کہہ کر اپنی کوپن ہیگن کے لیے فلائٹ تلاش کرنا شروع ہوگئے۔ انہیں دو دن کے بعد کی فلائٹ مل رہی تھی۔ میری بیٹیاں میرا حال سن کر پریشان تھیں ۔ میری عزیز از جان دوست اور بھابھی قدسیہ اور ذوالقرنین بھائی نے ہمیشہ کی طرح میرے بچوں اور انور کو حوصلہ دیا، انور کے بڑے بھائی سرور غزالی جو دوست زیادہ ہیں انہوں نے بھی انور کو حوصلہ دیا۔سرور بھائی کی ہمت دلانے کی وجہ سے انور کو ہمیشہ ہر مشکل سے نجات کا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملی ہے۔
مجھے ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں کئی مشینوں اور تاروں میں جکڑ کر لٹا دیا گیا۔ چوبیس گھنٹے ایسی حالت میں رہنے کا سوچ کر مجھے پریشانی تھی۔ لیکن اگلی صبح مجھے صرف ای سی جی اور بلڈ پریشر کی چھوٹی سے مشین لگا دی گئی اور نارمل چلنے پھرنے کو کہا گیا۔ اس دوران اس وارڈ میں ایک بوڑھی عورت بھی آگئی تھی جو تھوڑی بہت جرمن جانتی تھی۔ صبح ناشتے کے وقت وہ جرمن زبان سے آشنا نرس میرے پاس آئی اور گذشتہ روز اپنی ناکام بلڈ لینے کی کوشش پر معذرت کی۔ اس نرس نے بتایا کہ اس کا دوست پاکستانی ہے اور وہ چند اردو کے الفاظ جیسے سلام و شکریہ کہنا جانتی ہے۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں اردو اور ہندی زبانیں برلن کی جامعات میں پڑھاتی ہوں تو وہ بضد ہوئی کہ میں صحتمند ہونے کے بعد اسے اسکائیپ پر اردو زبان بولنا سکھا دوں ، اس نے میرا فون نمبر لے لیا۔ اس نرس نے کہا کہ اردو کی تحریری مشق میں ابھی اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن بول کر اور سن کر وہ اردو زبان کے ابلاغ سے آشنا ہونا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ برلن جاکر اور طبیعت کی بحالی کے بعد میں اُس کو آن لائین اردو ضرور سکھاؤنگی۔
صبح جب ڈاکٹرز وزٹ پر آئے تو مجھے انہوں نے خبر دی کہ گذشتہ روز مجھے ہلکا سا ہارٹ اٹیک آیا تھا جس کی جانچ کے لیے انجیو پلاسٹی یا انجیو گرافی کرنا لازمی ہے۔ اگلی صبح مجھے کوپن ہیگن کے کارڈ یو سینٹر منتقل کیا جائے گا جہاں یہ انجیوپلاسٹی ہوگی۔ جس کے کامیاب نتائج کے بعد کے دو دن کے بعد مجھے فلائی کرکے واپس برلن جانے کی اجازت ہوگی۔
میں یہ سب کچھ سن کر پریشان ہوگئی اور انور کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے برلن میں ہیلتھ انشورنس کے دفتر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن کے ہسپتال سے وہ لوگ بھی رابطے میں ہیں اور اگر ہیلی کاپٹر سے بھی فوری برلن لاکر علاج کروانا مقصود ہو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن کوپن ہیگن کے ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ رسک نہ لیا جائے اور انجیوپلاسٹی یا گرافی کے بعد ہی مریض کو واپس بھیجا جائے۔ کچھ ضروری کاغذی کارروائی کے بعد یہ طے پا گیا کہ اگلی صبح مجھے کارڈیالوجی کے بہترین اور معروف ہسپتال Rigshospitalet میں منتقل کر دیا جائے گا۔
لنچ ٹائم سے گھنٹہ بھر پہلے صدف مرزا اور عالیہ ہسپتال پہنچ گئے۔ عالیہ میرے لیے جیولری کا تحفہ لے کر آئی تھی۔ اس نے بہت محبت سے تحفہ دیتے ہوئے کہا
“ آنٹی آپ سے اتنی جلدی دوبارہ ملاقات کا نہیں سوچا تھا ۔۔۔آپ کا تحفہ دینے میں خود آجاتی لیکن یہ کچھ اچھا نہیں کیا آپ نے کہ گفٹ لینے کے لیے اتنا بڑا رسک لے لیا”
میں اور صدف اس کی اس شرارتی گفتگو پر ہنس پڑے ۔ عالیہ نے ساری میڈیکل رپورٹس دیکھیں اور تسلی دی کہ اب سب ٹھیک ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر وہیں راہداری میں کچھ دیر چہل قدمی بھی کرتی رہی اور ساتھ ساتھ میرا بلڈ پریشر اور ای سی جی بھی دیکھتی رہی۔ عالیہ اور صدف کافی دیر بیٹھ کر واپس چلی گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد سرور صاحب اور زبیر صاحب دوبارہ آئے اور مجھے تسلی دے کر گئے کہ صبح انور ظہیر کو وہ ائر پورٹ سے لے کر ہسپتال پہنچا دیں گے ۔ انور نے ہسپتال کے قریب ہی اپنا ایک ہوٹل بھی بک کر لیا تھا۔ وہ اگلے روز صبح کی پہلی فلائیٹ سے کوپن ہیگن پہنچ رہے تھے ۔ میں نے ان دونوں مہربانوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ چودھری سرور صاحب اور زبیر صاحب نے اس مشکل وقت میں میری بہت مدد کی تھی ان دونوں کا اور صدف مرزا کا یہ احسان مجھے زندگی بھر یاد رہے گا کہ اس غیر زبان پردیس میں وہ میری زبان بنے اور اس مشکل وقت میں میری فیملی کے لیے بھی مددگار رہے۔ میں نے پاکستان فون کرکے اپنے چھوٹے بھائی اعظم اور بہن ثروت کو جب اطلاع دی تو وہ دونوں بھی بے حد پریشان ہوگئے۔ دو ماہ قبل میری بڑی بہن کی تکلیف دہ علالت اور وفات نے انہیں ایک جھٹکا پہلے ہی دے رکھا تھا۔ اعظم نے صدقہ و خیرات کے ساتھ ساتھ دعائے صحت کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر دیں۔ میں سب کی دعائیں ، محبتیں سنبھالے اپنے رب کی کرم نوازیوں کے ساتھ مطمئن تھی اور امید تھی کہ اللہ مجھ پر ہمیشہ کی طرح مہربان رہے گا اور کامیاب انجیوگرافی ہوجائے گی۔
اگلے روز صبح فجر کی نماز میں نے بستر بیمار پر ہی ادا کی اور ساتھ ہی دو رکعت نماز کا اہتمام اپنی صحت و زندگی کے لیے کیا۔ صبح نہار منہ کچھ ضروری بلڈ ٹیسٹ اور دواؤں کے بعد مجھے دوسرے ہسپتال میں ٹرانسفر کرنے کے لیے ہسپتال کی ایمبولینس اور عملہ آگیا۔ ادھر انور کا بھی اسی دوران فون آیا کہ وہ گھر سے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہورہے ہیں ۔میری ہمت بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جلد مجھے برلن اپنے ساتھ لے جانے کے لیےآرہے ہیں اس لیے میں کوئی فکر نہ کروں۔ انور اپنی طبیعت میں بہت حساس اور نرم دل انسان ہیں اُن کی یہی خوبیاں شاید ان کی کمزوری بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ مشکل وقت میں ہمت جلد ہار دیتے ہیں لیکن اس بار میں نے ان کے لہجے میں ایک عزم محسوس کیا تھا۔ اُن کے ساتھ اس چھبیس سالہ رفاقت میں ایسے لمحات کم ہی آئے ہیں لیکن جب بھی یہ لمحے آئے ہیں مجھے اپنی زندگی سے محبت ہوتی محسوس ہوئی ہے۔
ہسپتال پہنچ کر مجھ سے کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور بتایا گیا کہ آج کے شیڈیول میں میرا آپریشن پہلے نمبر پر ہے۔ ضروری ہدایات اور اطلاعات بہم پہنچانے کے بعد مجھے آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا۔ مکمل طور پر میں اس انجیو گرافی میں بے ہوش نہیں تھی بلکہ ڈاکٹروں کی تمام کارروائی سامنے اسکرین پر دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ میری کلائی پر ایک چھوٹا سا کٹ لگا کر ایک باریک تار نما چیز دل تک پہنچائیں گے اور جہاں جہاں دل کی شریانوں میں راستہ تنگ محسوس ہوگا وہاں ایک ہوا کا چھوٹا سا غبارہ نما عنصر چھوڑ دیا جائے گا جو دل کی تنگ شریانوں کو کھولنے کا کام کرئے گا۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اگر کلائی سے دل تک نہ پہنچا جاسکا تو ٹانگ میں جانگھ کے حصے پر طبع آزمائی کی جائے گی۔ لیکن ہم ٹھہرے شاعر و ادیب لوگ ! اتنے معتبر ، خوبصورت اور نرم خومسیحاؤں نے جب کلائی پکڑنے کا کہا تو کیسے انہیں دل کا راستہ نہ دکھاتے۔ کچھ دیر بعد ہمارے دل تک وہ اپنے فنِ مسیحائی کا جب راستہ پا گئے تو مبارکباد دیتے ہوئے کامیاب آپریشن کی نوید سنائی۔ ساتھ میں دل میں اضافی عنصر کو ڈال کر کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر سے باہر روم میں شفٹ کردیا۔ اس وقت دل زیرو میٹر کی نئی کنڈیشن میں آگیا تھا اور اس ہی لمحے ہسپتال کے کمرے میں انور بھی پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے بڑھ کر ملنا چاہا تو نرس نے ہمیں کمرے میں یہ کہہ کر الگ کر دیا کہ ابھی مجھے کچھ دیر کے لیے سونا بہت ضروری ہے۔ پھر کسی جذباتی سین کے بغیر وہ انور کو اپنے ساتھ ڈائینگ ہال میں لے جاکر ناشتہ کرونے لگی اور میری کلائی سے خون میں ڈالی گئی اضافی ہوا کو نکال کر سونے کے لیے دوائی کھلا دی۔
کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو انور بیچارے سامنے کرسی پر اُونگھ رہے تھے۔ میں پلنگ سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو وہ جاگ گئے۔ پھر ہم نے ڈھیروں گفتگو ایسے ہی کی جیسے شادی کے بعد ملنے پر ایک دوسرے کی قربت پاکر کی تھی۔ اسی دوران واٹس ایپ پر بچوں کے ساتھ ویڈیو کال کی تو دونوں میری بیٹیاں بھی کچھ مطمئن ہوئیں ۔ کچھ اور فون کال کرنے کے کچھ دیر بعد میں نے لنچ کیا اور ہاتھ میں ڈرپ کی بوتل کا اسٹینڈ پکڑ کر گھوم پھر کر کمرے کا جائزہ لینے لگی۔
چند لمحوں بعد ہی ایک نرس کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے ہشاش بشاش دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی کہ تم نے اپنے شوہر کی آمد سے جو تازگی اور توانائی پائی ہے وہ تمہارے چہرے اور تمہاری حرکت سے عیاں ہے۔ پھر کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر میں کرسی پر ہی بیٹھ گئی۔ اس ہسپتال کا تمام عملہ نہایت خوش اخلاق تھا۔ میں جرمنی سے اس ہسپتال کی سروس کا میعار اور ڈاکٹرز کی قابلیت کا موازنہ کرنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی میں طب اور صحت سے متعلق جو علاج و سہولت ہے وہ اعلیٰ درجے کی ہے لیکن یہاں کوپن ہیگن میں یہ تمام سروسز اور میعار اعلیٰ ترین درجے پر محسوس ہورہا تھا۔ انور جو کہ میڈیکل کے طالب علم رہ چکے ہیں اور میڈیکل فزکس کے حوالے سے ان کا جرمنی کے ہسپتالوں میں کام کرنے اور واقفیت کا سلسلہ پرانا ہے، مجھے بتانے لگے کہ دل کے تمام امراض کے علاج کے لیے یورپ بھر میں ڈنمارک کا نام سر فہرست ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا جو تمہارا یہاں علاج ممکن ہوا۔ انور رات تک میرے ساتھ ہسپتال میں ہی رہے ۔ رات کو زبیر صاحب اور چودھری سرور صاحب میری مزاج پرسی کے لیے آئے تو انور کو بھی ساتھ ہی ان کے ہوٹل پہنچانے کے لیے ساتھ لے گئے ۔ایک دن اس کارڈ یو ہسپتال میں رہنے کے بعد مجھے دوبارہ اسی ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں مجھے ائر پورٹ سے پہنچایا گیا تھا۔ میری حالت قدرے بہتر تھی میں جلد از جلد واپس اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔ پرانے ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹروں اور نرسوں نے میرا پر تپاک استقبال کیا اور کامیاب انجیو گرافی کی مبارکباد دی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تمام لوگ بالکل کسی اپنے قریبی دوست یا رشتہ دار کی طرح مجھے یوں ویلکم کر رہے ہیں۔ میرے کمرے میں وہ ضعیف عورت بھی مجھے کامیاب انجیو گرافی پر مبارکباد ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ دینے لگی۔ اس نے انور کو کہا کہ تم اب اپنی بیوی کو کبھی کہیں اکیلا نہ جانے دینا۔ انور نے مسکرا کر جواباً کہا کہ “ میں کب اس کو کہیں اکیلا جانے دیتا ہوں یہ خود ہی مجھے اکیلا چھوڑ کر جاتی رہتی ہے”
شام کو ڈاکٹروں نے تمام میڈیکل رپورٹ دیکھ کر بتایا کہ ایک دو دن میں میں واپس فلائی کر کے جرمنی جاسکتی ہوں۔ کچھ احتیاطی تدابیر اور دوائیاں لکھ کر دی گئیں اور جرمنی میں مذید علاج کے لیے بھی زور دیا۔ انور نے بھی ڈاکٹروں کے مشورے سے برلن واپسی کی فلائٹ بک کروائیں اور میں دو دن بعد انور کے ساتھ واپسی کے لیے اسی ائر پورٹ پر پہنچ گئی جہاں سے ہسپتال پہنچا دی گئی تھی۔ ائر پورٹ پر صدف مرزا اور زبیر صاحب مجھے الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ صدف کے ہاتھ میں پھر تحائف کا ایک تھیلا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ انور بھائی کے بورڈ کیس میں تو جگہ ہوگی اس لیے میں نے کچھ اور بھی چیزیں آپ لوگوں کے لیے بطور تحفہ لے لیں۔ کھلانے ، پلانے اور تحائف دینے کے معاملے میں صدف نے اپنا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ ہم نے ایک بار پھر سب کو الوداع کہا اور ائر پورٹ میں سامان کی اسکرینگ کروانے اور باڈی سرچ کے بعد اپنے برلن جانے والے جہاز کا گیٹ نمبر تلاش کرتے ہوئے اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اس سفر نے میری زندگی میں تبدیلی کا ایک نیا موڑ شروع کیا تھا ۔ جب اعلان ہوا کہ اے گروپ کے مسافر قطار بنا لیں تو میں نے انور کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ انور نے میرا ہاتھ دبا کر تسلی دی کہ وہ میری زندگی کے ہمسفر ہی نہیں بلکہ رہبر بھی ہیں۔ اس وقت اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے کاندھے پر کسی نے پیچھے سے زور سے ہاتھ رکھا ہے۔ میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا وہ “ یوحان” تھا میری جرمن دوست اندریا کا ڈینش شوہر جو کاروباری معاملات اور اپنے والدین سے ملاقات کی غرض سے اکثر کوپن ہیگن آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا ۔ اُس نے انور کی زبانی انور سے کہا
” مجھے یقین ہے کہ اس یادگار سفر نے تمہاری بہادر بیوی کی ہمت اور بڑھا دی ہوگی اور ساتھ میں تمہیں بھی ہوشیار کر دیا ہوگا کہ تمہاری بیوی اب زندگی میں تمہیں کبھی بھی اور کہیں بھی ایڈوینچر دکھانے کی ایک اور کامیاب کوشش کر سکتی ہے”
اس کی اس بے ساختہ صاف گوئی پر ہم تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔ لیکن اس قہقہے نے اچانک میرے سینے میں ایک ہلکا سا درد جگا دیا ۔ دل نے مجھ سے کہا
“آہستہ ! اب زندگی کی بھاگ دوڑ کو لگام دینا سیکھو۔۔۔۔۔ اب تم اور تمہارا یہ دل تمہاری سفر کی بہت سی صعوبتوں کو نہیں سہہ سکتے”
لیکن میں نے بھی مسکرا اس درد کو برداشت کیا اور اپنے دل سے کہا” جو گزر گیا اسے بھول کر آگے بڑھو ! ابھی بہت سے سفر تمہارے منتظر ہیں “۔
ختم شد
میں فلائٹ سے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ۔ بورڈنگ کارڈ بھی ہاتھ میں تھا لہذا اپنا سامان چیک کروا کر اور باڈی سرچ کے بعد اندر ائر پورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس میں سیر کرنے لگی ۔ سارہ اور مایا کے پسندیدہ ڈینش بسکٹ خریدے اور انور کے لیے ایک ڈارک چاکلیٹ کا پیکٹ ۔ بورڈ کیس کھول کر چیزیں اس میں ڈالنا چاہیں تو جگہ کم محسوس ہوئی ۔ بالآخر ایک اضافی شاپر سنبھال کر اپنے جہاز کا گیٹ نمبر چیک کر نے لگی۔ جہاز کے لگنے میں ابھی کچھ وقت تھا میں نے ایک کافی کا کپ خریدا اور آہستہ آہستہ اپنے مطلوبہ لاؤنج میں پہنچ گئی ۔ میرا مطلوبہ لاؤنج ائر پورٹ کی سب سے نچلی منزل پر تھا۔ دس پندرہ منٹ تک مٹر گشت کرتے کرتے میں انتظار گاہ میں پہنچ گئی اور بیٹھتے ہی اپنا انٹرنیٹ کنکٹ کرکے سب سے پہلے صدف کو شکریہ لکھا پھر میرے شوہر نامدار آن لائین نظر آئے تو ان کو میسج کیا کہ جہاز بروقت ہی برلن پہنچے گا ۔ انور عارف نقوی صاحب کے یہاں گئے ہوئے تھے انہوں نے مزید بتایا کہ اردو انجمن کے اگلے جلسے کے لیے تاریخ طے کر دی گئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے ایئر پورٹ لینے آئیں گے یا کہ میں ٹرین سے گھر آجاؤں ؟ انور نے میرے اس سوال کو مذاق میں لیتے ہوئے کہا کہ “ ہاں اب تک تو تمہیں میں نہ کبھی ایئر پورٹ چھوڑنے گیا ہوں نہ ہی لینے آیا ہوں تو اس بار بھی خود ہی آجانا” میں انور سے بات چیت کے دوران فیس بک پر خبر دیکھی کہ معروف ایکٹوسٹ اور قانون دان عاصمہ جیلانی کی وفات ہوگئی ہے۔ میں نے ایک چھوٹا سا اسٹیٹس فیس بک پر اس حوالے سے لکھا ابھی پوسٹ نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا کہ جہاز میں سوار ہونے والے مسافر اے اور بی کیٹگری کے حوالے سے جہاز میں داخل ہونے کے لیے چیکنگ کی قطار بنا لیں۔ میں نے اپنے بورڈنگ کارڈ پر نظر ڈالی وہاں اے لکھا تھا ۔ میں قطار میں لگنے کو جیسے ہی کھڑی ہوئی تو محسوس ہوا کہ میرے سر سے کوئی درد چیرتا ہوا میرے ہاتھ، جبڑے اور سینے میں داخل ہورہا ہے۔ ایک دم آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ میں واپس اپنی سیٹ پر گرتے ہوئے بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کچھ سائے میرے سامنے سے گزر رہے ہیں ۔ میں نے مدد کے لیے پکارنا چاہا لیکن آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ میں اسی حالت میں وہاں بیٹھی رہی کچھ دیر بعد ہمت کر کے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو دھڑام سے زمین پر گر گئی۔ جہاز کی سیکیورٹی کا عملہ دوڑ کر میرے پاس آیا ، مجھے اتنا یاد ہے کہ کسی نے آواز لگا کر مجھے جگانے کی کوشش کی۔ میں بے ہوش ہوگئی تھی۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو میں ایک ہسپتال نما جگہ پر تھی اورایئر پورٹ کے کئی لوگ اور ایمرجنسی میڈیکل ٹیم میرے ارد گرد بیٹھی مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر ایک ڈاکٹر نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا کہ میری ابلاغ کی زبان کون سی ہے یا میں کون سی زبان میں بہتر طور پر بات کر سکتی ہوں۔ میرے منہ سے “ اردو “ نکلا۔ انہوں نے میرے جرمن پاسپورٹ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا “کیا تم جرمن نہیں جانتی ؟ تب میں نے فوری کہا کہ ہاں بالکل انگریزی ، جرمن اردو اور ہندی میں بات کر سکتی ہوں۔ فوری ایک جرمن میل نرس نے آگے بڑھ کر مجھے بتانا شروع کیا کہ میرا بلڈ پریشر انتہائی درجے تک بڑھا ہوا ہے اور ای سی جی بھی نارمل نہیں ہے۔ اس لیے ایئر پورٹ کے ایمرجنسی روم سے مجھے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے گھر فون کرنا ہے تب اس نے میرے اوور کوٹ کی جیب سے فون نکال کر دیا میں نے انور کو فون کیا لیکن انہوں نے ریسو نہیں کیا تو میں نے ایک میسج بھیجا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے میں اس جہاز سے نہیں آرہی۔ شاید پہلے وہ یہ خبر پڑھ کر مذاق سمجھے لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے کال کی تو میں نے مختصراً انہیں بتایا کہ میں اس وقت ایمبولینس میں ہوں ہسپتال جانے کے لیے۔۔۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ ڈاکٹر یا ایمرجنسی عملے نے میرا فون لے لیا اور نہایت پرخلوص ہوکر محبت سے کہا کہ میں اب بات نہ کروں بلکہ نام بتادوں تو وہ کوپن ہیگن میں اور جرمنی میں میرے لوگوں سے رابطہ کر کے انہیں خود تمام صورتحال بتا دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ انور اور صدف مرزا نامی دو لوگوں سے رابطہ کر کے میری صورتحال بتا دیجئے۔ وہ مہربان شخص میرے فون کو کچھ دیر ہاتھ میں لے کر نمبر و نام تلاش کرنے لگا ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے فون میں رابطے کے نام اردو میں محفوظ ہیں اور افسوس کہ میں اردو نہیں پڑھ سکتا۔ اس وقت مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہر جگہ اردو سے محبت کا اظہار شاید درست نہیں ۔۔۔۔ لاطینی حروف تہجی کی اہمیت اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔خاص طور پر کسی ریکارڈ یا نشانی کے لیے۔
میں نے دوبارہ موبائل سے انور اور صدف کے نمبر نکال کر اسے دیے جو اس نے اپنے فون میں محفوظ کر لیے۔ ہم ہسپتال پہنچے اور ایمرجنسی وارڈ پہنچا دیئے گئے جہاں ایک جرمن بولنے والی نرس کا فوری انتظام ہوا۔ ڈنمارک میں بھی لوگ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح اتنی انگریزی نہیں بولتے ۔ بس کام چلانے کی حد تک ہی گفتگو کرتے ہیں۔ میرا ای سی جی اور بلڈ پریشر مستقل بڑھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کچھ مشینوں اور دواؤں کے زریعے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نرس نے بلڈ لینے اور ڈرپ لگانے کے لیے بازو اور ہاتھوں کی پشت پر نسیں تلاش کرنا شروع کی اور کئی جگہ ناکامی کے بعد میری ہتھیلی کی پشت سے خون کے فوارے سے چھوٹ گئے۔ میرے کپڑے اور بستر پر خون چاروں طرف پھیل گیا۔ وہ نرس گھبرا گئی اور آواز دے کر مزید عملے کو بلایا۔ ایک صحتمند اور لمبی چوڑی نرس نے آکر تمام حالات قابو کئے اور بازو میں صحیح جگہ نس تلاش کرکے ڈرپ اور سرنج لگائی ۔ اس دوران وہ مجھ سے مسکرا کر کہنے لگی
تم پریشان نہ ہو ۔۔۔ذرا سا ہی خون نکلا ہے وہ بھی علاج کے لیے لیکن تم جرمنوں نے تو ہم ڈینش لوگوں کا بہت ناحق خون بہایا ہے”
وہ یہ بات مذاق میں کہہ رہی تھی لیکن میں نے اپنا دامن بچاتے ہوئے کہا کہ میں تو پیدائشی پاکستانی ہوں جرمن شہریت تو مصلحتاً لینا پڑی ۔۔۔مجھ میں تو کسی ظالم شخص کا خون ہو ہی نہیں سکتا میرے جسم میں بھی محنت و محبت کے علاوہ کسی اور خون کا نمونہ نہیں ہے اور ایسے نادر خون کو ناحق مغالطے میں ضائع کرنا دور اندیشی نہیں ” ہے “ میرے اس جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی تمہاری تو شکل و رنگت اور قد کاٹھ ہی بتا رہا ہے کہ تم مظلوم قوم سے تعلق رکھتی ہو۔ اسی ہنسی مذاق میں گہری گفتگو جاری رہی ۔ میری حالت رفتہ رفتہ بہتر ہورہی تھی، کچھ ٹیسٹ ہوگئے تھے اور کچھ باقی تھے۔ میرا لباس تبدیل کر کے مجھے ہسپتال کے وارڈ میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ اسی اثناء میں صدف مرزا ایمرجنسی روم میں زبیر صاحب کے ساتھ داخل ہوئیں۔ بیچاری کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ انہوں نے کافی دیر بعد جرمنی سے انور کا میسج اور میری مس فون کال اپنے فون پر دیکھ کر انور سے رابطہ کیا تھا اور ایڈریس لے کر ہسپتال پہنچی تھیں۔ زبیر صاحب بھی بہت فکر مند تھے۔ صدف کو دیکھ کر مجھے تھوڑی ڈھارس ہوئی ۔ اُن کے وہاں ہوتے ہی کچھ اور ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے کہا کہ ایسی خطرے کی اب کوئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی چوبیس گھنٹے وہ مجھے زیر نگرانی رکھیں گے ۔ صدف کچھ دیر بیٹھ کر اگلی صبح آنے کا کہہ کر چلی گئیں ۔ ادھر جرمنی میں انور پریشان ہوگئے اور بڑی بیٹی سارہ کو ہوسٹل سے فوری گھر آنے کا کہہ کر اپنی کوپن ہیگن کے لیے فلائٹ تلاش کرنا شروع ہوگئے۔ انہیں دو دن کے بعد کی فلائٹ مل رہی تھی۔ میری بیٹیاں میرا حال سن کر پریشان تھیں ۔ میری عزیز از جان دوست اور بھابھی قدسیہ اور ذوالقرنین بھائی نے ہمیشہ کی طرح میرے بچوں اور انور کو حوصلہ دیا، انور کے بڑے بھائی سرور غزالی جو دوست زیادہ ہیں انہوں نے بھی انور کو حوصلہ دیا۔سرور بھائی کی ہمت دلانے کی وجہ سے انور کو ہمیشہ ہر مشکل سے نجات کا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملی ہے۔
مجھے ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں کئی مشینوں اور تاروں میں جکڑ کر لٹا دیا گیا۔ چوبیس گھنٹے ایسی حالت میں رہنے کا سوچ کر مجھے پریشانی تھی۔ لیکن اگلی صبح مجھے صرف ای سی جی اور بلڈ پریشر کی چھوٹی سے مشین لگا دی گئی اور نارمل چلنے پھرنے کو کہا گیا۔ اس دوران اس وارڈ میں ایک بوڑھی عورت بھی آگئی تھی جو تھوڑی بہت جرمن جانتی تھی۔ صبح ناشتے کے وقت وہ جرمن زبان سے آشنا نرس میرے پاس آئی اور گذشتہ روز اپنی ناکام بلڈ لینے کی کوشش پر معذرت کی۔ اس نرس نے بتایا کہ اس کا دوست پاکستانی ہے اور وہ چند اردو کے الفاظ جیسے سلام و شکریہ کہنا جانتی ہے۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں اردو اور ہندی زبانیں برلن کی جامعات میں پڑھاتی ہوں تو وہ بضد ہوئی کہ میں صحتمند ہونے کے بعد اسے اسکائیپ پر اردو زبان بولنا سکھا دوں ، اس نے میرا فون نمبر لے لیا۔ اس نرس نے کہا کہ اردو کی تحریری مشق میں ابھی اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن بول کر اور سن کر وہ اردو زبان کے ابلاغ سے آشنا ہونا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ برلن جاکر اور طبیعت کی بحالی کے بعد میں اُس کو آن لائین اردو ضرور سکھاؤنگی۔
صبح جب ڈاکٹرز وزٹ پر آئے تو مجھے انہوں نے خبر دی کہ گذشتہ روز مجھے ہلکا سا ہارٹ اٹیک آیا تھا جس کی جانچ کے لیے انجیو پلاسٹی یا انجیو گرافی کرنا لازمی ہے۔ اگلی صبح مجھے کوپن ہیگن کے کارڈ یو سینٹر منتقل کیا جائے گا جہاں یہ انجیوپلاسٹی ہوگی۔ جس کے کامیاب نتائج کے بعد کے دو دن کے بعد مجھے فلائی کرکے واپس برلن جانے کی اجازت ہوگی۔
میں یہ سب کچھ سن کر پریشان ہوگئی اور انور کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے برلن میں ہیلتھ انشورنس کے دفتر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن کے ہسپتال سے وہ لوگ بھی رابطے میں ہیں اور اگر ہیلی کاپٹر سے بھی فوری برلن لاکر علاج کروانا مقصود ہو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن کوپن ہیگن کے ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ رسک نہ لیا جائے اور انجیوپلاسٹی یا گرافی کے بعد ہی مریض کو واپس بھیجا جائے۔ کچھ ضروری کاغذی کارروائی کے بعد یہ طے پا گیا کہ اگلی صبح مجھے کارڈیالوجی کے بہترین اور معروف ہسپتال Rigshospitalet میں منتقل کر دیا جائے گا۔
لنچ ٹائم سے گھنٹہ بھر پہلے صدف مرزا اور عالیہ ہسپتال پہنچ گئے۔ عالیہ میرے لیے جیولری کا تحفہ لے کر آئی تھی۔ اس نے بہت محبت سے تحفہ دیتے ہوئے کہا
“ آنٹی آپ سے اتنی جلدی دوبارہ ملاقات کا نہیں سوچا تھا ۔۔۔آپ کا تحفہ دینے میں خود آجاتی لیکن یہ کچھ اچھا نہیں کیا آپ نے کہ گفٹ لینے کے لیے اتنا بڑا رسک لے لیا”
میں اور صدف اس کی اس شرارتی گفتگو پر ہنس پڑے ۔ عالیہ نے ساری میڈیکل رپورٹس دیکھیں اور تسلی دی کہ اب سب ٹھیک ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر وہیں راہداری میں کچھ دیر چہل قدمی بھی کرتی رہی اور ساتھ ساتھ میرا بلڈ پریشر اور ای سی جی بھی دیکھتی رہی۔ عالیہ اور صدف کافی دیر بیٹھ کر واپس چلی گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد سرور صاحب اور زبیر صاحب دوبارہ آئے اور مجھے تسلی دے کر گئے کہ صبح انور ظہیر کو وہ ائر پورٹ سے لے کر ہسپتال پہنچا دیں گے ۔ انور نے ہسپتال کے قریب ہی اپنا ایک ہوٹل بھی بک کر لیا تھا۔ وہ اگلے روز صبح کی پہلی فلائیٹ سے کوپن ہیگن پہنچ رہے تھے ۔ میں نے ان دونوں مہربانوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ چودھری سرور صاحب اور زبیر صاحب نے اس مشکل وقت میں میری بہت مدد کی تھی ان دونوں کا اور صدف مرزا کا یہ احسان مجھے زندگی بھر یاد رہے گا کہ اس غیر زبان پردیس میں وہ میری زبان بنے اور اس مشکل وقت میں میری فیملی کے لیے بھی مددگار رہے۔ میں نے پاکستان فون کرکے اپنے چھوٹے بھائی اعظم اور بہن ثروت کو جب اطلاع دی تو وہ دونوں بھی بے حد پریشان ہوگئے۔ دو ماہ قبل میری بڑی بہن کی تکلیف دہ علالت اور وفات نے انہیں ایک جھٹکا پہلے ہی دے رکھا تھا۔ اعظم نے صدقہ و خیرات کے ساتھ ساتھ دعائے صحت کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر دیں۔ میں سب کی دعائیں ، محبتیں سنبھالے اپنے رب کی کرم نوازیوں کے ساتھ مطمئن تھی اور امید تھی کہ اللہ مجھ پر ہمیشہ کی طرح مہربان رہے گا اور کامیاب انجیوگرافی ہوجائے گی۔
اگلے روز صبح فجر کی نماز میں نے بستر بیمار پر ہی ادا کی اور ساتھ ہی دو رکعت نماز کا اہتمام اپنی صحت و زندگی کے لیے کیا۔ صبح نہار منہ کچھ ضروری بلڈ ٹیسٹ اور دواؤں کے بعد مجھے دوسرے ہسپتال میں ٹرانسفر کرنے کے لیے ہسپتال کی ایمبولینس اور عملہ آگیا۔ ادھر انور کا بھی اسی دوران فون آیا کہ وہ گھر سے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہورہے ہیں ۔میری ہمت بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جلد مجھے برلن اپنے ساتھ لے جانے کے لیےآرہے ہیں اس لیے میں کوئی فکر نہ کروں۔ انور اپنی طبیعت میں بہت حساس اور نرم دل انسان ہیں اُن کی یہی خوبیاں شاید ان کی کمزوری بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ مشکل وقت میں ہمت جلد ہار دیتے ہیں لیکن اس بار میں نے ان کے لہجے میں ایک عزم محسوس کیا تھا۔ اُن کے ساتھ اس چھبیس سالہ رفاقت میں ایسے لمحات کم ہی آئے ہیں لیکن جب بھی یہ لمحے آئے ہیں مجھے اپنی زندگی سے محبت ہوتی محسوس ہوئی ہے۔
ہسپتال پہنچ کر مجھ سے کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور بتایا گیا کہ آج کے شیڈیول میں میرا آپریشن پہلے نمبر پر ہے۔ ضروری ہدایات اور اطلاعات بہم پہنچانے کے بعد مجھے آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا۔ مکمل طور پر میں اس انجیو گرافی میں بے ہوش نہیں تھی بلکہ ڈاکٹروں کی تمام کارروائی سامنے اسکرین پر دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ میری کلائی پر ایک چھوٹا سا کٹ لگا کر ایک باریک تار نما چیز دل تک پہنچائیں گے اور جہاں جہاں دل کی شریانوں میں راستہ تنگ محسوس ہوگا وہاں ایک ہوا کا چھوٹا سا غبارہ نما عنصر چھوڑ دیا جائے گا جو دل کی تنگ شریانوں کو کھولنے کا کام کرئے گا۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اگر کلائی سے دل تک نہ پہنچا جاسکا تو ٹانگ میں جانگھ کے حصے پر طبع آزمائی کی جائے گی۔ لیکن ہم ٹھہرے شاعر و ادیب لوگ ! اتنے معتبر ، خوبصورت اور نرم خومسیحاؤں نے جب کلائی پکڑنے کا کہا تو کیسے انہیں دل کا راستہ نہ دکھاتے۔ کچھ دیر بعد ہمارے دل تک وہ اپنے فنِ مسیحائی کا جب راستہ پا گئے تو مبارکباد دیتے ہوئے کامیاب آپریشن کی نوید سنائی۔ ساتھ میں دل میں اضافی عنصر کو ڈال کر کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر سے باہر روم میں شفٹ کردیا۔ اس وقت دل زیرو میٹر کی نئی کنڈیشن میں آگیا تھا اور اس ہی لمحے ہسپتال کے کمرے میں انور بھی پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے بڑھ کر ملنا چاہا تو نرس نے ہمیں کمرے میں یہ کہہ کر الگ کر دیا کہ ابھی مجھے کچھ دیر کے لیے سونا بہت ضروری ہے۔ پھر کسی جذباتی سین کے بغیر وہ انور کو اپنے ساتھ ڈائینگ ہال میں لے جاکر ناشتہ کرونے لگی اور میری کلائی سے خون میں ڈالی گئی اضافی ہوا کو نکال کر سونے کے لیے دوائی کھلا دی۔
کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو انور بیچارے سامنے کرسی پر اُونگھ رہے تھے۔ میں پلنگ سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو وہ جاگ گئے۔ پھر ہم نے ڈھیروں گفتگو ایسے ہی کی جیسے شادی کے بعد ملنے پر ایک دوسرے کی قربت پاکر کی تھی۔ اسی دوران واٹس ایپ پر بچوں کے ساتھ ویڈیو کال کی تو دونوں میری بیٹیاں بھی کچھ مطمئن ہوئیں ۔ کچھ اور فون کال کرنے کے کچھ دیر بعد میں نے لنچ کیا اور ہاتھ میں ڈرپ کی بوتل کا اسٹینڈ پکڑ کر گھوم پھر کر کمرے کا جائزہ لینے لگی۔
چند لمحوں بعد ہی ایک نرس کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے ہشاش بشاش دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی کہ تم نے اپنے شوہر کی آمد سے جو تازگی اور توانائی پائی ہے وہ تمہارے چہرے اور تمہاری حرکت سے عیاں ہے۔ پھر کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر میں کرسی پر ہی بیٹھ گئی۔ اس ہسپتال کا تمام عملہ نہایت خوش اخلاق تھا۔ میں جرمنی سے اس ہسپتال کی سروس کا میعار اور ڈاکٹرز کی قابلیت کا موازنہ کرنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی میں طب اور صحت سے متعلق جو علاج و سہولت ہے وہ اعلیٰ درجے کی ہے لیکن یہاں کوپن ہیگن میں یہ تمام سروسز اور میعار اعلیٰ ترین درجے پر محسوس ہورہا تھا۔ انور جو کہ میڈیکل کے طالب علم رہ چکے ہیں اور میڈیکل فزکس کے حوالے سے ان کا جرمنی کے ہسپتالوں میں کام کرنے اور واقفیت کا سلسلہ پرانا ہے، مجھے بتانے لگے کہ دل کے تمام امراض کے علاج کے لیے یورپ بھر میں ڈنمارک کا نام سر فہرست ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا جو تمہارا یہاں علاج ممکن ہوا۔ انور رات تک میرے ساتھ ہسپتال میں ہی رہے ۔ رات کو زبیر صاحب اور چودھری سرور صاحب میری مزاج پرسی کے لیے آئے تو انور کو بھی ساتھ ہی ان کے ہوٹل پہنچانے کے لیے ساتھ لے گئے ۔ایک دن اس کارڈ یو ہسپتال میں رہنے کے بعد مجھے دوبارہ اسی ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں مجھے ائر پورٹ سے پہنچایا گیا تھا۔ میری حالت قدرے بہتر تھی میں جلد از جلد واپس اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔ پرانے ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹروں اور نرسوں نے میرا پر تپاک استقبال کیا اور کامیاب انجیو گرافی کی مبارکباد دی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تمام لوگ بالکل کسی اپنے قریبی دوست یا رشتہ دار کی طرح مجھے یوں ویلکم کر رہے ہیں۔ میرے کمرے میں وہ ضعیف عورت بھی مجھے کامیاب انجیو گرافی پر مبارکباد ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ دینے لگی۔ اس نے انور کو کہا کہ تم اب اپنی بیوی کو کبھی کہیں اکیلا نہ جانے دینا۔ انور نے مسکرا کر جواباً کہا کہ “ میں کب اس کو کہیں اکیلا جانے دیتا ہوں یہ خود ہی مجھے اکیلا چھوڑ کر جاتی رہتی ہے”
شام کو ڈاکٹروں نے تمام میڈیکل رپورٹ دیکھ کر بتایا کہ ایک دو دن میں میں واپس فلائی کر کے جرمنی جاسکتی ہوں۔ کچھ احتیاطی تدابیر اور دوائیاں لکھ کر دی گئیں اور جرمنی میں مذید علاج کے لیے بھی زور دیا۔ انور نے بھی ڈاکٹروں کے مشورے سے برلن واپسی کی فلائٹ بک کروائیں اور میں دو دن بعد انور کے ساتھ واپسی کے لیے اسی ائر پورٹ پر پہنچ گئی جہاں سے ہسپتال پہنچا دی گئی تھی۔ ائر پورٹ پر صدف مرزا اور زبیر صاحب مجھے الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ صدف کے ہاتھ میں پھر تحائف کا ایک تھیلا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ انور بھائی کے بورڈ کیس میں تو جگہ ہوگی اس لیے میں نے کچھ اور بھی چیزیں آپ لوگوں کے لیے بطور تحفہ لے لیں۔ کھلانے ، پلانے اور تحائف دینے کے معاملے میں صدف نے اپنا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ ہم نے ایک بار پھر سب کو الوداع کہا اور ائر پورٹ میں سامان کی اسکرینگ کروانے اور باڈی سرچ کے بعد اپنے برلن جانے والے جہاز کا گیٹ نمبر تلاش کرتے ہوئے اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اس سفر نے میری زندگی میں تبدیلی کا ایک نیا موڑ شروع کیا تھا ۔ جب اعلان ہوا کہ اے گروپ کے مسافر قطار بنا لیں تو میں نے انور کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ انور نے میرا ہاتھ دبا کر تسلی دی کہ وہ میری زندگی کے ہمسفر ہی نہیں بلکہ رہبر بھی ہیں۔ اس وقت اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے کاندھے پر کسی نے پیچھے سے زور سے ہاتھ رکھا ہے۔ میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا وہ “ یوحان” تھا میری جرمن دوست اندریا کا ڈینش شوہر جو کاروباری معاملات اور اپنے والدین سے ملاقات کی غرض سے اکثر کوپن ہیگن آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا ۔ اُس نے انور کی زبانی انور سے کہا
” مجھے یقین ہے کہ اس یادگار سفر نے تمہاری بہادر بیوی کی ہمت اور بڑھا دی ہوگی اور ساتھ میں تمہیں بھی ہوشیار کر دیا ہوگا کہ تمہاری بیوی اب زندگی میں تمہیں کبھی بھی اور کہیں بھی ایڈوینچر دکھانے کی ایک اور کامیاب کوشش کر سکتی ہے”
اس کی اس بے ساختہ صاف گوئی پر ہم تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔ لیکن اس قہقہے نے اچانک میرے سینے میں ایک ہلکا سا درد جگا دیا ۔ دل نے مجھ سے کہا
“آہستہ ! اب زندگی کی بھاگ دوڑ کو لگام دینا سیکھو۔۔۔۔۔ اب تم اور تمہارا یہ دل تمہاری سفر کی بہت سی صعوبتوں کو نہیں سہہ سکتے”
لیکن میں نے بھی مسکرا اس درد کو برداشت کیا اور اپنے دل سے کہا” جو گزر گیا اسے بھول کر آگے بڑھو ! ابھی بہت سے سفر تمہارے منتظر ہیں “۔
ختم شد
میں فلائٹ سے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ۔ بورڈنگ کارڈ بھی ہاتھ میں تھا لہذا اپنا سامان چیک کروا کر اور باڈی سرچ کے بعد اندر ائر پورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس میں سیر کرنے لگی ۔ سارہ اور مایا کے پسندیدہ ڈینش بسکٹ خریدے اور انور کے لیے ایک ڈارک چاکلیٹ کا پیکٹ ۔ بورڈ کیس کھول کر چیزیں اس میں ڈالنا چاہیں تو جگہ کم محسوس ہوئی ۔ بالآخر ایک اضافی شاپر سنبھال کر اپنے جہاز کا گیٹ نمبر چیک کر نے لگی۔ جہاز کے لگنے میں ابھی کچھ وقت تھا میں نے ایک کافی کا کپ خریدا اور آہستہ آہستہ اپنے مطلوبہ لاؤنج میں پہنچ گئی ۔ میرا مطلوبہ لاؤنج ائر پورٹ کی سب سے نچلی منزل پر تھا۔ دس پندرہ منٹ تک مٹر گشت کرتے کرتے میں انتظار گاہ میں پہنچ گئی اور بیٹھتے ہی اپنا انٹرنیٹ کنکٹ کرکے سب سے پہلے صدف کو شکریہ لکھا پھر میرے شوہر نامدار آن لائین نظر آئے تو ان کو میسج کیا کہ جہاز بروقت ہی برلن پہنچے گا ۔ انور عارف نقوی صاحب کے یہاں گئے ہوئے تھے انہوں نے مزید بتایا کہ اردو انجمن کے اگلے جلسے کے لیے تاریخ طے کر دی گئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے ایئر پورٹ لینے آئیں گے یا کہ میں ٹرین سے گھر آجاؤں ؟ انور نے میرے اس سوال کو مذاق میں لیتے ہوئے کہا کہ “ ہاں اب تک تو تمہیں میں نہ کبھی ایئر پورٹ چھوڑنے گیا ہوں نہ ہی لینے آیا ہوں تو اس بار بھی خود ہی آجانا” میں انور سے بات چیت کے دوران فیس بک پر خبر دیکھی کہ معروف ایکٹوسٹ اور قانون دان عاصمہ جیلانی کی وفات ہوگئی ہے۔ میں نے ایک چھوٹا سا اسٹیٹس فیس بک پر اس حوالے سے لکھا ابھی پوسٹ نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا کہ جہاز میں سوار ہونے والے مسافر اے اور بی کیٹگری کے حوالے سے جہاز میں داخل ہونے کے لیے چیکنگ کی قطار بنا لیں۔ میں نے اپنے بورڈنگ کارڈ پر نظر ڈالی وہاں اے لکھا تھا ۔ میں قطار میں لگنے کو جیسے ہی کھڑی ہوئی تو محسوس ہوا کہ میرے سر سے کوئی درد چیرتا ہوا میرے ہاتھ، جبڑے اور سینے میں داخل ہورہا ہے۔ ایک دم آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ میں واپس اپنی سیٹ پر گرتے ہوئے بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کچھ سائے میرے سامنے سے گزر رہے ہیں ۔ میں نے مدد کے لیے پکارنا چاہا لیکن آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ میں اسی حالت میں وہاں بیٹھی رہی کچھ دیر بعد ہمت کر کے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو دھڑام سے زمین پر گر گئی۔ جہاز کی سیکیورٹی کا عملہ دوڑ کر میرے پاس آیا ، مجھے اتنا یاد ہے کہ کسی نے آواز لگا کر مجھے جگانے کی کوشش کی۔ میں بے ہوش ہوگئی تھی۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو میں ایک ہسپتال نما جگہ پر تھی اورایئر پورٹ کے کئی لوگ اور ایمرجنسی میڈیکل ٹیم میرے ارد گرد بیٹھی مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر ایک ڈاکٹر نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا کہ میری ابلاغ کی زبان کون سی ہے یا میں کون سی زبان میں بہتر طور پر بات کر سکتی ہوں۔ میرے منہ سے “ اردو “ نکلا۔ انہوں نے میرے جرمن پاسپورٹ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا “کیا تم جرمن نہیں جانتی ؟ تب میں نے فوری کہا کہ ہاں بالکل انگریزی ، جرمن اردو اور ہندی میں بات کر سکتی ہوں۔ فوری ایک جرمن میل نرس نے آگے بڑھ کر مجھے بتانا شروع کیا کہ میرا بلڈ پریشر انتہائی درجے تک بڑھا ہوا ہے اور ای سی جی بھی نارمل نہیں ہے۔ اس لیے ایئر پورٹ کے ایمرجنسی روم سے مجھے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے گھر فون کرنا ہے تب اس نے میرے اوور کوٹ کی جیب سے فون نکال کر دیا میں نے انور کو فون کیا لیکن انہوں نے ریسو نہیں کیا تو میں نے ایک میسج بھیجا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے میں اس جہاز سے نہیں آرہی۔ شاید پہلے وہ یہ خبر پڑھ کر مذاق سمجھے لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے کال کی تو میں نے مختصراً انہیں بتایا کہ میں اس وقت ایمبولینس میں ہوں ہسپتال جانے کے لیے۔۔۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ ڈاکٹر یا ایمرجنسی عملے نے میرا فون لے لیا اور نہایت پرخلوص ہوکر محبت سے کہا کہ میں اب بات نہ کروں بلکہ نام بتادوں تو وہ کوپن ہیگن میں اور جرمنی میں میرے لوگوں سے رابطہ کر کے انہیں خود تمام صورتحال بتا دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ انور اور صدف مرزا نامی دو لوگوں سے رابطہ کر کے میری صورتحال بتا دیجئے۔ وہ مہربان شخص میرے فون کو کچھ دیر ہاتھ میں لے کر نمبر و نام تلاش کرنے لگا ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے فون میں رابطے کے نام اردو میں محفوظ ہیں اور افسوس کہ میں اردو نہیں پڑھ سکتا۔ اس وقت مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہر جگہ اردو سے محبت کا اظہار شاید درست نہیں ۔۔۔۔ لاطینی حروف تہجی کی اہمیت اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔خاص طور پر کسی ریکارڈ یا نشانی کے لیے۔
میں نے دوبارہ موبائل سے انور اور صدف کے نمبر نکال کر اسے دیے جو اس نے اپنے فون میں محفوظ کر لیے۔ ہم ہسپتال پہنچے اور ایمرجنسی وارڈ پہنچا دیئے گئے جہاں ایک جرمن بولنے والی نرس کا فوری انتظام ہوا۔ ڈنمارک میں بھی لوگ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح اتنی انگریزی نہیں بولتے ۔ بس کام چلانے کی حد تک ہی گفتگو کرتے ہیں۔ میرا ای سی جی اور بلڈ پریشر مستقل بڑھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کچھ مشینوں اور دواؤں کے زریعے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نرس نے بلڈ لینے اور ڈرپ لگانے کے لیے بازو اور ہاتھوں کی پشت پر نسیں تلاش کرنا شروع کی اور کئی جگہ ناکامی کے بعد میری ہتھیلی کی پشت سے خون کے فوارے سے چھوٹ گئے۔ میرے کپڑے اور بستر پر خون چاروں طرف پھیل گیا۔ وہ نرس گھبرا گئی اور آواز دے کر مزید عملے کو بلایا۔ ایک صحتمند اور لمبی چوڑی نرس نے آکر تمام حالات قابو کئے اور بازو میں صحیح جگہ نس تلاش کرکے ڈرپ اور سرنج لگائی ۔ اس دوران وہ مجھ سے مسکرا کر کہنے لگی
تم پریشان نہ ہو ۔۔۔ذرا سا ہی خون نکلا ہے وہ بھی علاج کے لیے لیکن تم جرمنوں نے تو ہم ڈینش لوگوں کا بہت ناحق خون بہایا ہے”
وہ یہ بات مذاق میں کہہ رہی تھی لیکن میں نے اپنا دامن بچاتے ہوئے کہا کہ میں تو پیدائشی پاکستانی ہوں جرمن شہریت تو مصلحتاً لینا پڑی ۔۔۔مجھ میں تو کسی ظالم شخص کا خون ہو ہی نہیں سکتا میرے جسم میں بھی محنت و محبت کے علاوہ کسی اور خون کا نمونہ نہیں ہے اور ایسے نادر خون کو ناحق مغالطے میں ضائع کرنا دور اندیشی نہیں ” ہے “ میرے اس جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی تمہاری تو شکل و رنگت اور قد کاٹھ ہی بتا رہا ہے کہ تم مظلوم قوم سے تعلق رکھتی ہو۔ اسی ہنسی مذاق میں گہری گفتگو جاری رہی ۔ میری حالت رفتہ رفتہ بہتر ہورہی تھی، کچھ ٹیسٹ ہوگئے تھے اور کچھ باقی تھے۔ میرا لباس تبدیل کر کے مجھے ہسپتال کے وارڈ میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ اسی اثناء میں صدف مرزا ایمرجنسی روم میں زبیر صاحب کے ساتھ داخل ہوئیں۔ بیچاری کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ انہوں نے کافی دیر بعد جرمنی سے انور کا میسج اور میری مس فون کال اپنے فون پر دیکھ کر انور سے رابطہ کیا تھا اور ایڈریس لے کر ہسپتال پہنچی تھیں۔ زبیر صاحب بھی بہت فکر مند تھے۔ صدف کو دیکھ کر مجھے تھوڑی ڈھارس ہوئی ۔ اُن کے وہاں ہوتے ہی کچھ اور ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے کہا کہ ایسی خطرے کی اب کوئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی چوبیس گھنٹے وہ مجھے زیر نگرانی رکھیں گے ۔ صدف کچھ دیر بیٹھ کر اگلی صبح آنے کا کہہ کر چلی گئیں ۔ ادھر جرمنی میں انور پریشان ہوگئے اور بڑی بیٹی سارہ کو ہوسٹل سے فوری گھر آنے کا کہہ کر اپنی کوپن ہیگن کے لیے فلائٹ تلاش کرنا شروع ہوگئے۔ انہیں دو دن کے بعد کی فلائٹ مل رہی تھی۔ میری بیٹیاں میرا حال سن کر پریشان تھیں ۔ میری عزیز از جان دوست اور بھابھی قدسیہ اور ذوالقرنین بھائی نے ہمیشہ کی طرح میرے بچوں اور انور کو حوصلہ دیا، انور کے بڑے بھائی سرور غزالی جو دوست زیادہ ہیں انہوں نے بھی انور کو حوصلہ دیا۔سرور بھائی کی ہمت دلانے کی وجہ سے انور کو ہمیشہ ہر مشکل سے نجات کا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملی ہے۔
مجھے ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں کئی مشینوں اور تاروں میں جکڑ کر لٹا دیا گیا۔ چوبیس گھنٹے ایسی حالت میں رہنے کا سوچ کر مجھے پریشانی تھی۔ لیکن اگلی صبح مجھے صرف ای سی جی اور بلڈ پریشر کی چھوٹی سے مشین لگا دی گئی اور نارمل چلنے پھرنے کو کہا گیا۔ اس دوران اس وارڈ میں ایک بوڑھی عورت بھی آگئی تھی جو تھوڑی بہت جرمن جانتی تھی۔ صبح ناشتے کے وقت وہ جرمن زبان سے آشنا نرس میرے پاس آئی اور گذشتہ روز اپنی ناکام بلڈ لینے کی کوشش پر معذرت کی۔ اس نرس نے بتایا کہ اس کا دوست پاکستانی ہے اور وہ چند اردو کے الفاظ جیسے سلام و شکریہ کہنا جانتی ہے۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں اردو اور ہندی زبانیں برلن کی جامعات میں پڑھاتی ہوں تو وہ بضد ہوئی کہ میں صحتمند ہونے کے بعد اسے اسکائیپ پر اردو زبان بولنا سکھا دوں ، اس نے میرا فون نمبر لے لیا۔ اس نرس نے کہا کہ اردو کی تحریری مشق میں ابھی اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن بول کر اور سن کر وہ اردو زبان کے ابلاغ سے آشنا ہونا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ برلن جاکر اور طبیعت کی بحالی کے بعد میں اُس کو آن لائین اردو ضرور سکھاؤنگی۔
صبح جب ڈاکٹرز وزٹ پر آئے تو مجھے انہوں نے خبر دی کہ گذشتہ روز مجھے ہلکا سا ہارٹ اٹیک آیا تھا جس کی جانچ کے لیے انجیو پلاسٹی یا انجیو گرافی کرنا لازمی ہے۔ اگلی صبح مجھے کوپن ہیگن کے کارڈ یو سینٹر منتقل کیا جائے گا جہاں یہ انجیوپلاسٹی ہوگی۔ جس کے کامیاب نتائج کے بعد کے دو دن کے بعد مجھے فلائی کرکے واپس برلن جانے کی اجازت ہوگی۔
میں یہ سب کچھ سن کر پریشان ہوگئی اور انور کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے برلن میں ہیلتھ انشورنس کے دفتر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن کے ہسپتال سے وہ لوگ بھی رابطے میں ہیں اور اگر ہیلی کاپٹر سے بھی فوری برلن لاکر علاج کروانا مقصود ہو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن کوپن ہیگن کے ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ رسک نہ لیا جائے اور انجیوپلاسٹی یا گرافی کے بعد ہی مریض کو واپس بھیجا جائے۔ کچھ ضروری کاغذی کارروائی کے بعد یہ طے پا گیا کہ اگلی صبح مجھے کارڈیالوجی کے بہترین اور معروف ہسپتال Rigshospitalet میں منتقل کر دیا جائے گا۔
لنچ ٹائم سے گھنٹہ بھر پہلے صدف مرزا اور عالیہ ہسپتال پہنچ گئے۔ عالیہ میرے لیے جیولری کا تحفہ لے کر آئی تھی۔ اس نے بہت محبت سے تحفہ دیتے ہوئے کہا
“ آنٹی آپ سے اتنی جلدی دوبارہ ملاقات کا نہیں سوچا تھا ۔۔۔آپ کا تحفہ دینے میں خود آجاتی لیکن یہ کچھ اچھا نہیں کیا آپ نے کہ گفٹ لینے کے لیے اتنا بڑا رسک لے لیا”
میں اور صدف اس کی اس شرارتی گفتگو پر ہنس پڑے ۔ عالیہ نے ساری میڈیکل رپورٹس دیکھیں اور تسلی دی کہ اب سب ٹھیک ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر وہیں راہداری میں کچھ دیر چہل قدمی بھی کرتی رہی اور ساتھ ساتھ میرا بلڈ پریشر اور ای سی جی بھی دیکھتی رہی۔ عالیہ اور صدف کافی دیر بیٹھ کر واپس چلی گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد سرور صاحب اور زبیر صاحب دوبارہ آئے اور مجھے تسلی دے کر گئے کہ صبح انور ظہیر کو وہ ائر پورٹ سے لے کر ہسپتال پہنچا دیں گے ۔ انور نے ہسپتال کے قریب ہی اپنا ایک ہوٹل بھی بک کر لیا تھا۔ وہ اگلے روز صبح کی پہلی فلائیٹ سے کوپن ہیگن پہنچ رہے تھے ۔ میں نے ان دونوں مہربانوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ چودھری سرور صاحب اور زبیر صاحب نے اس مشکل وقت میں میری بہت مدد کی تھی ان دونوں کا اور صدف مرزا کا یہ احسان مجھے زندگی بھر یاد رہے گا کہ اس غیر زبان پردیس میں وہ میری زبان بنے اور اس مشکل وقت میں میری فیملی کے لیے بھی مددگار رہے۔ میں نے پاکستان فون کرکے اپنے چھوٹے بھائی اعظم اور بہن ثروت کو جب اطلاع دی تو وہ دونوں بھی بے حد پریشان ہوگئے۔ دو ماہ قبل میری بڑی بہن کی تکلیف دہ علالت اور وفات نے انہیں ایک جھٹکا پہلے ہی دے رکھا تھا۔ اعظم نے صدقہ و خیرات کے ساتھ ساتھ دعائے صحت کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر دیں۔ میں سب کی دعائیں ، محبتیں سنبھالے اپنے رب کی کرم نوازیوں کے ساتھ مطمئن تھی اور امید تھی کہ اللہ مجھ پر ہمیشہ کی طرح مہربان رہے گا اور کامیاب انجیوگرافی ہوجائے گی۔
اگلے روز صبح فجر کی نماز میں نے بستر بیمار پر ہی ادا کی اور ساتھ ہی دو رکعت نماز کا اہتمام اپنی صحت و زندگی کے لیے کیا۔ صبح نہار منہ کچھ ضروری بلڈ ٹیسٹ اور دواؤں کے بعد مجھے دوسرے ہسپتال میں ٹرانسفر کرنے کے لیے ہسپتال کی ایمبولینس اور عملہ آگیا۔ ادھر انور کا بھی اسی دوران فون آیا کہ وہ گھر سے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہورہے ہیں ۔میری ہمت بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جلد مجھے برلن اپنے ساتھ لے جانے کے لیےآرہے ہیں اس لیے میں کوئی فکر نہ کروں۔ انور اپنی طبیعت میں بہت حساس اور نرم دل انسان ہیں اُن کی یہی خوبیاں شاید ان کی کمزوری بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ مشکل وقت میں ہمت جلد ہار دیتے ہیں لیکن اس بار میں نے ان کے لہجے میں ایک عزم محسوس کیا تھا۔ اُن کے ساتھ اس چھبیس سالہ رفاقت میں ایسے لمحات کم ہی آئے ہیں لیکن جب بھی یہ لمحے آئے ہیں مجھے اپنی زندگی سے محبت ہوتی محسوس ہوئی ہے۔
ہسپتال پہنچ کر مجھ سے کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور بتایا گیا کہ آج کے شیڈیول میں میرا آپریشن پہلے نمبر پر ہے۔ ضروری ہدایات اور اطلاعات بہم پہنچانے کے بعد مجھے آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا۔ مکمل طور پر میں اس انجیو گرافی میں بے ہوش نہیں تھی بلکہ ڈاکٹروں کی تمام کارروائی سامنے اسکرین پر دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ میری کلائی پر ایک چھوٹا سا کٹ لگا کر ایک باریک تار نما چیز دل تک پہنچائیں گے اور جہاں جہاں دل کی شریانوں میں راستہ تنگ محسوس ہوگا وہاں ایک ہوا کا چھوٹا سا غبارہ نما عنصر چھوڑ دیا جائے گا جو دل کی تنگ شریانوں کو کھولنے کا کام کرئے گا۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اگر کلائی سے دل تک نہ پہنچا جاسکا تو ٹانگ میں جانگھ کے حصے پر طبع آزمائی کی جائے گی۔ لیکن ہم ٹھہرے شاعر و ادیب لوگ ! اتنے معتبر ، خوبصورت اور نرم خومسیحاؤں نے جب کلائی پکڑنے کا کہا تو کیسے انہیں دل کا راستہ نہ دکھاتے۔ کچھ دیر بعد ہمارے دل تک وہ اپنے فنِ مسیحائی کا جب راستہ پا گئے تو مبارکباد دیتے ہوئے کامیاب آپریشن کی نوید سنائی۔ ساتھ میں دل میں اضافی عنصر کو ڈال کر کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر سے باہر روم میں شفٹ کردیا۔ اس وقت دل زیرو میٹر کی نئی کنڈیشن میں آگیا تھا اور اس ہی لمحے ہسپتال کے کمرے میں انور بھی پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے بڑھ کر ملنا چاہا تو نرس نے ہمیں کمرے میں یہ کہہ کر الگ کر دیا کہ ابھی مجھے کچھ دیر کے لیے سونا بہت ضروری ہے۔ پھر کسی جذباتی سین کے بغیر وہ انور کو اپنے ساتھ ڈائینگ ہال میں لے جاکر ناشتہ کرونے لگی اور میری کلائی سے خون میں ڈالی گئی اضافی ہوا کو نکال کر سونے کے لیے دوائی کھلا دی۔
کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو انور بیچارے سامنے کرسی پر اُونگھ رہے تھے۔ میں پلنگ سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو وہ جاگ گئے۔ پھر ہم نے ڈھیروں گفتگو ایسے ہی کی جیسے شادی کے بعد ملنے پر ایک دوسرے کی قربت پاکر کی تھی۔ اسی دوران واٹس ایپ پر بچوں کے ساتھ ویڈیو کال کی تو دونوں میری بیٹیاں بھی کچھ مطمئن ہوئیں ۔ کچھ اور فون کال کرنے کے کچھ دیر بعد میں نے لنچ کیا اور ہاتھ میں ڈرپ کی بوتل کا اسٹینڈ پکڑ کر گھوم پھر کر کمرے کا جائزہ لینے لگی۔
چند لمحوں بعد ہی ایک نرس کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے ہشاش بشاش دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی کہ تم نے اپنے شوہر کی آمد سے جو تازگی اور توانائی پائی ہے وہ تمہارے چہرے اور تمہاری حرکت سے عیاں ہے۔ پھر کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر میں کرسی پر ہی بیٹھ گئی۔ اس ہسپتال کا تمام عملہ نہایت خوش اخلاق تھا۔ میں جرمنی سے اس ہسپتال کی سروس کا میعار اور ڈاکٹرز کی قابلیت کا موازنہ کرنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی میں طب اور صحت سے متعلق جو علاج و سہولت ہے وہ اعلیٰ درجے کی ہے لیکن یہاں کوپن ہیگن میں یہ تمام سروسز اور میعار اعلیٰ ترین درجے پر محسوس ہورہا تھا۔ انور جو کہ میڈیکل کے طالب علم رہ چکے ہیں اور میڈیکل فزکس کے حوالے سے ان کا جرمنی کے ہسپتالوں میں کام کرنے اور واقفیت کا سلسلہ پرانا ہے، مجھے بتانے لگے کہ دل کے تمام امراض کے علاج کے لیے یورپ بھر میں ڈنمارک کا نام سر فہرست ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا جو تمہارا یہاں علاج ممکن ہوا۔ انور رات تک میرے ساتھ ہسپتال میں ہی رہے ۔ رات کو زبیر صاحب اور چودھری سرور صاحب میری مزاج پرسی کے لیے آئے تو انور کو بھی ساتھ ہی ان کے ہوٹل پہنچانے کے لیے ساتھ لے گئے ۔ایک دن اس کارڈ یو ہسپتال میں رہنے کے بعد مجھے دوبارہ اسی ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں مجھے ائر پورٹ سے پہنچایا گیا تھا۔ میری حالت قدرے بہتر تھی میں جلد از جلد واپس اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔ پرانے ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹروں اور نرسوں نے میرا پر تپاک استقبال کیا اور کامیاب انجیو گرافی کی مبارکباد دی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تمام لوگ بالکل کسی اپنے قریبی دوست یا رشتہ دار کی طرح مجھے یوں ویلکم کر رہے ہیں۔ میرے کمرے میں وہ ضعیف عورت بھی مجھے کامیاب انجیو گرافی پر مبارکباد ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ دینے لگی۔ اس نے انور کو کہا کہ تم اب اپنی بیوی کو کبھی کہیں اکیلا نہ جانے دینا۔ انور نے مسکرا کر جواباً کہا کہ “ میں کب اس کو کہیں اکیلا جانے دیتا ہوں یہ خود ہی مجھے اکیلا چھوڑ کر جاتی رہتی ہے”
شام کو ڈاکٹروں نے تمام میڈیکل رپورٹ دیکھ کر بتایا کہ ایک دو دن میں میں واپس فلائی کر کے جرمنی جاسکتی ہوں۔ کچھ احتیاطی تدابیر اور دوائیاں لکھ کر دی گئیں اور جرمنی میں مذید علاج کے لیے بھی زور دیا۔ انور نے بھی ڈاکٹروں کے مشورے سے برلن واپسی کی فلائٹ بک کروائیں اور میں دو دن بعد انور کے ساتھ واپسی کے لیے اسی ائر پورٹ پر پہنچ گئی جہاں سے ہسپتال پہنچا دی گئی تھی۔ ائر پورٹ پر صدف مرزا اور زبیر صاحب مجھے الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ صدف کے ہاتھ میں پھر تحائف کا ایک تھیلا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ انور بھائی کے بورڈ کیس میں تو جگہ ہوگی اس لیے میں نے کچھ اور بھی چیزیں آپ لوگوں کے لیے بطور تحفہ لے لیں۔ کھلانے ، پلانے اور تحائف دینے کے معاملے میں صدف نے اپنا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ ہم نے ایک بار پھر سب کو الوداع کہا اور ائر پورٹ میں سامان کی اسکرینگ کروانے اور باڈی سرچ کے بعد اپنے برلن جانے والے جہاز کا گیٹ نمبر تلاش کرتے ہوئے اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اس سفر نے میری زندگی میں تبدیلی کا ایک نیا موڑ شروع کیا تھا ۔ جب اعلان ہوا کہ اے گروپ کے مسافر قطار بنا لیں تو میں نے انور کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ انور نے میرا ہاتھ دبا کر تسلی دی کہ وہ میری زندگی کے ہمسفر ہی نہیں بلکہ رہبر بھی ہیں۔ اس وقت اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے کاندھے پر کسی نے پیچھے سے زور سے ہاتھ رکھا ہے۔ میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا وہ “ یوحان” تھا میری جرمن دوست اندریا کا ڈینش شوہر جو کاروباری معاملات اور اپنے والدین سے ملاقات کی غرض سے اکثر کوپن ہیگن آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا ۔ اُس نے انور کی زبانی انور سے کہا
” مجھے یقین ہے کہ اس یادگار سفر نے تمہاری بہادر بیوی کی ہمت اور بڑھا دی ہوگی اور ساتھ میں تمہیں بھی ہوشیار کر دیا ہوگا کہ تمہاری بیوی اب زندگی میں تمہیں کبھی بھی اور کہیں بھی ایڈوینچر دکھانے کی ایک اور کامیاب کوشش کر سکتی ہے”
اس کی اس بے ساختہ صاف گوئی پر ہم تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔ لیکن اس قہقہے نے اچانک میرے سینے میں ایک ہلکا سا درد جگا دیا ۔ دل نے مجھ سے کہا
“آہستہ ! اب زندگی کی بھاگ دوڑ کو لگام دینا سیکھو۔۔۔۔۔ اب تم اور تمہارا یہ دل تمہاری سفر کی بہت سی صعوبتوں کو نہیں سہہ سکتے”
لیکن میں نے بھی مسکرا اس درد کو برداشت کیا اور اپنے دل سے کہا” جو گزر گیا اسے بھول کر آگے بڑھو ! ابھی بہت سے سفر تمہارے منتظر ہیں “۔
ختم شد