بچپن کی گرم شاموں میں اگثر گاؤں سے باہر رستے پر قمیض اتار کے بان کی چارپائی پر لیٹے ہوئے بابا رحماں سے جب ایک روز میں نے سوال کیا کہ بابا آپ کو مچھر نہیں کاٹتے تو انہوں نے بہت پرجوش ہو کر بتایا کہ بیٹا مجھے مچھر یا تو کاٹتے ہی نہیں ہیں یا پھر کاٹنے کے بعد مر جاتے ہیں۔ یہاں سے میرے شعوری ذہن میں ایک سوال اٹھا کہ ایسا کیسے اور کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی سوال کے جواب میں میں “ہرڈ امیونٹی” کا نظریہ ملفوف ہے۔
کائنات جب سے وجود میں آئی ہے تب سے زمین پر جغرافیائی، ماحولیاتی اور حیاتیاتی تبدیلیاں مسلسل آتی رہی ہیں۔ کبھی بارشیں نہیں ہوتیں تو کبھی سیلاب آ جاتا ہے۔ کبھی گرمی شدید پڑتی ہے تو کبھی سردی کڑاکے نکال دیتی ہے کبھی زلزلے ہرچیز کو ملیا میٹ کرتے ہیں تو کبھی سونامی۔ کبھی وباؤں نے آن گھیرا تو کبھی جنگوں نے ملیامیٹ کردیا۔ کبھی قحط اٹھا تو کبھی کسی اور مصیبت نے آن پکڑا۔ الغرض انسانی حیات کے تسلسل میں میں ازل سے لے کر اب تک کبھی ٹھہراؤ نہیں آیا۔ ان بدلتے حالات میں میں انسانوں سمیت تمام مخلوقات میں بھی مسلسل جینیاتی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو ہر انسان کو دوسرے انسان سے کسی حد تک مختلف کر دیتی ہیں۔ حیاتیات کی زبان میں ہم ان تبدیلیوں کو میوٹیشنز Mutations کہتے ہیں۔ انہیں میوٹیشنز کے نتیجے میں کرہ ارض کے مختلف حصوں میں رہنے والے انسان نسل در نسل مختلف ہوتے چلے گئے۔ یہ تبدیلیاں (میوٹیشنز) اچھی بھی ہوسکتی ہیں اور بری بھی لیکن ان کے اچھے اور برا ہونے کا فیصلہ ماحول کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان گورے بھی ہیں کالے بھی ہیں جسامت میں بڑے بھی ہیں چھوٹے بھی ہیں اسی طرح سے قامت بھی مختلف ہے۔ یہ اختلاف بنیادی طور پر جینیاتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم کون سی رنگت والے انسان کرہ ارض کے کس خطے میں میں زیادہ کامیاب طور پر زندہ رہ سکتے ہیں یہ فیصلہ ان کا ماحول کرتا ہے مثال کے طور پر افریقہ میں کالی رنگت اور بلند قامت اور یورپ میں گوری رنگت والے لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ آگے پھر ان کی نسلیں بھی والدین کی انہی چنیدہ ماحولیاتی خصوصیات کا اظہار کرتی ہیں۔اور یوں سینکڑوں ہزاروں سال گزرنے کے بعد یورپ میں صرف گورے اور افریقہ میں صرف کالے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اور یہ لوگ حیاتیاتی اور جینیاتی طور پر ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف ہوتے ہیں۔ مختلف خطوں میں متاثرین کرونا کی مختلف ریشو بھی اسی جینیاتی اختلاف کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
1859ء میں ڈارون نے جانوروں کی مختلف انواع کا مطالعہ کرنے کے بعد ارتقا کا ایک نظریہ پیش کیا جسے تھیوری آف نیچرل سلیکشن یا میری اور عام آدمی کی زبان میں جنگل کا قانون کہہ لیں۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی جنگل میں جینیاتی طور پر کمزور ہرن بھی ہوں گے اور طاقتور اور تیز بھاگنے والے ہرن بھی۔ جب بات شیر سے جان بچانے کی آئے گی تو کمزور ہرن کا مقام شیر کا پیٹ ہو گا اور طاقتور ہرن بچ جائیں گے۔ انہی طاقتوروں کی نسل آگے بڑھے گی اور ان کے بچے بھی زیادہ تر انہی کی طرح طاقتور ہوں گے۔ اسی اصول یعنی طاقتور کی جیت کو جنگل کا قانون، Might is Right یا ڈارون کی زبان میں میں Survival of the Fittest کہا جاتا ہے۔ اگر سارے جاندار بغیر فرق ایک جیسے ہوں گے تو کسی بھی وبا کی صورت میں وہ ایک ہی ٹوکری میں رکھے گئے تمام انڈوں کی طرح ایک جیسے پرخطر انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔تاہم اگر ان میں سے سے کچھ فیصد جاندار باقیوں سے مختلف ہوں گے تو وہ اس بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور یوں ساری نسل کل صفحہ ہستی سے مٹ جانے سے محفوظ رہے گی۔ اگر کسی علاقے میں مچھر کے کاٹے والی بیماریاں (ملیریا، ڈینگی فیور) پھیلیں گی تو اس آبادی میں موجود چاچا رحماں جیسے افراد محفوظ رہیں گے کیونکہ مچھر انہیں نہیں کاٹ سکتا اور یوں انسانی نسل بھی آگے چلتی رہے گی اور معدومی سے بچ جائے گی اور یوں رفتہ رفتہ انسانوں میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جائے گی جو اس وائرس سے امیون ہوں گے۔
کرونا وائرس کے کیس میں بھی یہی قانون کارفرما ہے کہ اگر تمام لوگ کورونا وائرس کو فیس کریں تو زیادہ تر آبادی آہستہ آہستہ اس بیماری سے ہمیشہ کیلیئے امیون ہوتی جائے گی اور اس کی فیصد تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ مدافعت اسی صورت پیدا ہو گی اگر وائرس کو جسم میں داخل ہو نے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کو Herd Immunity یا اجتماعی مدافعت کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے تمام انسانوں کو اس خطرناک وائرس کا بلا تفریق سامنا کرنا ہوگا۔ اور اس میں ہی ان دو فیصد لوگوں کیلئے جان سے جانے کا خطرہ موجود ہے جو اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا نہیں کر سکتے۔ یہ ایک جنگل کی مثال ہے تاہم انسانوں کا کیس مختلف ہے۔
انسانوں نے کمزور اور اور طاقتور میں تفریق ختم کرنے کے لیے ریاست اور قانون کا سہارا لیا اور اس سے انسانی تہذیب جنگل کی تہذیب سے مختلف ہوتی گئی۔ انسانی تہذیب میں بیمار، کمزور، اور معذور کی جان مال اور عزت کی حفاظت ریاست اور اس کا قانون کرتا ہے۔ ہماری ریاست بھی بالآخر وائرس سے نمٹنے کے لیے غیر اعلانیہ طور پر وہی جنگل کا قانون Herd Immunity لا رہی ہے تاکہ اٹھانوے فیصد کی معیشت کو بچانے کے لئے جنگلی قبائل کی طرح ایک دو فیصد کی جان کی بھینٹ چڑھا دی جائے۔ اگرچہ مجبوری میں بھی کیا گیا یہ عمل کم سے کم اکیس لاکھ (1 فیصد) لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ تاہم اس کا سب سے بڑا شکار وہ تہذیبی اقدار ہوں گی جنہوں نے کمزوروں کی بھینٹ دیتے، غاروں میں چھپے، قبائل میں بٹے، غیر محفوظ انسانوں کو نکال کر ایک ریاست کی یقینی محفوظ، اور شفیق مامتائی آغوش میں لا ڈالا تھا۔