کس سے پرسہ کریں کس کو دلاسہ دیں کس سے لپٹ کر روئیں دیوار سے سر پھوڑیں، خاک سر میں ڈالیں، گریبان چاک کریں، کیا کریں۔کچھ سمجھ نہی آتا کیا کریں، 24 گھنٹے ہوگئے ہیں مجاہد کے بائوجی کو گزرے، حماد ، عادل کے بائوجی کو گزرے، شبیر بھائی کو گزرے، یار شبیر بھائی سنڈے برنچ والوں، شبیر بھائی گزر گئے یار، ہائے ہائے شبیر بھائی گزر گئے۔ یار شبیر بھائی آپ کیسے جاسکتے ہو کوئی ایسے بھی جاتا ہے۔ ایسے تو نہیں ہوتا شبیر بھائی، شبیر بھائی یہ تو فاؤل ہے، آپ تو وضعدار تھے، آپ تو باوقار تھے آپ ملنسار تھے، آپ تو سب کو جوڑنے والے تھے، آپ ایسے کیسے جاسکتے ہیں۔
24 گھنٹے ہوگئے ہیں اس انتظار میں ہوں کہ کس سے تعزیت کروں کس کو پرسہ دوں کس کے گھر جاؤں کہاں سفید براق چادر بچھی ہوگی سیپارے رکھے ہونگے لوگ سر جھکائے دھیمی آواز میں قرآن پڑھ رہے ہونگے لیکن ایسا کچھ بھی نہی ہوسکا ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکتا، اپنے گھر میں بیٹھا ہوں۔ ایک بڑے آدمی کو تصور میں لارہا ہوں اسکی تصویر بنارہا ہوں۔
لوگوں تم نے بہت دولت والے ،پیسے والے دیکھے ہونگے، تم نے سیٹھ دیکھے ہوں گے، بیوپاری دیکھے ہونگے، کبھی صوفی سیٹھ کو دیکھا ہے ہم نے صوفی سیٹھ کو دیکھا ہے ہم نے صوفی سیٹھ شبیر قریشی کو دیکھا ہے لوگوں تم نے سونے کا آدمی نہی دیکھا ہوگا۔ ہم نے سونے کا آدمی دیکھا ہے ہم نے ہیرے جیسے دل والا دیکھا ہے، ہم نے شبیر قریشی کو دیکھا ہے اس شہر میں ایسے کون سے بڑے لوگ رہ گئے ہیں جو یہ تناور درخت بھی گرگیا۔ہم سے تو وہ گھنا سایہ بھی چھن گیا ہم تو چلچلاتی دھوپ میں آگئے یہ تو آسمان ہمارے سر پہ آگرا ہے،
اپنے آپ سے شبیر قریشی کا پرسہ کررہا ہوں اپنے غم سے خود لڑرہا ہوں، شکیل خان سے شکیل خان تعزیت کررہا ہے، شبیر قریشی کی تعزیت کررہا ہوں، میرے بھی تو بڑے بھائی تھے، مجھ سے بھی تو محبت کرتے تھے مجھے بھی تو یاد کرتے تھے، جس اتوار برنچ میں ذرا تاخیر ہوجائے سوا بجے اور فون کی گھنٹی گنگنائے لگتی ارے خان صاحب کہاں ہو جلدی آئو ۔ ارے شبیر بھائی اب تو آپ میرے سیاسی خیالات کو بھی مانتے تھے میرے مذہبی خیالات کی بھی تائید کرتے تھے اور مجھ سے شاعری بھی سنتے تھے۔ شبیر بھائی اقبال عظیم کی طویل بحر کی غزل عزم بہذاد کی غزل اب کون سنے گا۔
میں آپ کا دوست نہیں تھا مجھ سے آپ نے ہمیشہ چھوٹے بھائی والا تعلق رکھا اور مجھے اس میں ہی مزا آتا تھا۔ آپ کا دل بڑا تھا آپ کا دماغ وسیع تھا، لوگوں کو جیتنے کا ہنر آپ کو آتا تھا آپ سر آنکھوں کے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے تھے، دسترخوان کی وسعت کشادگی اور اس پر کھانوں کی بہار راجہ مہاراجہ، نوابوں کو شرماتی تھی اس دسترخوان پر بیٹھ کر آپ کا مشفقانہ انداز، اب کہاں سے لائیں گے، آپ تو اپنے رب کی جنت میں اپنا دسترخوان سجائے بیٹھے ہونگے اور مشتاق یوسفی صاحب کو بھنڈی اور دیگی قورمہ کھلا رہے ہونگے لیکن یہاں ہم کیا کریں کہ دل پھٹ رہا ہے آپ بہت یاد آرہے ہو شبیر بھائی، آپ بہت یاد آرہے ہو ۔