پارسی عقائد کا جائزہ لیں تو یہاں اچھے اور برے خدا کا تصور موجود ہے یعنی اچھائی کا خدا سراپا رحمت و شفقت ہے ۔ اس سے کسی قسم کی سزا یا ناراضگی کا تصور نہیں۔۔ مہربانی کسے کہتے ہیں ۔ رحم کس چڑیا کا نام ہے ۔ برائی کے خدا کا بالکل نہیں جانتا۔ ان عقائد کے تحت پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیا تو برائی کا خدا مجھے بھی دکھائی دیا ۔۔ جس پر تمام فرقے اور مسالک ایک پیج پر ہیں ۔۔ یہاں تک کہ مزارات اور درگارہوں پر جانے کے سخت مخالف بھی یہی سمجھتے ہیں ۔ عالمی وبا کے سبب یہ نظریہ اور ابھر کر سامنے آیا ۔۔ راہ چلتے کسی بھی شخص سے پوچھیں کہ ذمےدار کون ۔ انگلیاں ایک ہی جانب اُٹھیں گئیں۔ کہا جائے گا کہ ساری خرابی کا ذمےدار یہی ہے ۔۔ ہمارے خلاف مسلسل سازش کررہا ہے۔ ہمیں ترقی کرتا ،آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتا ۔۔ دنیا بھر بالخصوص پاکستانی مسلمان اس کا ہدف ہیں ۔یہ کسی بھی باصلاحیت پاکستانی کو یا تو اپنے پاس بلا لیتا ہے، نہ مانے تو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ بصورت دیگر کام تمام کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔۔ یعنی موت زندگی اسی کے ہاتھ میں ہوئی ۔ ہے نا ؟ ناقابل برداشت گرمی ہو یا دانت بجادینے والی ٹھنڈ ۔ غیرمعمولی بارشوں سے لے کر سمندری طوفان تک اسی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ۔ ہماری قوم اسے سراپا قہار اور جبار قرار دینے پر تلی ہے۔۔ سات سمندروں کی دوری کے باوجود اس کی دوربین نگاہوں سے کوئی پاکستانی محفوظ نہیں ۔ دنیا میں تباہی مچانے کیلئے یہ ہر پانچ سال بعد اپنا خلیفہ سامنے لاتا ہے۔ عام طور پر خلافت کی مدت پانچ سال ہوتی ہے تاہم کبھی کبھی یہ دس سال طویل بھی ہوسکتی ہے۔ مگر دس کے بعد بس۔ بھلے خلیفہ کسی کو مخالف کو صفحہ ہستی سے ہی کیوں نہ مٹادے۔ وہ رات گئی بات گئی کی مثال بن جائے گا۔ اس کے پیروکار کبھی اس بات پر سینہ نہیں پھلائیں گے کہ ہمارے لیڈر نے دشمن کے دو شہروں کو راکھ اور دھوئیں کا ڈھیر بنا کر خاک و خون میں نہلایا جس کے تصور سے انسانیت آج بھی کانپ جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شداد کی طرح اس خدا کی بھی جنت ہے جس میں داخلے کی خواہش 80 فیصد پاکستانی رکھتے ہیں ۔ ہزاروں تو مستقل طور پر سکونت بھی اختیار کرچکے ہیں لیکن اکثر یہ افراد بھی اس خدا اور اس کی جنت پر لعن طعن کرتے نظر آئیں گے مگر وہاں سے واپسی کو کسی صورت تیار نہیں۔
لیکن مجھے یہ برائی کا خدا بڑا نالائق لگا۔ موسموں پر قدرت کے باوجود اپنی جنت میں آنے والے خوفناک سمندری طوفان نہ روک پایا۔ ہولناک بگولوں پر بھی اس کا بس نہیں چلتا ۔ منہ زور ہوا پل بھر میں تعمیرات ملیا میٹ کردیتی ہے ۔۔ یہ کیسا خدا ہے جس کی جنت میں شیطان صفت لوگ چھپے بیٹھے ہیں ۔ موقع ملتے ہی اسکولز میں موت کی ہولی کھیل جاتے ہیں اور خدا کچھ نہیں کرپاتا ۔۔ سب سے بڑی نااہلی یہ ہے کہ دنیا بھر میں کورونا پھیلانے کا ذمےدار اپنا گھر نہ بچاسکا کیونکہ ہمارے بیانیے کے مطابق عالمی وبا اس کی کارستانی ہے ۔ وہیں ہم اس ضد پر بھی اڑے ہیں کہ خونی وائرس نے اسکا کچھ بگاڑا ہے نہ ہمیں کچھ کہہ رہا ہے ۔۔ حالانکہ اس شرارت کا ہدف بھی ہم تھے ۔ یہ آپ کا ذہن پڑھ لے گا ۔ پھر بھی شمالی کوریا کو ایٹم بم بنانے سے روک نہ پایا ۔ چین کی ترقی پر بھی بند نہیں باندھا ۔ پاکستان سے پل بھر میں مطلوبہ افراد کو اُڑا لے جانے والا ۔ آج تک ایڈورڈ سنوڈین کو چھو بھی نہ پایا ۔۔ اس کے حریف تو مضبوط سے مضبوط تر ہورہے ہیں ۔۔ پھر سوچتا ہوں حقیقی خدا ہوتا تو دنیا میں کسی کو سر اُٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ تو پھر ہماری قوم اسے برائی کا خدا کیوں بنا بیٹھی ہے جبکہ اس معاشرے اور نظام نے انسانیت کو بل گیٹس جیسے ہیرے، نوم چومسکی جیسے صاف گو اور ایڈورڈ سنوڈین جیسے حق پرست دئیے ۔۔ غور کریں تو وہ جنت نہیں اچھے اور برے انسانوں پر مشتمل ایک عام معاشرہ ہے ۔ میں جس خدا کو مانتا ہوں وہاں کوئی گناہ گار کسی قیمت بھی جنت میں نہیں جاسکتا۔ایک پتے کی جنبش ہو یا سمندر کا طلاطم اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔ وہ طوفان نوح جیسی عظیم آفت برپا کرسکتا ۔ چاہے تو ہاتھیوں کو ابابیلوں سے کچل دے۔ لیکن کیا کریں ہمارے لوگ ذات باری تعالٰی کو قہار اور جبار ماننے کو تیار نہیں بلکہ یہ صفت اسی زمینی خدا پر تھوپنے کو تلے ہیں۔
اب ذرا کچھ سوال اپنے آپ سے ہوجائیں کیا ہمارے دودھ میں ملاوٹ ، مالی بےضابطگیوں اور دھوکہ دہی کا ذمےدار وہ ہے۔ ذرا سوچئے کہ ہم پان گٹکا ،نسوار اسی خدا کی خوشنودی کیلئے لگاتے ہیں ؟تاہم اپنی اصلاح کرکے ہم اس کی خدائی چیلنج ضرور کرسکتے ہیں ۔ یقینناً اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت کوئی مشیت ہے ۔۔ کیونکہ قادر مطلق تو اسی کی ذات ہے۔ قوم کو فضول شرک سے بچانے اور ضمیر جھنجھوڑنے کی یہ ادنیٰ سی کوشش تھی۔قومی امکان ہے کہ اس تحریر کے بعد مجھے برائی کے خدا کا ایجنٹ قرار دیدیا جائے۔