خطاطی کے معاملے میں پاکستان پر اللہ کی بہت کرم نوازی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں تو کوئی اخبار مکمل ہوتا نہیں تھا اگر اس میں پائے کا کوئی خطاط نہ ہو۔ یہ خطاط اخبارات کی شہ سرخیاں اور سرخیاں ہی نہیں لکھتے تھے بلکہ اپنے سواد خط کے کمال سے اخبار کی تزئین و آرائش بھی کرتے تھے۔ اس تناظر میں ستر کی دہائی تک کے معیاری اخبارات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
بعد کے برسوں میں دنیا میں آرٹ کے نئے رجحانات متعارف ہوئے، خطاطی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس دور میں مصورانہ خطاطی رائج ہوئی جس میں پاکستان کا مقام بہت نمایاں ہے۔ اس کے بعد والے عہد میں اخبارات و جرائد اور کتابوں کے ٹائیٹل اور ان کے لے آؤٹ میں جدت پیدا کاایک نیا رجحان شروع ہوا جس میں مصورانہ خطاطی کے علاوہ بھی بہت سے نئے تجربات ہوئے۔ اس طرح کے تجربات کرنے والے خطاطوں میں ایک نمایاں نام ارشد خرم کا ہے۔
ارشد خرم اور ان کے ہم عصروں کا زمانہ اس اعتبار سے بہت مشکل رہا ہے کہ اس زمانے میں ایک طرف تو خبر کا ہجوم تھا اور دوسری طرف اس عہد کے صحافی خطاطی کی اقدار اور نفاست سے بڑی حد تک بے خبر تھے۔ ایسے لوگوں کے نباہ کرنا اور خطاطی جیسے متبرک کام پر آنچ نہ آنے دینا ایک مشکل ہدف تھا، اس زمانے کے خطاطوں، خاص طور پر ارشد خرم جس نسل کی نمائندگی کر رہے تھے، یہ کارنامہ بڑی بہادری سے انجام دیا۔
اس پس منظر میں اگر ارشد خرم کے کام کا جائزہ لیا جائے تو اس معاملے میں وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ ارشد خرم خطاطی کے روایتی دبستان سے تعلق رکھتے ہیں ، انھوں نے اس فن کو سیکھنے کی عمومی روایت کے مطابق مشق سے اپنی فنی استعداد کو مضبوط بنایا لیکن ان کا پالا چوں کہ صحافت کی اس نسل سے تھا جو خطاطی کی روایات کی پاسداری کے بجائے روزمرہ کے تیز رفتار امور نمٹانے اور اس میں بھی اپنے مالی معاملات کو فوقیت دینے پر یقین رکھتی تھی، اس لیے ان کے ہاں وہ صبر نہیں تھا جو ماضی کی روایت تھی یعنی خطاط کو کام دے کر بھول جانا اور خطاط کا اپنے موڈ کے تحت اسے نمٹانا۔ ارشد اور ان کی نسل کا کمال یہ ہے کہ خطاطی کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس عہد کے تقاضوں پر پورے اترے۔
فن کی شکل کوئی بھی ہو، اس طرح کی صورت حال میں اس میں ضرور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، یہی کچھ اس عہد کی خطاطی اور اس سے متعلقہ امور میں بھی ہوا۔
خطاطی کا اعتبار برقرار رکھنے کی کوشش اور وقت کے ساتھ دوڑنے کی مجبوری کے نتیجے آنے والی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے مناسب ترین حوالہ ٹرک آرٹ ہے۔ یہ آرٹ جو کچھ بھی ہے، پاکستان کی پہچان اور اس کے لیے ذریعہ عزت ہے۔ پاکستانی خطاطوں کی اس نسل نے جس کا تعلق ارشد خرم کے زمانے سے اس سے بھی بڑا کام کیا ہے، انھوں نے خطاطی کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے جو کام کیا، اسے پاکستان اسکول یا پاکستانی مزاج کا اسلوب قرار دیا جاسکتا ہے۔
ان تمام مشرقی ممالک، حتیٰ کہ بھارت میں بھی جہاں عربی یا فارسی رسم الخط مروج ہے، وہاں کے اخبارات و جرائد نے لے آؤٹ کے معاملے میں مغربی پریس کے لے آؤٹ سے استفادہ کیا ہے لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، اس معاملے میں جس کا مزاج اپنا اور دنیا دیگر حصوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔
اس معاملے میں بہت سے لوگوں نے خدمات انجام دی ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے ارشد خرم کا کام بہت پسند ہےکیونکہ وہ خطاطی کے روایتی تقاضوں کا حتی المقدور احترام کرتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ ان کے کام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اگر کہیں کوئی اختراع بھی کرتے ہیں تو ایسی صورت میں بھی بھی ان کے ہاں خطاطی کے کلاسیکی اور ابدی اصولوں کی خلاف نہیں ہوتی، اس لیے ان کا لکھا ہوا لفظ اگر کسی کلاسیکی خط میں شمار نہ بھی ہو تواس کے باوجود وہ خطاطی سے انحراف کی ذیل میں نہیں اتا۔ میری نظر میں یہی ارشد خرم کاسب سے بڑا کارنامہ ہے۔ موجودہ دور میں مختلف پبلشرز کی کتابوں کے ٹائیٹلز دیکھیں تو زیادہ ترارشد خرم کےتخلیق کردہ خطوط کی کاپی ھوتے ھیں، گمان ھوتاھے کہ یہ ارشد خرم ھی کے ھیں بلاشبہ یہ ان کا کمال ھے کہ آج کراچی اورلاھور کے لوگ ان کے کام کی کاپی کررھے ھیں۔آج بچوں کے اکٹر میگزین انہی کااسلوب اپنا ئے ھوئے ھیں۔