Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مظہر شہزاد خان، راولپنڈی اسلام آباد کا جانا پہچانا نام ہے۔ شاعری کرتے ہیں، افسانے لکھتے ہیں، اداکاری کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کارٹون بھی بناتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے گزشتہ دس برس سے وابستہ ہیں اور حالات حاضرہ پر ہر روز ایک نیا کارٹون بنا کر تبصرہ کرتے ہیں۔ مظہر شہزاد خان کا شمار “آوازہ” کے روز اول سے ہی اس کے دوستوں اور بہی خواہوں میں ہوتا ہے۔ وہ اس ویب سائٹ کے لیے کارٹون بھی بناتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں ، زیر نظر نظم میں موجودہ وبائی صورت حال پر اپنی اور معاشرے کی کیفیات کو الفاظ کا سانچہ میں اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے
*****
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
۔۔۔۔۔
مظہر شہزاد خان، راولپنڈی اسلام آباد کا جانا پہچانا نام ہے۔ شاعری کرتے ہیں، افسانے لکھتے ہیں، اداکاری کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کارٹون بھی بناتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے گزشتہ دس برس سے وابستہ ہیں اور حالات حاضرہ پر ہر روز ایک نیا کارٹون بنا کر تبصرہ کرتے ہیں۔ مظہر شہزاد خان کا شمار “آوازہ” کے روز اول سے ہی اس کے دوستوں اور بہی خواہوں میں ہوتا ہے۔ وہ اس ویب سائٹ کے لیے کارٹون بھی بناتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں ، زیر نظر نظم میں موجودہ وبائی صورت حال پر اپنی اور معاشرے کی کیفیات کو الفاظ کا سانچہ میں اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے
*****
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
۔۔۔۔۔
مظہر شہزاد خان، راولپنڈی اسلام آباد کا جانا پہچانا نام ہے۔ شاعری کرتے ہیں، افسانے لکھتے ہیں، اداکاری کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کارٹون بھی بناتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے گزشتہ دس برس سے وابستہ ہیں اور حالات حاضرہ پر ہر روز ایک نیا کارٹون بنا کر تبصرہ کرتے ہیں۔ مظہر شہزاد خان کا شمار “آوازہ” کے روز اول سے ہی اس کے دوستوں اور بہی خواہوں میں ہوتا ہے۔ وہ اس ویب سائٹ کے لیے کارٹون بھی بناتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں ، زیر نظر نظم میں موجودہ وبائی صورت حال پر اپنی اور معاشرے کی کیفیات کو الفاظ کا سانچہ میں اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے
*****
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
۔۔۔۔۔
مظہر شہزاد خان، راولپنڈی اسلام آباد کا جانا پہچانا نام ہے۔ شاعری کرتے ہیں، افسانے لکھتے ہیں، اداکاری کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کارٹون بھی بناتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے گزشتہ دس برس سے وابستہ ہیں اور حالات حاضرہ پر ہر روز ایک نیا کارٹون بنا کر تبصرہ کرتے ہیں۔ مظہر شہزاد خان کا شمار “آوازہ” کے روز اول سے ہی اس کے دوستوں اور بہی خواہوں میں ہوتا ہے۔ وہ اس ویب سائٹ کے لیے کارٹون بھی بناتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں ، زیر نظر نظم میں موجودہ وبائی صورت حال پر اپنی اور معاشرے کی کیفیات کو الفاظ کا سانچہ میں اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے
*****
ھَوا میں سرسراھٹ ھے
مگر ویران ھیں گلیاں
عجب سی خامشی ھے
جاں کَنی ھے
سبھی بازار بھی سوکھے پڑے ھیں
کوئی بٌو باس تک آتی نہیں ھے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رھے ھیں
مر رھے ھیں
گھروں کے قید خانوں میں
بہت سہمے ھوۓ دن گن رھے ھیں
مگر فطرت دھائیوں کی تھکن کے بوجھ کے نیچے سسکتی جا رھی تھی کہ
وبا اسکی مدد کو آن پہنچی تھی
مشینیں چپ ھوئیں یکدم
سبھی سڑکوں پہ چلتے دوڑتے پہئیے
سلنسر اور چمنی سے نکلتا زھر بھی
تھم سا گیا تھا
پرندوں اور درختوں نے
مکمل ایک صدی کے غلاظت سے بھرے جو دن گزارے تھے
اچانک کِھل کھلا اٹھے
فلک بھی جگمگا اٹھا
خلا کا زخم بھی بھرنے لگا تھا
مگر انساں بہت سہما
بہت ھی خوف کا مارا
لکیریں کھینچ کر بٹنے لگا تھا
محبت بس فقط آواز تک رھنے لگی تھی
وصالِ روزوشب بس خواب سے ھونے لگے تھے
محبت فاصلوں میں بٹ رھی تھی
مگر یہ بیسویں اکیسویں صدیوں کے قصے ھیں
مرے ھمزاد میں تجھ کو یہ تنبیہہ دے رھاھوں کہ
نئے غنچوں نئے پھولوں کو آلودہ ھواؤں سے بچا لینا
۔۔۔۔۔