آج سے پچیس تیس سال قبل دیکھیے جب ایک کسان اپنے ڈیرے سے پندرہ لیٹر کی کین اٹھاتا ، سائیکل پہ باندھتا ۔ گھر سے ایک سو،جی ہاں صرف ایک سو روپیہ لیتا اورکسی قریبی پٹرول پمپ پہ پہنچ جاتا۔ پندرہ لیٹر کی کین ڈیزل سے بھراتا۔سو روپے میں سے بقایا پیسے جیب میں ڈالتا اور اپنے کھیتوں میں پہنچ جاتا۔ وہ اس سو سے کم روپے کے ساتھ سارادن اپنے کھیتوں کو سیراب کرتا۔فصل تیار ہوتی تو اسے منڈی میں معقول قیمت ملتی ۔ اس کے گھر میں دانے بھی آتے اور پیسے بھی ۔ وہ سبزیاں اگاتا،گندم اگاتا، گنااورچاول اگاتا،کپاس کاشت کرتا۔شام کواس کے پا س دوستوں بلکہ بیلیوں کے لیے وقت بھی ہوتاتھا۔ صرف یہی نہیں اس کے ہاتھ میں رسی تھی ۔ وہ رسی جو ایک کسان کاکل سرمایہ ہوتی ہے ۔اس کی بیٹی کی شادی ہوتی تو یہی رسی اس کے کام آتی ۔وہ رسی سے بندھا جانوربیچ کر بیٹی کا جہیز بھی بناتااور اسی رسی سے بندھے جانور سے باراتیوں کی تواضع بھی کرتا۔ اس دور میں جس کے پاس جتنی زیادہ رسیاں ہوتی تھیں اتنا ہی وہ مال دار گنا جاتاتھا۔بلکہ انہی رسیوںکواس نے مال کا نام دے رکھا تھا۔وہ “مال”کو چارا ڈالتا، “مال ” کی دیکھ بھال کرتا۔ اورپھر اسی “مال” کو اپنی ہر ضرورت کے لیے استعمال کرتا۔ یہ “مال” اس کی ہر پریشانی کا مداواتھا۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ جب گاﺅں کی حد سے نکل کر شہر کی دہلیز پر قدم رکھا۔تویونی ورسٹی نے فیس کا جو پہلا ووچردیا تھا وہ” بھرنے “کے لیے میرے باپ نے بھی اپنے اسی “مال ” میں سے ہی ایک کو “تڑکا “تھا۔ ( گاﺅں کی زبان میں ضرورت کے وقت کسی جانور کو بیچنے کوتڑکنا ہی کہتے ہیں)۔کسان کے لیے گندم ، دودھ اور رسی یہ ایسی چیزیں تھیں جن کے ہوتے وہ سکون سے سوتا تھا۔اس کی زندگی کا کوئی مقصد تھا تو انہی میں اضافہ کرنا تھا۔ اور ان میں اضافے کے لیے وہ ہر سال پہلے سے زیادہ زمین کاشت کرتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ رقبے کوقابل کاشت بناتا جاتا ۔اس کے لیے تو یہ تین چیزیں کل متاع تھیں لیکن ملکی معیشت کاپہیہ چلانے میں وہ اہم کردار اد اکرتا جارہاتھا۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے پلٹا کھایا۔ کسان کے ہاتھ سے زمین نکلنا شروع ہوگئی ۔وہ مربعوں سے ایکڑوں پر او رپھر چند کنالوں پہ آگیا۔ زمین کا نکلنا تھا کہ اس کے ہاتھ سے “رسی ” بھی چھوٹ گئی ۔وہ رسی جو اس کا “مال” تھا اس کا چھوٹنا تھا کہ وہ تہی دست ہوتا چلا گیا۔ وہ کسان جو دوسروں کے لیے بھی وافر گندم پید اکرتا خود روٹی کے نوالے کوترسنے لگا۔ اس کے ہاتھ سے “رسی ” نکلی تو اس کی بیٹی جہیز کی وجہ سے گھر کی دہلیز پا رنہ کرسکی ۔اس کے بالوں میں چاندی آنا شروع ہوگئی ۔ ….ذرا رکیے ۔ سوچیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا فی ایکڑ پیدا وار میں کمی آگئی ؟ نہیں ۔ زرعی ماہرین او رحکومتی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہماری موجود ہ فی ایکڑ پیداوار پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہمارا کسان چاول پید اتو کرتاہے لیکن کھا نہیں سکتا۔ وہ کپاس تواگاتاہے لیکن ہر عید پہ نیا سوٹ نہیں خرید سکتا۔ وہ گنا توکاشت کررہاہے لیکن چینی اس کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے ۔اس سب کی وجوہات کو دیکھیں توایک طرف کسان کے زمین پر خرچ اوراس کی آمدن میں تواز ن نہ ہونا اہم عنصرہے تو دوسری جانب زیر کاشت رقبہ میں تیزی سے کمی بھی اہم سبب ہے ۔ وہ کسان جس کے پا س کاشت کے لیے وسیع زمین ہوتی تھی اب وہ چند ایکڑ تک محدود ہوگیا ہے ۔وہ جو درجنوں کے حساب سے مویشی پال رہاتھا اب اپنے گھر کے استعمال کے لیے بھی دودھ خریدنے پر مجبو رہے۔ باقی اسباب کو کسی اوروقت پر اٹھا رکھتے ہیں آج ہم صرف ایک بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والے ملک کی خوراک کی ضروریا ت کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زیرکاشت رقبہ میں ہرسال ترجیح بنیادوں پراضافہ کیا جائے ۔ لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ایک طرف آبادی کی خوراک کی ضروریا ت بڑھ رہی ہیں تو دوسری طرف زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جارہاہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں پچیس سال قبل ہمارے ارد گرد وہ زمینیں جوسونا اگلتی تھیں ۔ جوکسان کو خوش حال کرنے کے ساتھ ملکی معیشت کے کئی شعبوں کوچلا رہی تھیں آج چاردیواریوں میں گھری ہوئی ہیں ۔جہاں سے فصل کے خوشے نکلتے تھے وہاں تارکول کی سڑک زمین کے منہ پہ کالک مل رہی ہے۔جو فصل کسان کی تنگ دستی کوچھپائے ہوتی تھی وہ آج اینٹوں اور تارکول تلے دب گئی ہے ۔ان سب کے پیچھے وہ بلڈر مافیاہے جس نے سونا اگلتی زمینوںکو ہاﺅسنگ سوسائیٹیوں میں تبدیل کردیا۔ ان کے طریقہ واردات بھی عجیب ہے ۔ رہائش کے لیے صاف او رمیٹھا پانی ، صحت مند آب و ہوااور سہولیات کی فراہمی کی حامل جگہ قابل ترجیح ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ زرعی زمین میں موجود ہوتاہے ۔ یہ مافیا اس زرعی زمین کو سستے داموں خرید کر وہاں سرمایہ لگاتاہے اور لاکھوں روپے فی مرلہ کماتاہے ۔نتیجے کے طور پر کسان کے ہاتھ سے زمین اور ”رسی “ دونوں ہی نکلتے جارہے ہیں۔گھر انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن گھر کی چھت فراہم کرنے کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کے منھ سے نوالا چھین لینا کوئی عقل مندی نہیں ۔ شہروں کے آس پاس بڑھتی ہوئی یہ ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں ایک طرف قابل کاشت رقبے کوکم کررہی ہیں تودوسری طرف شہروں کی توسیع سے بھی مسائل جنم لے رہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صاحبان اقتدار طوطاچشمی کی بجائے زمینی حقائق کا ادراک کریں ۔اندھادھندہاﺅسنگ سوسائیٹیوں کی منظوری دینے کی بجائے شہروں کومحدود کرکے نئے شہر بسائے جائیں۔شہروں کے بسانے کے لیے ایسی زمین کاانتخاب کیاجائے جو قابل کاشت نہ ہو۔ ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں بہت سی زمینوںکوتھوڑی سی محنت سے رہائش کے قابل بنایاجاسکتاہے ۔ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جائے جن سے زرعی پید اوار متاثر نہ ہو۔ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی جائے کہ کسی بھی زیر کاشت رقبہ پر کوئی رہائشی سکیم منظور نہیں کی جاسکتی ۔جب تک ہم زیر کاشت رقبہ میں اضافہ نہیں کریں گے ۔اپنے موجودہ زرعی رقبے کی حفاظت نہیں کریں گے یہ سلسلہ یوں ہی چلتارہے گا۔ ہمارے شہر تو وسیع ہوتے رہیں گے لیکن ہمارا کسان زمین اوررسی سے محروم ہوتا چلاجائے گا۔ یاد رکھیے کسان کی محرومی پوری قوم کی محرومی میں بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنی قوم کو ”کیک کھانے“ کامشورہ دیں ہمیں اپنے کسان کو بچانا ہوگا۔اس سے زمین فراہم کرنا ہوگی ۔ جب تک ہم اس کے ہاتھ سے چھوٹی ہوئی رسی دوبارہ اس کے ہاتھ میں نہیں دیتے ہمیں اپنے جی ڈی پی میں اضافے کے خواب دیکھناچھوڑ دینے چاہیے۔