Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ڈاکٹر تنویر ممتاز صحافی اور “آوازہ” کے منفرد کالم نگار نعمان یاور صوفی بڑے بھائی تھے جو وسط اپریل میں اپنے پیاروں کو بلکتا چھوڑ کر اپنے

اللہ سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب دل نشیں مزاج کے حامل ایک خوبصورت انسان تھے جن کے یادوں کی خوشبو سے فضا آج بھی معطر ہے، نعمان یاور نے آج کا خوب صورت کالم ان ہی کے نام کیا ہے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر تنویر کی مغفرت فرمائے اور انھیں اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
**************
ڈاکٹرتنویر(16 مئی 1963 ۔ 13 اپریل 2002)
زندگی میں کچھ کرنا،انسانی فطرت ہے،مگرکچھ اچھاکرنا
وہ بھی دوسروں کے لیے،یہ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔
وہ بچپن سے ہی،مکالمے اور دوسروں کواپنے ساتھ شریک کرنے کا عادی تھا۔
وہ تھوڑامختلف تھا،لیکن سب میں گھل مل جاتا
وہ آگے کی سوچ رکھتا،کل کی بات کرتا
وہ عجیب شخص تھا،اپنی دُھن میں لگارہتا
اس کے دماغ میں ہروقت کچھ چلتارہتا
بچپن کے کلاس فیلوز،جوانی کے دوست،پروفیشن کے کولیگ
اوراپنے پیارے،وہ سب کا غم خوار
اپنوں پر جانثار،،سارے اس کے یار
وہ جہاں بھی جاتا،اپنا ایک حلقہ بنالیتا
وہ ایک ملاقات میں اپنا گرویدہ بنالیتا
وہ دکھی انسانیت کاحقیقی مسیحا تھا
ساتھ چلیں اور آگے بڑھیں،،یہ لگن تھی اس کی
خبر دینے والے بھی باخبرہوں،یہ خواہش تھی اس کی
ایک بارپھر مکالمے کوہتھیاربنایا،،سب کے ساتھ ڈائیلاگ کیا
مسئلہ کوئی بھی ہوتا،وہ اس کو بات چیت میں لاتا
چہرے پر داڑھی،ناک پر چشمہ،کاندھے پر لٹکابیگ
جوانی میں اسے مل گئی جیسے اک بزرگی
وہ انقلابی تھا، تبدیلی کی جستجو میں رہتا
وہ سماج کو بدلنے میں ہروقت لگارہتا
وہ کوئی بڑانام نہ تھا،کچھ کرگزرے گا،،یہ اعتمادتھا
وہ آج میں رہتے ہوئے،کل پر نگاہ رکھتا
ملنے والے کے ذہن میں انمٹ نقوش چھوڑجاتا
ایسے لوگ کم ہوتے ہیں،کیونکہ وہ سب سے الگ ہوتے ہیں
ڈاکٹرتنویر،اک درویش،اک راہی،وہ اپنی رو میں چلتاگیا
وہ بہتی ندی تھی،جو اردگردسب کو سیراب کرگیا
وہ اک روزخاموشی سے سب کو چھوڑملک عدم چلاگیا
کسے معلوم تھا،وہ ایسے بھی سب کو تنہاکرجائے گا
کتنے برس بیت گئے،مگرآج بھی
کوئی،اپنے یار،جگر،کامریڈ،بھائی اور دوست کی باتیں،دوسروں کوسناتا
اس کی باتیں،اس کی یادیں،کوئی بھول نہیں پاتا
اس کے کہے الفاظ کی خوشبو،آج بھی ان کے ذہنوں کو مہکاتی ہے
انہیں آج بھی اپنے اس پیارے کی یادبہت شدت سے آتی ہے۔
ڈاکٹر تنویر ممتاز صحافی اور “آوازہ” کے منفرد کالم نگار نعمان یاور صوفی بڑے بھائی تھے جو وسط اپریل میں اپنے پیاروں کو بلکتا چھوڑ کر اپنے

اللہ سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب دل نشیں مزاج کے حامل ایک خوبصورت انسان تھے جن کے یادوں کی خوشبو سے فضا آج بھی معطر ہے، نعمان یاور نے آج کا خوب صورت کالم ان ہی کے نام کیا ہے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر تنویر کی مغفرت فرمائے اور انھیں اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
**************
ڈاکٹرتنویر(16 مئی 1963 ۔ 13 اپریل 2002)
زندگی میں کچھ کرنا،انسانی فطرت ہے،مگرکچھ اچھاکرنا
وہ بھی دوسروں کے لیے،یہ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔
وہ بچپن سے ہی،مکالمے اور دوسروں کواپنے ساتھ شریک کرنے کا عادی تھا۔
وہ تھوڑامختلف تھا،لیکن سب میں گھل مل جاتا
وہ آگے کی سوچ رکھتا،کل کی بات کرتا
وہ عجیب شخص تھا،اپنی دُھن میں لگارہتا
اس کے دماغ میں ہروقت کچھ چلتارہتا
بچپن کے کلاس فیلوز،جوانی کے دوست،پروفیشن کے کولیگ
اوراپنے پیارے،وہ سب کا غم خوار
اپنوں پر جانثار،،سارے اس کے یار
وہ جہاں بھی جاتا،اپنا ایک حلقہ بنالیتا
وہ ایک ملاقات میں اپنا گرویدہ بنالیتا
وہ دکھی انسانیت کاحقیقی مسیحا تھا
ساتھ چلیں اور آگے بڑھیں،،یہ لگن تھی اس کی
خبر دینے والے بھی باخبرہوں،یہ خواہش تھی اس کی
ایک بارپھر مکالمے کوہتھیاربنایا،،سب کے ساتھ ڈائیلاگ کیا
مسئلہ کوئی بھی ہوتا،وہ اس کو بات چیت میں لاتا
چہرے پر داڑھی،ناک پر چشمہ،کاندھے پر لٹکابیگ
جوانی میں اسے مل گئی جیسے اک بزرگی
وہ انقلابی تھا، تبدیلی کی جستجو میں رہتا
وہ سماج کو بدلنے میں ہروقت لگارہتا
وہ کوئی بڑانام نہ تھا،کچھ کرگزرے گا،،یہ اعتمادتھا
وہ آج میں رہتے ہوئے،کل پر نگاہ رکھتا
ملنے والے کے ذہن میں انمٹ نقوش چھوڑجاتا
ایسے لوگ کم ہوتے ہیں،کیونکہ وہ سب سے الگ ہوتے ہیں
ڈاکٹرتنویر،اک درویش،اک راہی،وہ اپنی رو میں چلتاگیا
وہ بہتی ندی تھی،جو اردگردسب کو سیراب کرگیا
وہ اک روزخاموشی سے سب کو چھوڑملک عدم چلاگیا
کسے معلوم تھا،وہ ایسے بھی سب کو تنہاکرجائے گا
کتنے برس بیت گئے،مگرآج بھی
کوئی،اپنے یار،جگر،کامریڈ،بھائی اور دوست کی باتیں،دوسروں کوسناتا
اس کی باتیں،اس کی یادیں،کوئی بھول نہیں پاتا
اس کے کہے الفاظ کی خوشبو،آج بھی ان کے ذہنوں کو مہکاتی ہے
انہیں آج بھی اپنے اس پیارے کی یادبہت شدت سے آتی ہے۔
ڈاکٹر تنویر ممتاز صحافی اور “آوازہ” کے منفرد کالم نگار نعمان یاور صوفی بڑے بھائی تھے جو وسط اپریل میں اپنے پیاروں کو بلکتا چھوڑ کر اپنے

اللہ سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب دل نشیں مزاج کے حامل ایک خوبصورت انسان تھے جن کے یادوں کی خوشبو سے فضا آج بھی معطر ہے، نعمان یاور نے آج کا خوب صورت کالم ان ہی کے نام کیا ہے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر تنویر کی مغفرت فرمائے اور انھیں اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
**************
ڈاکٹرتنویر(16 مئی 1963 ۔ 13 اپریل 2002)
زندگی میں کچھ کرنا،انسانی فطرت ہے،مگرکچھ اچھاکرنا
وہ بھی دوسروں کے لیے،یہ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔
وہ بچپن سے ہی،مکالمے اور دوسروں کواپنے ساتھ شریک کرنے کا عادی تھا۔
وہ تھوڑامختلف تھا،لیکن سب میں گھل مل جاتا
وہ آگے کی سوچ رکھتا،کل کی بات کرتا
وہ عجیب شخص تھا،اپنی دُھن میں لگارہتا
اس کے دماغ میں ہروقت کچھ چلتارہتا
بچپن کے کلاس فیلوز،جوانی کے دوست،پروفیشن کے کولیگ
اوراپنے پیارے،وہ سب کا غم خوار
اپنوں پر جانثار،،سارے اس کے یار
وہ جہاں بھی جاتا،اپنا ایک حلقہ بنالیتا
وہ ایک ملاقات میں اپنا گرویدہ بنالیتا
وہ دکھی انسانیت کاحقیقی مسیحا تھا
ساتھ چلیں اور آگے بڑھیں،،یہ لگن تھی اس کی
خبر دینے والے بھی باخبرہوں،یہ خواہش تھی اس کی
ایک بارپھر مکالمے کوہتھیاربنایا،،سب کے ساتھ ڈائیلاگ کیا
مسئلہ کوئی بھی ہوتا،وہ اس کو بات چیت میں لاتا
چہرے پر داڑھی،ناک پر چشمہ،کاندھے پر لٹکابیگ
جوانی میں اسے مل گئی جیسے اک بزرگی
وہ انقلابی تھا، تبدیلی کی جستجو میں رہتا
وہ سماج کو بدلنے میں ہروقت لگارہتا
وہ کوئی بڑانام نہ تھا،کچھ کرگزرے گا،،یہ اعتمادتھا
وہ آج میں رہتے ہوئے،کل پر نگاہ رکھتا
ملنے والے کے ذہن میں انمٹ نقوش چھوڑجاتا
ایسے لوگ کم ہوتے ہیں،کیونکہ وہ سب سے الگ ہوتے ہیں
ڈاکٹرتنویر،اک درویش،اک راہی،وہ اپنی رو میں چلتاگیا
وہ بہتی ندی تھی،جو اردگردسب کو سیراب کرگیا
وہ اک روزخاموشی سے سب کو چھوڑملک عدم چلاگیا
کسے معلوم تھا،وہ ایسے بھی سب کو تنہاکرجائے گا
کتنے برس بیت گئے،مگرآج بھی
کوئی،اپنے یار،جگر،کامریڈ،بھائی اور دوست کی باتیں،دوسروں کوسناتا
اس کی باتیں،اس کی یادیں،کوئی بھول نہیں پاتا
اس کے کہے الفاظ کی خوشبو،آج بھی ان کے ذہنوں کو مہکاتی ہے
انہیں آج بھی اپنے اس پیارے کی یادبہت شدت سے آتی ہے۔
ڈاکٹر تنویر ممتاز صحافی اور “آوازہ” کے منفرد کالم نگار نعمان یاور صوفی بڑے بھائی تھے جو وسط اپریل میں اپنے پیاروں کو بلکتا چھوڑ کر اپنے

اللہ سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب دل نشیں مزاج کے حامل ایک خوبصورت انسان تھے جن کے یادوں کی خوشبو سے فضا آج بھی معطر ہے، نعمان یاور نے آج کا خوب صورت کالم ان ہی کے نام کیا ہے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر تنویر کی مغفرت فرمائے اور انھیں اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
**************
ڈاکٹرتنویر(16 مئی 1963 ۔ 13 اپریل 2002)
زندگی میں کچھ کرنا،انسانی فطرت ہے،مگرکچھ اچھاکرنا
وہ بھی دوسروں کے لیے،یہ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔
وہ بچپن سے ہی،مکالمے اور دوسروں کواپنے ساتھ شریک کرنے کا عادی تھا۔
وہ تھوڑامختلف تھا،لیکن سب میں گھل مل جاتا
وہ آگے کی سوچ رکھتا،کل کی بات کرتا
وہ عجیب شخص تھا،اپنی دُھن میں لگارہتا
اس کے دماغ میں ہروقت کچھ چلتارہتا
بچپن کے کلاس فیلوز،جوانی کے دوست،پروفیشن کے کولیگ
اوراپنے پیارے،وہ سب کا غم خوار
اپنوں پر جانثار،،سارے اس کے یار
وہ جہاں بھی جاتا،اپنا ایک حلقہ بنالیتا
وہ ایک ملاقات میں اپنا گرویدہ بنالیتا
وہ دکھی انسانیت کاحقیقی مسیحا تھا
ساتھ چلیں اور آگے بڑھیں،،یہ لگن تھی اس کی
خبر دینے والے بھی باخبرہوں،یہ خواہش تھی اس کی
ایک بارپھر مکالمے کوہتھیاربنایا،،سب کے ساتھ ڈائیلاگ کیا
مسئلہ کوئی بھی ہوتا،وہ اس کو بات چیت میں لاتا
چہرے پر داڑھی،ناک پر چشمہ،کاندھے پر لٹکابیگ
جوانی میں اسے مل گئی جیسے اک بزرگی
وہ انقلابی تھا، تبدیلی کی جستجو میں رہتا
وہ سماج کو بدلنے میں ہروقت لگارہتا
وہ کوئی بڑانام نہ تھا،کچھ کرگزرے گا،،یہ اعتمادتھا
وہ آج میں رہتے ہوئے،کل پر نگاہ رکھتا
ملنے والے کے ذہن میں انمٹ نقوش چھوڑجاتا
ایسے لوگ کم ہوتے ہیں،کیونکہ وہ سب سے الگ ہوتے ہیں
ڈاکٹرتنویر،اک درویش،اک راہی،وہ اپنی رو میں چلتاگیا
وہ بہتی ندی تھی،جو اردگردسب کو سیراب کرگیا
وہ اک روزخاموشی سے سب کو چھوڑملک عدم چلاگیا
کسے معلوم تھا،وہ ایسے بھی سب کو تنہاکرجائے گا
کتنے برس بیت گئے،مگرآج بھی
کوئی،اپنے یار،جگر،کامریڈ،بھائی اور دوست کی باتیں،دوسروں کوسناتا
اس کی باتیں،اس کی یادیں،کوئی بھول نہیں پاتا
اس کے کہے الفاظ کی خوشبو،آج بھی ان کے ذہنوں کو مہکاتی ہے
انہیں آج بھی اپنے اس پیارے کی یادبہت شدت سے آتی ہے۔