ADVERTISEMENT
ملک میں کورونا وائرس کی قدرتی آفت کے ساتھ ہی پی ٹی آئی حکومت کے لیے مایوس کن خبریں گردش کرنے لگیں، جس کے بعد ایک عام آدمی یہ سوال کرنے لگا کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کی واقعی چھٹی ہونے والی ہے؟ کیا عمران خان بطور وزیراعظم ناکام ہوچکے ہیں؟ کیا بااثر حلقے پی ٹی آئی حکومت سے ناخوش ہیں؟ اِن تمام سوالات کا جواب ڈھونڈنے کیلئے تھوڑا ساماضی کے دریچے میں جھانکنا ضروری ہے۔ عمران خان کی حکومت 2018 میں معرض وجود میں آئی تو سب کچھ وزیراعظم کے حق میں تھا، اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل تھی، 90 فیصد میڈیا پی ٹی آئی حکومت کے گیت گارہا تھا۔ عوام بھی مطمئن تھی کہ شائد عمران خان کی صورت میں انہیں ایک مسیحا مل گیا جو ملک کو راتوں رات آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گا۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی نظم و ضبط نظر آرہا تھا۔ سب سے بڑھکر یہ کہ اِس حکومت کی شروع دن سے کوئی اپوزیشن تھی ہی نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی دو اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی زیادہ تراعلیٰ قیادت کو یا سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا یا مقدمات میں الجھا دیاگیا۔ اس طرح عمران خان اور انکی ٹیم کو بغیرروک ٹوک کھیلنے کیلئے مکمل فری ہینڈ مل گیا۔ ایک سال تک لگتا یوں تھا کہ شائد سب کچھ ٹھیک جارہا تھا، معاشی امور کو سمجھنے والوں اور کچھ پڑھے لکھے طبقوں کو بخوبی ادراک تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا، بلکہ لاوا اندر سے پک رہا ہے جو آگے جاکر کسی وقت پھٹ سکتا ہے اور پوری گیم اوپر نیچے ہوسکتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کو ایک سال ہی گزرا تھا تو اسد عمرکو اسکور بنانے میں ناکامی پر کپتان نے واپس پویلئن بلالیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب عام عوام کو تھوڑا اندازہ ہوگیا کہ حکومت اپنے وعدے نبھانے میں ناکام ہورہی ہے۔ کیونکہ کپتان حکومت بنانے سے قبل اسد عمر کو نہ صرف اپنا اوپننگ بلے باز قراردیتے رہے بلکہ انہیں کپتان کو جیسا کہ مکمل یقین تھا کہ اسد عمر کی صورت میں ان کےپاس ایک ایسا ہیرا تھا جو معیشت کو راتوں رات مضبوط بنانے کیلئے جادو کی چھڑی کا استعمال کرے گا۔ لیکن ڈالر کی قیمت جب مسلسل بڑھتی اور روپے کی قیمت گرتی گئی تو کپتان کو اندازہ ہوا کہ ان کے اوپننگ بلے باز کارکردگی دکھانےمیں ناکام رہے تو انہیں وزارت سے فارغ کردیا گیا۔ عمران خان کی ٹیم میں کوئی دوسرا کھلاڑی نہیں تھا جس کو وزارت خزانہ کا قلمدان دیا جاتا، تو کپتان کو پیپلزپارٹی کے دور کے وزیرکو میدان میں اتارنا پڑا۔ اِس موقع پر عمران خان پر کافی تنقید ہوئی کہ وہ جس پارٹی کو معیشت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے اسی پارٹی کے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو لاکر اپنا مشیر برائے خزانہ تعینات کردیا۔ تنقید کرنے والوں کی منطق میں کافی وزن تھا لیکن تنقید کا سامنا کرنے کے باوجود حفیظ شیخ بھی کوئی اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں رہے۔ عمران خان کی حکومت کو جب اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے میں ناکامی ہوئی تو انہیں ہر معاملے میں یو ٹرن لینا پڑاجس پر ان کے مخالفین کو ان پر باؤنسرز مارنے کا خوب موقع ملا اورکپتان یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ یو ٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں کہلاتا۔ کپتان کو شائد یہ علم نہیں کہ یوٹرن جھوٹ کا دوسرا نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کپتان کی حکومت کا دواطراف سے گھیرا تنگ ہونے لگا، حکومت ایک طرف سے اپنے وعدوں میں عمل درآمد کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ انہوں نے ایک کروڑ نوکریاں دینے، پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے، قومی اسمبلی اور گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے اور مہنگائی کا خاتمہ کرنے سمیت کئی وعدے کئے تھے۔ لیکن گزشتہ دو سال میں حکومت کی گاڑی الٹی چلتی نظر آگئی، جیسا کہ 12 لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے، مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی، گھروں کی تعمیر کے برعکس کسی بھی ترقیاتی کام میں ایک اینٹ بھی نہیں لگی۔ دوسری جانب مالی خسارے میں اضافہ ہوتا گیا، برآمدات میں کمی آتی گئی، ملک کی مجموعی پیداور جو سابقہ حکومت میں 6 فیصد تھی نئے پاکستان میں 2 فیصد پر آگئی، اب ماہرین کو خدشہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ تناسب صفر فیصد رہنے کا امکان ہے۔ عمران خان اس تمام تر مایوس کن صورتحال کے باوجود مطمئن دکھائی دے رہے تھے کہ انکی وزارت اعظمیٰ کی نوکری پانچ سال کیلئے پکی ہے۔ تاہم ملک میں اچانک آٹے اور چینی کے بحران نے حکومت کو ایسے ہلا کررکھ دیا کہ عمران خان بحران پیدا کرنے والوں کا سراغ لگانے کیلئے کمیشن بنانے پر مجبور ہوگئے۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی جنہوں نے نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت بنانے بلکہ عمران خان کو وزارت اعظمیٰ کے منصب تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جہانگیر ترین کے علاوہ حکومتی کے اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ شامل ہیں تو یہ خبر نہ صرف حکومت پر بجلی بن کر گری بلکہ عوام کو بھی کافی مایوسی ہوئی۔ آٹا، چینی بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ نے حکومت کے اندر ہلچل مچادی اور عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھے اہم لوگوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگانا شروع کردیے۔ کابینہ کے اجلاس میں دو اہم وزرا پرویز خٹک اور مراد سعید نے اسد عمر کو کہہ دیا اگربحران پیدا کرنے کے ذمہ دارآپ ہیں تو عوام کو بتادیں، وزیراعظم کو کیوں خراب کررہے ہیں جس پر اجلاس میں کافی گرما گرمی ہوئی اور کپتان کو معاملہ ٹھنڈا کرنا پڑا۔ یہ خبریں میڈیا کی زینت بھی بن گئیں۔ پی ٹی آئی اور اس کے حمائتیوں پر یہ خبر بھی بجلی بن کر گری جب جہانگیر خان ترین نے سما ٹی وی پر ندیم ملک لائیومیں برملا کہہ دیا کہ ان کے عمران خان کے ساتھ اب پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے۔ انہوں نے کچھ مزید انکشافات کے ساتھ یہ بھی بتادیا کہ پارٹی کے اندر پچاس فیصد لوگ ان کے خلاف ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ آٹا، چینی بحران پر حتمی رپورٹ آنے کے بعد وہ ذمہ داروں کو سزا دیں گے۔ کیا رپورٹ آنے کے بعد معاملہ ختم ہوجائے گا یا معاملہ شروع ہوجائے گا۔ حکومت کے اندر پیدا ہونے والا بحران ٹل جائے گا یا یہ ایک نئے بحران کو جنم دے گا، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ تاہم یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عمران خان جہانگیر خان ترین یا اسد عمر دونوں میں سے کسی کو بھی کھو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عمران خان اگر جہانگیر ترین کو کھو دیں گے تو وہ سیاسی اور مالی طور پر اس قدر مضبوط ہیں کہ کپتان کی حکومت بھی ہچکولے کھاتے ہوئے گرسکتی ہے۔ اگر اسد عمر کو کھودیں گے تو ان کے علاوہ کپتان کی ٹیم میں کوئی خاص کھلاڑی نہیں جو انکی جگہ لے سکے۔ لہذا عمران خان اپنی حکومت بچانے کیلئے آٹا، چینی بحران کے بعد پیش آنے والی صورتحال پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ لیکن معاشی صورتحال اس قدر گرتی جارہی ہے جو وزیراعظم اور حکومت کو مایوسی کے دلدل میں مزید دھکیلنے کیلئے کافی ہے۔