کاتب تقدیر نے قسمت میں کیا لکھا ہے ۔ نہیں معلوم ۔ بادی النظر میں ووہان سے اٹھنے والا طوفان تھمتا دکھائی نہیں دیتا ۔ سنا تھا گرم موسم کورونا کا کام تمام کردے گا مگر یہ منطق آسٹرئلیا میں منہ چڑاتی نظر آئی جہاں چند ماہ قبل اس بلا کی تپش تھی کہ جنگل کے جنگل جھلس گئے۔
پاکستان میں موسم گرما کی آمد آمد ہے ۔ یاد رہے کہ آسٹریلیا سے گرمی رخصت ہوا چاہتی ہے ۔ اللّٰہ کرے دیسی دھوپ پردیسی مرض کو مار بھگائے ۔ ایک بات تو طے کہ وقت کا طلاطم دنیا کو ریورس گیئر میں ڈال چکا ہے ۔ بات کہاں تک بڑھے گی ۔ کہنا قبل از وقت ہے ۔ ماہرین کے مطابق کورونا کی ویکسین تجرباتی مراحل میں ہے ۔ مرہم آنے میں اتنی دیر کہیں زخم کو ناسور نہ بنادے ۔ اور یہی روگ اسی ترقی کو نہ لے ڈوبے جس پر حضرت انسان نازاں ہے ۔ یاجوج ماجوج سے متعلق جب بھی سنا تو بات ہنس کر ٹالی سوال کیا کہ ایٹم بم اور گائیڈڈ میزائلز کے ہوتے صدیوں پرانی قوم ہمارا کیا بگاڑ لے گی ۔ لیکن اب ائیرپورٹس پر پرواز سے قاصر طیارے دیکھ کر دل دھک سے رہ جاتا ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ یقیننا رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے ۔جو موجودہ معاشی مشکل کو کسی بڑے مالی بحران میں ڈھلتا دیکھ رہی ہے ۔ امریکی لاک ڈاؤن 33 لاکھ افراد کو بےروزگاری کرگیا ۔ کنوئیں کے مینڈک کی طرح پھولتے بھارت کا بھی بھٹہ بیٹھنے لگا ۔ یورپ پر مغلیہ سلطنت جیسا زوال آیا ہوا ہے ۔ سوشل سیکیورٹی کے نام پر حکومت کب تک بےروزگاروں کا پیٹ پالے گی ۔ مکیش امبانی جیسے رئیس کب تک قومی خزانے کا دوزخ بھریں گے ۔ صنعتوں کا بند پہیہ آخرکار سب کچھ جام کردے گا۔
گاڑی گھر سے باہر نکالتے ہوئے خوف آتا ہے کہ راستے میں دغا دے گئی تو لاک ڈاؤن کے سبب کوئی مکینک مستری نہیں ملے گا ۔۔ زرا سوچئے ایسے ہی بڑی برانڈز کے کارخانے آخر کب تک بند رہیں گے ۔ ایک وقت آئے گا کہ گاڑیوں کے پرزے بننا بند ہو جائیں گے ، اسی طرح دیگر مشینری بھی خرابی کے ٹھیک کروانا محال ہوگا ۔ دکانوں یا شورومز کی بندش ان کی پیداوار کو بھی بریک لگادے گی ۔تازہ خبر ہے کہ امریکی کار مینو فیکچرز اب گاڑیوں کے بجائے وینٹی لیٹرز کی تیاری شروع کریں گے ۔ تو کیا ہم پھر سے اونٹ یا گھوڑے کی سواری کریں گے خیر سائیکل چلانے کی نوبت تو آ ہی سکتی ہے ۔ دور دراز سفر ویسے ہی بند ہے ۔ وہ یورپی ممالک جو ایک دوسرے کیلئے بانہیں کھولے کھڑے تھے اب ماضی کی طرح اپنی سرحدیں بند کرچکے ہیں ۔ یہ عوامل سیدھا فضائی سفر پر اثر انداز ہوں گے ۔ کیا ایسا میں ہوائی جہاز بننا بند ہوجائیں گے ؟ بین الاقوامی تجارت کی بندش بحری جہازوں کو ویسے ہی بےکار کررہی ہے ۔ کروز شپس سے کورونا پھیلنے کے بعد بحری سیاحت کا تصور بھی دم توڑ گیا ۔ تازہ تحقیق کونٹیکٹ لینز کو کورونا آور قرار دی گئی اور عینک کے استعمال کا مشورہ دیا ۔ ذہن کے دریچے میں سوال اٹھا یہ سلسلہ کہیں موبائل فون تک طول نہ پکڑ لے ۔ ہمیں کالنگ کیلئے لینڈ لائن اور کام کیلئے کی بورڈ پر لوٹنا پڑے ۔۔ ارے پھر کیا ہوگا ۔۔ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز تو پہلے ہی داستان بن چکے ہیں ۔کہیں کورونا کی بورڈ میں سما گیا تو سمجھیں کمپیوٹر کی بھی چھٹی ۔ اب ٹائپ رائٹر پر آئیے اور پلٹتے چلے جائیں جلد ہاتھ میں قلم اور اس کے نیچے کاغذ ہوگا ۔ اب کیسا واٹس ایپ ۔کہاں کی فیس بک ۔ اور کہیں غرق ہو جائے گا انسٹا گرام بات بات پر ٹویٹ کرنے والے کہاں جائیں گے ؟ زرا سوچیں گوگل اور یوٹیوب جییس سائٹس چلتی ہی اشتہارات پر ہیں تاہم پیداوار نہ ہونے پر کونسی برانڈ تشہیر کی زحمت میں پڑے گی ۔۔ یعنی موجودہ دور میں تفریح اور معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ بند ! لاک ڈاؤن اور بندش کے سبب ہالی ووڈ سے لالی ووڈ تک فلمساز بڑا نقصان اٹھارہے ہیں۔ گھروں میں چلتے ٹی وی خراب ہوئے تو ٹھیک کون کرے گا ؟ نئے ٹی وی کی خرید کیسے ممکن ہوگی ۔ ٹی وی کا خاتمہ یعنی بھانت بھانت کے نیوز اور انٹرٹیمنٹ چینلز کی دکان بھی بند ۔۔ اب طبعیت بہلانے کیلئے پھر بانسری بجائی جائے گی ۔ دل بہلانے کیلئے ایکبار پھر ناول اور کہانیاں لکھی جائیں گی ۔ ماڈرن ازم اور لبرل ازم کا پتہ تو کورونا کے پہلے وار نہ ہی صاف کردیا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے والے مردوزن آج ہاتھ ملانے کے بھی رودار نہیں بولڈ اور بے پردہ خواتین کے پاس بھی چہرہ چھپانے کے علاوہ کوئی چارا نہیں ۔ جو نوجوان ماں باپ کی باتوں پر کان نہیں دھرتے تھے اب کورونا کی ہدایت کان کھول کر سن رہے ہیں۔ لہذا مخلوط محافل اور سٹرڈے نائٹ پارٹیز پر بھی ایسے ہی آہ بھری جائے جیسے کراچی کے نائٹ کلبز کو یاد کرکے بھری جاتی ہیں۔ قرنطینہ قید مریض اگر صحت مند ہو کر نکلے تو بہت کچھ بدل چکا ہوگا ۔۔ ممکن ہے ابتدا میں انکو یقین نہ آئے وہ بھی آنکھیں بند کریں گے اور ٹھنڈی آہ بھر کر کہیں گے ۔ ایک تھی ترقی اور پھر کورونا آگیا ۔ اوپر بیان کی گئی تمام باتیں غلط ثابت ہوسکتی ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا کافی بدل جائے گی ۔ لہذا تیاری کرلیں کیونکہ تبدیلی آرہی ہے