Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
خوشی، خوشحالی انصاف ،حقوق کا حصول اور تحفظ ،شہری آزادیاں اور ریاست کا کردار فلسفے کے بنیادی مضوعات رہے ہیں، ریاست کی سیاسی ساخت ہی ان سب کی تعریف اور عملداری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، تاریخ ایسے بہت سے مفکرین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے انفرادی آزادی پر زور دیا اور ہی کو حتمی نصب العین سمجھا، دوسری طرف اجتماعیت کے فوائد یعنی خوشی ہی کو محور سمجھنے والے بھی راج کرتے رہے ہیں۔ہمارے سامنے اس فکر سے جڑے نظاموں کی سب سے پہلی جھلک سپرانٹس اور رومن ایمپائر کی صورت موجود ہے، اس وقت کی دنیا انگشت بدنداں رہ گئی تھی جب ایک علمی گہوارے اور آزاد معاشرے کو سپرانٹس نے شکست دی۔
تب بھی سوال اٹھے کہ ایک مضبوط ریاست کی کیا تعریف ہو نی چاہیے، کیا ریاست کے لیے انفرادی آزادی، اظہار راۓ اور علمی تگ ودو کافی ہے، یا اسے سپرانٹس کی طرز پر ایک سخت گیر باپ ہونا چاہیے جس کا محور اجتماعیت ہو،اس کے بعد تاریخ بادشاہت، ملوکیت اور بڑی بڑی ایمپائرز سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ سب نظام انسان کو سکون عطا کرنے میں ناکام رہے۔
اس بحث کا عروج صنعتی انقلاب کی آمد پر ایک بار پھر ہوا جس کے نتیجے میں یورپی فلسفہ دانوں نے بہت سے ماڈلز پیش کیے جن کے سوتے آزادی اور خوشی پر مشتمل تھےجن کے تحفظ کے لے جمہوری نظام کو لایا گیا تاکہ ریاست ان میں کوئی بگاڑ نہ پیدا ہو سکے۔ اس نظام سے ایک طرف فرد ریاست کے لیے اہم ترین ٹھہرا تو دوسری طرف اس کے “سرماۓ” کو بھی تحفظ مل گیا۔اسی نظام کو تیسری دنیا نے بھی بہترین انقلاب کے طور پر اپنا لیا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شائد ایک بار پھر فلسفہ دانوں اور تاریخ دانوں کے سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت آگیا ہے۔ آج کی دنیا ایسے بہت سے مسائل کا شکار ہے جو موجودہ نظام کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں، اس کی تازہ مثال بھارت ہے جہاں اکثریت کی ظالمانہ بالادستی جمہوریت نے کو اختیار کر لیا ہے جس کا شکاراقلیتیں اور پسے ہوۓ طبقات ہورہے ہیں، یہ سب کچھ وہاں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے۔ بی جی پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کا تازہ انٹرویو اسی بیمار سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
دو سری طرف کرونا کی و باء کے خاتمے کے لیے مختلف طرز کی حکومتوں کے اقدامات ہیں، چین نے اس وباء پر قابو پانے میں مرکزی کردار اس کی طرز حکومت اور وسائل کا ہے، یورپ بہترین نظام صحت اور وسائل ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکا کیونکہ وہاں کا نظام سخت لینے کی اہلیت نہی رکھتا تھا۔اسی سلسلے میں ایران کی مثال بھی موجود ہے جہاں نظام تو مدد گار ہے لیکن وسائل کی کمی ہے۔
ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود بھی انسان کسی حتمی نظام کو تشکیل نہی دے پایا جس میں تمام شہری سکھی ہوں اور ریاست بھی موثر ہو، شائد قدرت نے ایسا نظام انسان کے تخیل سے ابھی دور رکھا ہوا ہے۔
خوشی، خوشحالی انصاف ،حقوق کا حصول اور تحفظ ،شہری آزادیاں اور ریاست کا کردار فلسفے کے بنیادی مضوعات رہے ہیں، ریاست کی سیاسی ساخت ہی ان سب کی تعریف اور عملداری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، تاریخ ایسے بہت سے مفکرین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے انفرادی آزادی پر زور دیا اور ہی کو حتمی نصب العین سمجھا، دوسری طرف اجتماعیت کے فوائد یعنی خوشی ہی کو محور سمجھنے والے بھی راج کرتے رہے ہیں۔ہمارے سامنے اس فکر سے جڑے نظاموں کی سب سے پہلی جھلک سپرانٹس اور رومن ایمپائر کی صورت موجود ہے، اس وقت کی دنیا انگشت بدنداں رہ گئی تھی جب ایک علمی گہوارے اور آزاد معاشرے کو سپرانٹس نے شکست دی۔
تب بھی سوال اٹھے کہ ایک مضبوط ریاست کی کیا تعریف ہو نی چاہیے، کیا ریاست کے لیے انفرادی آزادی، اظہار راۓ اور علمی تگ ودو کافی ہے، یا اسے سپرانٹس کی طرز پر ایک سخت گیر باپ ہونا چاہیے جس کا محور اجتماعیت ہو،اس کے بعد تاریخ بادشاہت، ملوکیت اور بڑی بڑی ایمپائرز سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ سب نظام انسان کو سکون عطا کرنے میں ناکام رہے۔
اس بحث کا عروج صنعتی انقلاب کی آمد پر ایک بار پھر ہوا جس کے نتیجے میں یورپی فلسفہ دانوں نے بہت سے ماڈلز پیش کیے جن کے سوتے آزادی اور خوشی پر مشتمل تھےجن کے تحفظ کے لے جمہوری نظام کو لایا گیا تاکہ ریاست ان میں کوئی بگاڑ نہ پیدا ہو سکے۔ اس نظام سے ایک طرف فرد ریاست کے لیے اہم ترین ٹھہرا تو دوسری طرف اس کے “سرماۓ” کو بھی تحفظ مل گیا۔اسی نظام کو تیسری دنیا نے بھی بہترین انقلاب کے طور پر اپنا لیا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شائد ایک بار پھر فلسفہ دانوں اور تاریخ دانوں کے سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت آگیا ہے۔ آج کی دنیا ایسے بہت سے مسائل کا شکار ہے جو موجودہ نظام کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں، اس کی تازہ مثال بھارت ہے جہاں اکثریت کی ظالمانہ بالادستی جمہوریت نے کو اختیار کر لیا ہے جس کا شکاراقلیتیں اور پسے ہوۓ طبقات ہورہے ہیں، یہ سب کچھ وہاں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے۔ بی جی پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کا تازہ انٹرویو اسی بیمار سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
دو سری طرف کرونا کی و باء کے خاتمے کے لیے مختلف طرز کی حکومتوں کے اقدامات ہیں، چین نے اس وباء پر قابو پانے میں مرکزی کردار اس کی طرز حکومت اور وسائل کا ہے، یورپ بہترین نظام صحت اور وسائل ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکا کیونکہ وہاں کا نظام سخت لینے کی اہلیت نہی رکھتا تھا۔اسی سلسلے میں ایران کی مثال بھی موجود ہے جہاں نظام تو مدد گار ہے لیکن وسائل کی کمی ہے۔
ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود بھی انسان کسی حتمی نظام کو تشکیل نہی دے پایا جس میں تمام شہری سکھی ہوں اور ریاست بھی موثر ہو، شائد قدرت نے ایسا نظام انسان کے تخیل سے ابھی دور رکھا ہوا ہے۔
خوشی، خوشحالی انصاف ،حقوق کا حصول اور تحفظ ،شہری آزادیاں اور ریاست کا کردار فلسفے کے بنیادی مضوعات رہے ہیں، ریاست کی سیاسی ساخت ہی ان سب کی تعریف اور عملداری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، تاریخ ایسے بہت سے مفکرین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے انفرادی آزادی پر زور دیا اور ہی کو حتمی نصب العین سمجھا، دوسری طرف اجتماعیت کے فوائد یعنی خوشی ہی کو محور سمجھنے والے بھی راج کرتے رہے ہیں۔ہمارے سامنے اس فکر سے جڑے نظاموں کی سب سے پہلی جھلک سپرانٹس اور رومن ایمپائر کی صورت موجود ہے، اس وقت کی دنیا انگشت بدنداں رہ گئی تھی جب ایک علمی گہوارے اور آزاد معاشرے کو سپرانٹس نے شکست دی۔
تب بھی سوال اٹھے کہ ایک مضبوط ریاست کی کیا تعریف ہو نی چاہیے، کیا ریاست کے لیے انفرادی آزادی، اظہار راۓ اور علمی تگ ودو کافی ہے، یا اسے سپرانٹس کی طرز پر ایک سخت گیر باپ ہونا چاہیے جس کا محور اجتماعیت ہو،اس کے بعد تاریخ بادشاہت، ملوکیت اور بڑی بڑی ایمپائرز سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ سب نظام انسان کو سکون عطا کرنے میں ناکام رہے۔
اس بحث کا عروج صنعتی انقلاب کی آمد پر ایک بار پھر ہوا جس کے نتیجے میں یورپی فلسفہ دانوں نے بہت سے ماڈلز پیش کیے جن کے سوتے آزادی اور خوشی پر مشتمل تھےجن کے تحفظ کے لے جمہوری نظام کو لایا گیا تاکہ ریاست ان میں کوئی بگاڑ نہ پیدا ہو سکے۔ اس نظام سے ایک طرف فرد ریاست کے لیے اہم ترین ٹھہرا تو دوسری طرف اس کے “سرماۓ” کو بھی تحفظ مل گیا۔اسی نظام کو تیسری دنیا نے بھی بہترین انقلاب کے طور پر اپنا لیا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شائد ایک بار پھر فلسفہ دانوں اور تاریخ دانوں کے سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت آگیا ہے۔ آج کی دنیا ایسے بہت سے مسائل کا شکار ہے جو موجودہ نظام کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں، اس کی تازہ مثال بھارت ہے جہاں اکثریت کی ظالمانہ بالادستی جمہوریت نے کو اختیار کر لیا ہے جس کا شکاراقلیتیں اور پسے ہوۓ طبقات ہورہے ہیں، یہ سب کچھ وہاں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے۔ بی جی پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کا تازہ انٹرویو اسی بیمار سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
دو سری طرف کرونا کی و باء کے خاتمے کے لیے مختلف طرز کی حکومتوں کے اقدامات ہیں، چین نے اس وباء پر قابو پانے میں مرکزی کردار اس کی طرز حکومت اور وسائل کا ہے، یورپ بہترین نظام صحت اور وسائل ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکا کیونکہ وہاں کا نظام سخت لینے کی اہلیت نہی رکھتا تھا۔اسی سلسلے میں ایران کی مثال بھی موجود ہے جہاں نظام تو مدد گار ہے لیکن وسائل کی کمی ہے۔
ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود بھی انسان کسی حتمی نظام کو تشکیل نہی دے پایا جس میں تمام شہری سکھی ہوں اور ریاست بھی موثر ہو، شائد قدرت نے ایسا نظام انسان کے تخیل سے ابھی دور رکھا ہوا ہے۔
خوشی، خوشحالی انصاف ،حقوق کا حصول اور تحفظ ،شہری آزادیاں اور ریاست کا کردار فلسفے کے بنیادی مضوعات رہے ہیں، ریاست کی سیاسی ساخت ہی ان سب کی تعریف اور عملداری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، تاریخ ایسے بہت سے مفکرین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے انفرادی آزادی پر زور دیا اور ہی کو حتمی نصب العین سمجھا، دوسری طرف اجتماعیت کے فوائد یعنی خوشی ہی کو محور سمجھنے والے بھی راج کرتے رہے ہیں۔ہمارے سامنے اس فکر سے جڑے نظاموں کی سب سے پہلی جھلک سپرانٹس اور رومن ایمپائر کی صورت موجود ہے، اس وقت کی دنیا انگشت بدنداں رہ گئی تھی جب ایک علمی گہوارے اور آزاد معاشرے کو سپرانٹس نے شکست دی۔
تب بھی سوال اٹھے کہ ایک مضبوط ریاست کی کیا تعریف ہو نی چاہیے، کیا ریاست کے لیے انفرادی آزادی، اظہار راۓ اور علمی تگ ودو کافی ہے، یا اسے سپرانٹس کی طرز پر ایک سخت گیر باپ ہونا چاہیے جس کا محور اجتماعیت ہو،اس کے بعد تاریخ بادشاہت، ملوکیت اور بڑی بڑی ایمپائرز سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ سب نظام انسان کو سکون عطا کرنے میں ناکام رہے۔
اس بحث کا عروج صنعتی انقلاب کی آمد پر ایک بار پھر ہوا جس کے نتیجے میں یورپی فلسفہ دانوں نے بہت سے ماڈلز پیش کیے جن کے سوتے آزادی اور خوشی پر مشتمل تھےجن کے تحفظ کے لے جمہوری نظام کو لایا گیا تاکہ ریاست ان میں کوئی بگاڑ نہ پیدا ہو سکے۔ اس نظام سے ایک طرف فرد ریاست کے لیے اہم ترین ٹھہرا تو دوسری طرف اس کے “سرماۓ” کو بھی تحفظ مل گیا۔اسی نظام کو تیسری دنیا نے بھی بہترین انقلاب کے طور پر اپنا لیا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شائد ایک بار پھر فلسفہ دانوں اور تاریخ دانوں کے سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت آگیا ہے۔ آج کی دنیا ایسے بہت سے مسائل کا شکار ہے جو موجودہ نظام کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں، اس کی تازہ مثال بھارت ہے جہاں اکثریت کی ظالمانہ بالادستی جمہوریت نے کو اختیار کر لیا ہے جس کا شکاراقلیتیں اور پسے ہوۓ طبقات ہورہے ہیں، یہ سب کچھ وہاں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے۔ بی جی پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کا تازہ انٹرویو اسی بیمار سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
دو سری طرف کرونا کی و باء کے خاتمے کے لیے مختلف طرز کی حکومتوں کے اقدامات ہیں، چین نے اس وباء پر قابو پانے میں مرکزی کردار اس کی طرز حکومت اور وسائل کا ہے، یورپ بہترین نظام صحت اور وسائل ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکا کیونکہ وہاں کا نظام سخت لینے کی اہلیت نہی رکھتا تھا۔اسی سلسلے میں ایران کی مثال بھی موجود ہے جہاں نظام تو مدد گار ہے لیکن وسائل کی کمی ہے۔
ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود بھی انسان کسی حتمی نظام کو تشکیل نہی دے پایا جس میں تمام شہری سکھی ہوں اور ریاست بھی موثر ہو، شائد قدرت نے ایسا نظام انسان کے تخیل سے ابھی دور رکھا ہوا ہے۔