غزل
اس غم کی سیہ رات کو ڈھلنا،ہی پڑے گا
امید کے سورج کو نکلنا،ہی پڑے گا
پھیلی ہے کرو نا کی وبا سارے جہاں میں
اس ناگ کو ہمت سے کچلنا،ہی پڑے گا
پٌرجوش مسیحا ہیں سبھی میرے وطن کے
اس وادئ پُر خار میں چلنا ہی پڑے گا
لازم ہے حفاظت کریں صحت کی مسلسل
اب طرزِ شب وروز بدلنا ہی پڑے گا
اب کیجئے محفل کو مؤخر کوئی دن اور
ملتے ہوئے اب سب سے سنبھلنا،ہی پڑے گا
افواج اتر آئی ہیں میدانِ عمل میں
اب سب کو ہدایات پہ چلنا،ہی پڑے گا
پہنچائیے امداد غریبوں کے گھروں تک
فاقوں میں گھِرا خوف ۔۔مسلنا ہی پڑے گا
مانا کہ کڑا وقت ہے ۔۔گبھرانا،نہیں ہے
اس آس کی قندیل کو جلنا ہی پڑے گا
ہم دستِ دعا لے کے کنارے پہ کھڑے ہیں
اے بحرِ سخا تجھ کو اچھلنا،ہی پڑے گا