Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
” آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی سال گرہ ہے “
استاد بڑے غلام علی خان کا تعلق موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ 2 اپریل 1902 ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھے اور اس کے رتنوں میں شامل تھے جب کہ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوئے۔
جلد ہی استاد بڑے غلام علی خان کے فن کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی۔ انہوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں شرکت کی اور اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے گائیکی میں اپنی ترامیم سے بہت سی خوبیاں پیدا کیں۔ ان کی آواز میں ایک گھومتا سا ارتعاش تھا اور گانے میں بافراغت گفتگو کی سی بے تکلفی تھی جو لاہور کی فصیل کے اندر رہنے والے مسلمان بے فکروں سے مخصوص ہے۔ جن لوگوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تان سین‘ بیجو باورا اور نائک ہری داس سوامی کے ہم مرتبہ فنکار تھے۔
قیام پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے ریڈیو پاکستان کے بڑے افسران کی بےحسی اور تحکمانہ انداز سے دلبرداشتہ ہوکر 1954ءمیں وہ بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔
بھارت میں استاد بڑے غلام علی خان کی بڑی پذیرائی ہوئی اور انہیں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے علاوہ سردیوتا‘ سنگیت سمراٹ اور شہنشاہ موسیقی جیسے خطابات کے علاوہ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔
استاد بڑے غلام علی خان 23 اپریل 1968ءکو حیدرآباد (دکن) میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے ایک عقیدت مند نواب مشیر یار جنگ کے پاس مقیم تھے۔ وہ حیدرآباد(دکن) ہی میں آسودہ خاک ہوئے۔
” آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی سال گرہ ہے “
استاد بڑے غلام علی خان کا تعلق موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ 2 اپریل 1902 ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھے اور اس کے رتنوں میں شامل تھے جب کہ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوئے۔
جلد ہی استاد بڑے غلام علی خان کے فن کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی۔ انہوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں شرکت کی اور اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے گائیکی میں اپنی ترامیم سے بہت سی خوبیاں پیدا کیں۔ ان کی آواز میں ایک گھومتا سا ارتعاش تھا اور گانے میں بافراغت گفتگو کی سی بے تکلفی تھی جو لاہور کی فصیل کے اندر رہنے والے مسلمان بے فکروں سے مخصوص ہے۔ جن لوگوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تان سین‘ بیجو باورا اور نائک ہری داس سوامی کے ہم مرتبہ فنکار تھے۔
قیام پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے ریڈیو پاکستان کے بڑے افسران کی بےحسی اور تحکمانہ انداز سے دلبرداشتہ ہوکر 1954ءمیں وہ بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔
بھارت میں استاد بڑے غلام علی خان کی بڑی پذیرائی ہوئی اور انہیں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے علاوہ سردیوتا‘ سنگیت سمراٹ اور شہنشاہ موسیقی جیسے خطابات کے علاوہ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔
استاد بڑے غلام علی خان 23 اپریل 1968ءکو حیدرآباد (دکن) میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے ایک عقیدت مند نواب مشیر یار جنگ کے پاس مقیم تھے۔ وہ حیدرآباد(دکن) ہی میں آسودہ خاک ہوئے۔