اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگر کاٹتے بہت زور سے ہیں، اب آٌپ ہی بتائیے بے جان لفظ کاٹ سکتے ہیں تو بھلا کرونا کیوں نہیں کاٹ سکتا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کرونا کا کاٹا پانی مانگے ہے یا نہیں؟ غالب تو سگ گزیدگی سے خوفزدہ تھے مگر یہاں تو عقل گزیدگی کی بہتات ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو طبی ماہرین نے کرونا سے متعلق طویل بریفنگ دی، بریفنگ کے بعد انہوں نے ماہرین سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کرونا کاٹتا کیسے ہے؟ طبی ماہرین لاجواب ہو گئے، دروغ بر گردان راوی مگر حضور یہ ملک کے موقر انگریزی اخبار ڈان میں رپورٹ ہوا ہے۔ (اخبار ہذاٰ پر غلط بیانی کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے، اب چاہے تو خبر پر یقین کئجیئے چاہیں نہ کریں، آپ کی صوابدید) بہرحال اگر ایسا ہوا ہے تو بتائیے کیا گزری ہو گی ڈاکٹرز اور پروفیسرز پرجو بیچارے کئی دنوں کی تحقیق کے بعد پریزینٹیشن پیش دے رہے تھے۔ اس سے تو کچھ زیادہ ہی ہو گی جو ہم، آپ اور وسیم اکرم پر گزر رہی ہے۔ کیا کیا جائے وسیم اکرم پلس نے ایسی قیامتیں ڈھائی ہیں کہ بیچارے وسیم اکرم مائنس ہو کر رہ گئے ہیں، شنیرہ الگ پلس، مائنس کے چکر میں الجھ گئی ہیں۔ ایک واقعہ یاد آ گیا لگے ہاتھوں پڑھتے چلیں، کئی سال پہلے کی بات ہے جنگ میگزین میں سابق چیف آف جوائنٹ اسٹاف ایڈمرل افتخار احمد سروہی کا پینل انٹرویو پڑھا، سوال کیا گیا کہ ایڈمرل صاحب آپ نے تین، تین وزرا اعظم کیساتھ کام کیا ہے، انہیں کیسا پایا۔ سروہی صاحب نے جواب دیا کہ جونیجو صاحب بہت شریف انسان تھے، پوری بریفنگ نہایت اطمینان سے سنتے تھے اور اجلاس ختم ہو جایا کرتا تھا۔ بینظیر بھٹو کو سب پہلے سے پتہ ہوتا تھا، وہ کہتیں تھیں آئی نو، گو فارورڈ، نواز شریف صاحب سب سے زیادہ توجہ، انہماک اور خوشدلی کیساتھ بریفنگ لیتے تھے، ایک لمحہ بھی انہماک میں فرق نہیں پڑتا خواہ بریفنگ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، آخر میں فرماتے تھے تسی آپئے ہی کر لو سروہی صاحب۔ تحریک انصاف والے قطعی ناراض نہ ہوں کیونکہ وسیم اکرم پلس میاں صاحب سے بہتر ہیں، اتنی محنت و مشقت سے پیش کی جانیوالی بریفنگ کے بعد کم از کم ذھن میں اٹھنے والے سوال تو کرتے ہیں۔
گورنر پنجاب فرماتے ہیں گرم پانی پینے سے معدے میں کرونا کے جراثیم نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔عالمانہ جہل کی ایسی نادر و نایاب مثالیں بھلا اور کہاں، اب کیا کہوں جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں والا معاملہ ہے۔ کرونا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، ادھر ہم ٹوٹکوں، جگتوں، چلوں، روحانیات میں کرونا کا حل ڈھونڈ رہے ہیں تو ادھر چین نے ووہان کو کرونا سے پاک کر کے ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا کہ دنیا کیلئے مثال بن گیا۔ امریکہ اور فرانس کی جانب سے کرونا کا توڑ کرنے والی دوائیں سامنے آئی ہیں مگر نتائج میں وقت لگے گا۔ اللہ رحم کرے مگر کرونا نے وہ سب کر دکھایا جو دنیا نے پہلے نہ دیکھا نہ سوچا، کس نے سوچا تھا کہ شہر سنسان، انسان گھروں میں قید، کاروبار معطل، معیشت تباہ، ائیرپورٹس، ریلوے، بسیں بند، تعلیم اداروں پر تالے، کس نے سوچا تھا شہر جیل اور ملک کشمیر اور انسانیت لہولہان ہو گی۔
خیر سوچا تو یہ بھی نہ تھا کہ ایسا بھی وقت آئیگا جب سندھ حکومت کی کارکردگی وفاق کیلئے مثال بنے گی۔ کس نے سوچا تھا کہ تفتان کی غلطی اتنی بھاری پڑیگی، وہی تفتان جہاں مشیر صحت اور وزیر اعلیٰ بلوچستان طبی انتظامات کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے، وہی تفتان جس کے انتظامات کی مثالیں وزیر اعظم پیش کیا کرتے تھے۔ ویسے آپس کی بات ہے لگتا ہے سارے سیاستدان جو بلا توقف و بنا ضرورت قوم و ملک سے ناصحانہ اور رقیبانہ خطابات کیا کرتے تھے آج جب ضرورت ہے تو رضاکارانہ قرنطینہ میں ہیں۔ فیصل واوڈا تو ماشااللہ کرونا پھوٹنے سے مہینوں پہلے قرنطینہ سدھار گئے تھے، فواد چوہدری، علی زیدی، شیخ رشید، شبلی فراز، خسرو بختیار سب ہی منظر سے غائب ہیں، مولانا فضل الرحمان، اچکزئی، اسفند یار جانے کس قرنطینہ میں ہیں۔ کچھ بیچارے اپوزیشن کے قائدین پریس کانفرنسز کر کے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں مگر نہیں جانتے پریس کانفرنس کی بھیڑ میں کرونا کتنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ صرف ایک جماعت اسلامی نے مثبت قدم اٹھایا ہے، عوامی شعور کیلئے مہم، ماسک، سینی ٹائزر وغیرہ تقسیم کیے ہیں ورنہ تو لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی کرفیو نافذ ہے۔
جاتے جاتے ایک عرض کرنی تھی، کرونا کا علاج تو دستیاب نہیں مگر ایک نہیں تین تین حل موجود ہیں، حل ہے احتیاط، سخت احتیاط اور کڑی احتیاط، اگرچہ ہم احتیاط کو ایمان کی کمزوری اور بزدلی تصور کرتے ہیں مگر خدا کے واسطے بقراطیانہ مفروضوں کے پیچھے بھاگ کر خود کو ہلاکت اور دوسروں کو نہ ڈالیں۔ سلام ہے سیلانی، عالمگیر، جے ڈی سی اور دیگر اداروں پر جنہوں نے نہ صرف لنگر خانوں کو کشادہ کر دیا ہے بلکہ دعوت عام ہے کہ گھر کیلئے کھانا بھی فراہم کیا جائیگا۔ سلام ہے ان لوگوں پر جو دامے، درمے، سخنے ابتلا کے وقت انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ سلام ہے ان ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل اور دیگر افراد پر جو قرنطینہ میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر کرونا مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ چین کا شہر ووہان کرونا سے پاک ہوا اور طبی عملہ باہر نکلا تو فوج نے انکو سلامی دی، جس شاہراہ سے گزرے عوام اور پولیس سلیوٹ مار رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنیوالے قومی ہیرو ہیں، یہ پاکستان کے حقیقی ہیرو ہیں، یہ انسانیت کے ہیرو ہیں۔
دوسری عرض یہ تھی کہ کرونا سے بڑا دشمن معاش ہے، روزانہ اجرت کمانے والا مزدور بھوکا رہ سکتا ہے مگر بچوں کو بھوکا نہیں رکھ سکتا۔ اپنے معاشرے کو ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے، ایک طرف انسان دشمن ذخیرہ اندوز کرونا سے امیر بن رہے ہیں تو دوسری جانب غریب بھوکا مر رہا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں پر لعنت بھیجنے سے پہلے ایک بار یہ ضرور سوچیں کہ کیا آپ کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتے ہیں، کسی مستحق کی مدد کر سکتے ہیں، کہیں جانا نہیں ہے بس اپنے اطراف ایک نظر ڈالیں، کچھ غربا اور کچھ سفید پوش، سب آس پاس موجود ہیں۔ خداوند رحیم و کریم کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کریں، رب کائنات ہمیں، آپکو اور پوری انسانیت کو اپنی پناہ میں رکھ، اس آزمائش سے نجات دے، اے اللہ مجھے تکلیف نے گھیر لیا ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے