وطن عزیز کے مخصوص سیاسی ماحول کے بدولت پبلک آرڈر ، دفعہ 144 اور سیفٹی ایکٹ جیسی قانونی اصلاحات کا چرچا کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہی ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما اور کارکن اس کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے واقعات کے انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں طبقات انگریزی استعمار کی نشانی کی حیثیت رکھنے والے ان جابرانہ قوانین کا نشانہ بننے اور ان مظالم کے سہنے کے باوجود اقتدار کے مواقع ملنے پر اصلاحات کی بجاۓ ان کو قانونی ہتھکنڈوں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال استمعال کرتے ہیں۔
اکثر ٹی وی مکالموں میں ان قوانین کو مکمل طور ختم کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئیں ۔ ان مکالموں میں سیاسی قائدین نے ایسے قوانین کے خاتمے کی بات تو ضرور کی لیکن جب یہ لوگ اقتدار میں آئے تو وہ اپنے الفاظ کو بھول گئے اور ماضی کی تکلیف دہ روایت جاری رہی۔
یہ بھی سچ ہے کہ ان قوانین کے ناجائز استمعال کی قیمت پوری قوم کو بھی ادا کرنی پڑی۔ مجھے نہیں یاد ان قوانین کو لاگو کرنے پر کسی بھی حکومت کو مجموعی طور عوامی سپورٹ ملی ہو۔
لیکن موجودہ حالات میں ، ہماری قومی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ان قوانین کا استمعال عوامی مفاد میں نہایت ضروری ہے، چین اور اٹلی کے تجربات سے ایک بات واضح ہے کہ کرونا کی وبا کو روکنے کے لۓ میل جول کو محدود کرنا سب سے موثر طریقہ کار ہے۔ معلوم نہیں اب تک حکومت نے ان قوانین کا سہارا کیوں نہی لیا، اس بہانے عوام کو پتا تو چلتا کہ ان کی افادیت بھی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ کرونا کے وبائی چیلنج سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ان قوانین کے نفاذ کے ذریعے عوام کی صحت اور زندگیاں محفوظ کر لی جائیں۔