فروری 2019میں پاکستان کا سفرچارسال بعد ہوا ،ارادہ کراچی کے علاوہ لاہور، اسلام اباد اور ساہیوال جانے کا تھا لیکن یاترا کراچی تک محدود رہ گئی ، تین ہفتے قیام کے دوران مصروفیت اتنی کہ وقت یہیں صرف ہوگیا اور پنجاب جانے کا ٹائم نہ ملا ۔
کراچی میں فیملئ اور صحافی دوستوں کے علاوہ سوشل میڈیا کے زریعے بننے والے نئے فرینڈز سے ملاقاتوں اور دعوتوں کے باعث وقت مصروف گزرا، بہت سے فرینڈز سے ملاقات رہ گئی ، ان سے معزرت ، کوشش کروں گا اگلی وزٹ جلد ہو کہ ملاقات ہوسکے ۔ کچھ ایسے فرینڈز جن سے وقت کی کمی کے باعث ملاقات نہ ہوسکی لیکن ٹیلی فونک لمبی گپ شپ ہویئ تو ان سے بھی اگلی وزٹ پر ملاقات ضرور ہوگی ،
واپسی کے بعد سیدھا امریکا نہیں انا تھا کیونکہ دو ملکوں کی وزٹ باقی تھی یعنی لزبن پرتگال اور استنبول ترکیہ تو کافی وقت وہاں بھی صرف ہوا، روداد اور پکچرز فرینڈز کےساتھ فیس بک پر شئیر کرتا رہا ۔ ایک ہفتہ ہوا نیویارک واپسی ہوئی تو کچھ فرصت ملی ، سوچا چند تاثرات پاکستان بارے ہوجائیں لیکن وزٹ چونکہ کراچی تک محدود رہی توتاثرات بھی کراچی تک محدود ہیں ۔ ( وضاحت ضروری ہے )
کراچی کے بارے میں حالیہ دور میں سیاسی اکھار پچھاڑ اورسہولتوں کی تباہی کے حوالے سے بہت کچھ سن رکھا تھا تو ذہن میں پہلے سے خیال موجود تھا کہ زبوں حال شہر ہوگا ، حیرانی بھی نہ ہوئی کہ اڑتی ہوئی گرد اور ٹوٹے فٹ پاتھوں نے مہر تصدیق ثبت کردی ، دل تھام کر رہ گیا کہ یاالیہی کیا یہ وہی کراچی ہے جوزمانہ طالب علمی میں روشنیوں اور چوڑی سڑکوں کا شہرکہلاتا تھا اور پنجاب سے لوگ اسے دیکھنے اتے تھے خاص طور پر گاؤں دیہات کے لوگ اپنے رشتے داروں پر پنجاب میں رعب ڈالتے تھے کہ ہم تو کراچی شہر میں رہتے ہیں ، سندھی اور پشتون لوگوں کا بھی یہی حال تھا لیکن اب کی بار خود کراچی کا اردو سپینکنگ فرینڈ کہنے لگا کہ یار شہزاد تمہارے ساتھ تمہارا آبائی شہر لاہوردیکھنا چاہتا ہوں ، سنا ہے بہت اچھا شہر ہے تو حیرت سے اس کی شکل دیکھنے لگا کہ مرسڈیز کار اس کے نیچے اورایک بڑا بزنس مین جوفخر سے کہا کرتا تھا کہ کراچی تو انٹرنیشنل لیول کا شہر ہے ، اب وہ یہ بات کہنے لگا ہے۔
کئی پنجابی فرینڈز سے بات ہوئی تو الٹا کہنےلگے پنجاب میں اگر چار سڑکیں بناددیں تو کیا ترقی ہوگئی ۔ حیرت زدہ رہ گیا اور پوچھا جب تم گاؤں سےمنہ چک کے بتیاں دیکھنے کراچی کی سڑکیں دیکھنے اتے تھے تو اس وقت یہ بات یاد نہ اتی تھی۔ حد ہوتی ہے ناشکری اورسیاسی مخالفت کی بے شرمو ۔۔۔۔
وہ شہرکراچی جو روشنیوں اور چوڑی سڑکوں کاشہرکہلاتا تھا وہ بجھ گیا ، وہ شہر ختم ہوگیا ، گندگی ،اب تو ٹوٹے ہوئے فٹ پاتھ اور چند سڑکیں ہی اس شہر کا کل سرمایہ ہیں ،
نئی بات یہ ضرور دیکھی کہ جگہ جگہ چائے ہوٹل ، شوارما ، برگر اور فرنچ فرایز بن چکے ہیں ، چھوٹی چھوٹی دکانیں بن گئی ہیں ، بڑی دکان کو توڑ کر چار چارنئی دکانیں بنا کر کرایہ پر چڑھادی گئیں ، میری اپارٹمنٹ بلڈنگ کے سامنے ایک ٹیلرنگ شاپ ہوتی تھی اور ان صاحب کے چار بیٹے تھے ، ایک نوجوان سے ان کا پوچھا تو بولا میں ان کا دوسرے والا بیٹا ہوں اور دیکھا تو اس بڑی دکان کی بھی چھ چھوٹی دکانیں بن چکی ہیں اور خوب چل رہی ہیں ۔
بے شک کراچی مٰیں بیس سال نسلی اور لسانی فسادات ہوئے لیکن کوئی کسی کو اس شہر سے نہیں نکال سکا ، کلاشنکوف فیل ہوگئی۔ پنجابی، پشتون ، بلوچ سندھی اور اردو والے اسی شہر میں رہے ، کوئی ابائی علاقے یا صوبے مستقل رہایش کے لئے نہیں گیا ۔ چند ایک لوگ جو گئے بھی ، کراچی واپس اگئے ، پوچھا تو کہنے لگے یار وہاں سیٹ نہیں ہوسکے ، دوسرا کراچی رہتے رہتے ہم اپنے علاقے کے کلچر سے مخلتف بھی ہوچکے ۔ ابائی علاقوں میں اب تک برادری ازم اور بدمعاشی کلچر چل رہا ہے جس کے ہم عادی نہیں رہے ۔
لگتا ہے اردو والوں نے بھی کراچی میں دوسری قومیتوں کو اب قبول کرلیا ہے اور کراچی صرف ہمارا ہے کا نعرہ ذہنی طور پر ترک کرچکے ہیں ۔ اب کراچی میں پاکستان کی تمام قومیتیں رہ رہی ہیں بلکہ کراچی تو پشتونوں اور سرائکیوں کا سب سے بڑا شہر ہے ، خود میں نے اپنی ماں کے لئے دوعورتیں ملازم رکھی ہوئی ہیں ، ایک ریاستی دوسری راجن پور کی باہرٹھیلہ لگانے والے بھی زئادہ تر ریاستی اور پشتون تھے ۔
پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کراچی میں ختم ہوچکا ، بسیں اور ویگن غائب ، ہرطرف رکشے ہی رکشے اور منہ مانگے دام ، شکر ہے اوبر چل رہئ ہے ، ایک اوبر ڈرائیور سے پوچھا کتنے کما لیتے ہو بولا سر ذاتی انکم ستر ہزار روپیہ ماہانہ ہے ، گاڑی اور پٹرول کا خرچہ نکال کے اور گاڑی کی قسطیں بھی اوبر کی امدنی سے اداکیں ۔ پنجابی وڈیو دیکھ رہا تھا ۔ رات کے گیارہ بجے تھے ، حیرانی سے پوچھا پنجابی سمجھ بھی آتی ہے تو پنجابی میں جواب ملا ، میں پنجابی تے اں ، پیدایش کراچی دی اے ، پر میرا پیو لہور دا وے ، ریلوے جاب سی ، فیر کراچی وس گئے ، رشتے دار پنجاب چ نیں تے اندے جاندے رہی دا، خوشگوار حیرت ہوئی ۔
دیکھا ڈیڑھ کروڑ ابادی کے شہر کراچی میں تفریح کی کوئی جگہ نہیں ۔ لے دے کے کلفٹن پر سی ویو کا ساحل ، وہ بھی صرف دو تین میل تک ، کراچی کی واحد تفریح گاہ ہے اور یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔
لزبن مٰیں دیکھا تو ساٹھ ستر میل ہائی ویز بحیرہ اوقیانوس کے ساتھ چلتی ہیں اور نیلے پانیوں کے نظارے بھی ، پہاڑی سلسلے اور چھوٹے چھوٹے خوبصورت ٹاون بھی ، سوچتا رہا کہ ہم لوگ خوابوں اور نظریاتی دنیا سے باہر نکل کےحقیقت کی دنیا میں کب آئیں گے اور اپنی دنیا کو خوبصورت کب بنائیں گے ؟
لوگوں کی صحت اچھی نہیں ، کپڑے گندے ، شکلوں پر رنگ وروپ نہیں ، حتی کہ ہائی کلاس ڈیفنس سوسائیٹی کی خواتیں بھی عام سی لگیں ، چھوٹی چھوٹی کاریں ، رکشے ، موٹرسائکلیں ہر طرف ، گرد ، گندگی چارسو ۔
ایک اور بات کہ لوگ مزہبی بہت ، عبادت پر زورلیکن جدید علم ، صحت اور سائینس پر لوگوں کی نالج نہ ہونے کے برابر، جہالت ہی جہالت ، اگر کچھ بتاؤ تو سمجھتے ہیں کہ ہماری طرح اپنے پاس سے کہانی گھڑ کے چھوڑ رہا ہے ۔
نئے نئے شاپنگ مال بن گئے ہیں ، ایک زمانہ تھا طارق روڈ کراچی کیا پاکستان کا ٹاپ کا فیشن ایریا تھا ، جب میں سٹوڈنٹ تھا تو فرینڈز کے ساتھ پرسنل شاپنگ وہیں کرتا تھا ۔ بایر کے سنیکرز ، شرٹش اور جینزخردینا اپنی ہابی تھی ، اس وقت یہ چیزیں لگثرری شمار ہوتی تھیں لیکن اب اس طارق روڈ کی مرکزی اہمیت بھی ختم ہوگئی ، ائیر کندیشنڈ شاپنگ مال فیشن ائیبل علاقوں میں بن گئے اورلگثرری اشیا یہاں ملنے لگیں ، تین شاپنگ مال تو میرے علاقے نارتھ ناظم باد میں واکنگ فاصلے پر موجود ہیں ۔
حقیقت یہ کہ کراچی اب بھی پررونق ہے ، صرف ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو کراچی کو لسانی بنیاد پر نہیں پروفشنل بنیاد پر چلائے ،
کراچی ائیر پورٹ پر ایا تو مایوسی، دیکھا ائیرپورٹ کے باہر بہت سے لوگ کھڑے ہیں ۔ حیرت سے پوچھا اتنے لوگ کیسے ؟ پتہ چلا ایسے ہی کھڑے ہئں ، ائیرپورٹ دیکھنے ائے ہیں ، یااللہ ،، تفریحی سہولتوں کی کمی کا یہ حال ۔
ا یرپورٹ کے اندر بھی چند دکائیں او خریدار کوئی نہیں ،
دبئی، استنبول اور لزبن ائیر پورٹ دئکھے کہ ہزاروں لوگ ، ریسٹورنٹس، دکانیں ، روشنیاں ، چمک دمک دوسری طرف ہمارے ملک کی اکنامی یہ کہ ائیر پورٹ بھی ویران،