میں سوچ رہا ہوں چائے پر ایک کالم لکھوں جو نہیں پیتے انہیں کمبخت اور خانہ خراب لکھوں۔ ویسے بھی وہ دوست جو چائے نہیں پیتے خزانے کی طرح ہوتے ہیں۔ دل کرتا ہے ان کو زمین میں گاڑ دوں۔ ویسے بھی دل ظرف اور چائے کا کپ ہمیشہ بڑا ہونا چاہیے دور حاضر میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ وہ شخص ہوگا جو کہے گا میں ناشتے میں چائے نہیں لیتا۔ کڑک چائے اور خالص محبت کم ظرفوں کے لیے نہیں ہوتی۔
جان لیوا تھا اس کا سانولا رنگ
اور ہم کڑک چائے کے شوقین بھی تھے۔
یارو لفظ چاۓ مطلب آرام سکون تسلی دوائی امید پروٹین وٹامن زندگی دوستی پیار محبت عشق برسات کا موسم زندگی کا ہر رنگ راحت حرارت بہار خزاں اور کیا کیا بتاؤں جنہیں میری ان باتوں پر اعتراض ہے ان کے لئے عرض ہے آنکھیں مجنوں ہوں تو چائے بھی لیلی نظر اتی ہے۔ ویسے بھی آنکھیں کھولنے کے لئے چائے دنیا کی دوسری بہترین چیز ہے جی ہاں اور پہلے نمبر پر دھوکا ہی ہے۔
ہم سب کا کوئی ایسا دوست ضرور ہوتا ہے جو چائے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے آئیے آپ کو اپنے دوست سے ملواتے ہیں جو کہتے ہیں لوگوں کو محبوب چاہیے اور مجھے گرم چائے جو میں بڑی حسرت سے پیتا ہوں کمبخت کسرت سے پیتا ہوں صبح اٹھتا ہوں چائے پیتا ہوں ناشتے کے بعد چائے پیتا ہوں ہوں لنچ کے بعد چائے پیتا ہوں شام کو چائے پیتا ہوں سر میں درد ہو تو چائے پیتا ہوں پیٹ میں درد ہو تو چائے پیتا ہوں تھک جاؤں تو چائے پیتا ہوں سردی لگے تو چائے پیتا ہوں گرمیوں میں پیاس سے بچنے کے لئے چائے پیتا ہوں نیند سے بچنے کے لئے چائے پیتا ہوں پڑھنے کے لئے چائے پیتا ہوں مہمانوں کے ساتھ چائے پیتا ہوں اور جہاں سے بھی مفت مل جائے پیتا ہوں۔
انہی کے بقول پاکستان نیا ہو یا پرانا ہم چائے پینا نہیں چھوڑیں گے پاکستان میں ڈاکٹر کی ضرورت نہیں پڑتی یہاں ہر مرض کی دوا چائے ہے ویسے بھی چائے دنیا کی واحد بیماری ہے جس کا علاج صرف چائے ہے مزید فرماتے ہیں صرف چائے، چائے نہیں دوا ہے دکھ کی، درد کی، محبت کی۔ کیونکہ چائے سے اچھا کوئی نہیں میں نے نظر کا چشمہ لگا کر دیکھا ہے۔
کہتے چائے کی اہمیت کا اندازہ خود لگا لیں کہ گھر کوئی رشتے کے لیے آئے تو اس کو رشتہ دیں یا نہ دیں لیکن چائے ضرور دیتے ہیں میں نے پوچھا آپ چائے پینے کے لئے کس حد تک جا سکتے ہیں موصوف فرماتے ایک دفعہ تو لڑکی دیکھنے کی حد تک چلا گیا تھا اور جا کر ارشاد فرمایا میں کیسے بتاؤں کہ میرا چائے سے رشتہ کیا ہے نیکی نمبرات کی بات ہوگی چاہے کیسی بناتی ہو پہلے یہ بات ہوگی۔
کہتے میرے برسوں کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھانے سے چائے کی مقدار میں مسلسل کمی ہوتی ہے اور آپ عمر کے کسی بھی حصہ میں کیوں نہ ہوں اگر آپ کا بسکٹ چائے میں گر جائے تو ہمیشہ مایوسی ہی ہوگی میں نے پوچھا آپ کے نزدیک صبر جمیل کیا ہے؟؟ جواب ملا خاموشی سے اپنی چائے کسی کو دے دینا ساتھ مزید فرمایا غریب لوگوں کی ہائے, فارغ لوگوں کی رائے اور میرے حصے کی چائے کبھی نہ لیجئے ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔
کہتے ہر چیز ایک حد میں اچھی لگتی ہے ایک چائے ہے جو بےحد اچھی لگتی ہے اور میرے ہاتھوں کی چائے آئے ہائے ہائے۔۔۔۔ پوچھا اس میں ایسا کیا کہتے چائے چاہت سے بنائیں اور اس کو جوش دلائیں آپ کے ہوش اڑا دے گی محبت سے یہ ہونٹوں کو چومتی ہے اور محسوس کرو تو چائے بھی بولتی ہے۔
کہتے چائے پینے والے سب کے سب میرے جیسے ہی ہوتے ہیں پیارے، دل افروز، منفرد اور سادگی پسند اور تو اور مجھے لوگ بھی چائے جیسے پسند ہیں نہ ضرورت سے زیادہ میٹھے نہ ضرورت سے زیادہ پھیکے میں نے پوچھا چائے فائدہ دیتی ہے یا نقصان کہتے کوئی پلا دے تو فائدہ اگر پلانی پڑ جائے تو نقصان۔ پوری زندگی میں ان تین جملوں نے سب سے زیادہ تکلیف دی ہے نمبر ایک: تمہاری چاہیے کوئی اور پی گیا۔ نمبر دو: تمہارے لئے چائے نہیں بنائی۔ نمبر3: چائے کی پتی ختم ہوگئی. ویسے بھی ہر دکھی شخص عشق کا مارا نہیں ہوتا ہو سکتا ہے اس کی چائے کوئی اور پی گیا ہو۔ آخر میں لڑکیوں کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا زندگی میں کبھی گول روٹی اور اچھی چائے مت بنانا نہیں تو ہمیشہ تمہیں بنانا پڑے گی۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔