کہیں پانسا الٹا تو نہیں پڑگیا؟
سوشل میڈیا پر خلیل الرحمان قمر کے حق میں جس حجم کی طوفانی لہر اٹھی ہے، اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ خواتین کے مارچ کی رواں سال کی مہم غلط سمت میں چل نکلی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ رواں سال کی کیمپین نے عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچادیا ہے۔ ثبوت میں تین تصویریں پیش خدمت ہیں۔ ان میں سے دو عام شہری اور ایک وفاقی وزیر کی ہے۔ یعنی عام و خاص تک ایک ایسی جذباتی فضا میں سمو گئے ہیں، جس کے اثرات زائل کرنے میں طویل عرصہ لگے گا۔ یومِ خواتین کی فنڈڈ کیمپین تو چند دن میں تحلیل ہوجائے گی مگر اس کا آزاد کردہ عفریت تادیر عورتوں کی جدوجہد کو ڈراتا رہے گا۔
منسلک تصویروں جیسی ہزاروں دیگر فیس بُک اور ٹوئٹر پر سیلاب کی مانند نمودار ہوچکی ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خلیل الرحمان قمر کی حمایت میں ہر پوسٹ پر لائکس کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ اس کے مقابلے میں ماروی سرمد کے حمایتی بھی بڑی تعداد میں ہیں مگر اتنے زیادہ نہیں۔
میں کمیونی کیشن کا طالب علم ہوں اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ
یقینی طور پر اس سال کی عورت مارچ کی کمیونی کیشن کیمپین پلاننگ ناقص ہے اور جن لوگوں نے بھی رائے عامہ کو متحرک کرنے کا ذمہ اٹھایا تھا، انہوں نے مخاصمت و تنازعے یا کنٹروورسی کے ذریعے توجہ حاصل کرنے کی اسٹریٹجی کو درست انداز میں نہ سمجھا ہے اور نہ لاگو کیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حقوقِ نسواں کی مہم کی قوتِ استدلال سے فریقِ مخالف کے قلعے میں دراڑیں پڑتیں اور اس سال کی مہم کے فکری بیانیے سے مزید لوگ متفق ہوکر، عورت مارچ میں شامل ہوتے۔ اس کے برخلاف، تندوتیز، غیر منطقی الزام تراشی، جارحانہ بدن بولی اور لہجے کی کرختگی نے مخالف قلعے کی فصیلوں کو مزید بلند و پختہ کردیا۔ اب میرا اندازہ ہے کہ یومِ خواتین پر سڑکوں پر آنے والے مخالف گروپ کا حجم زیادہ بڑا ہوگا جبکہ حمایت میں آنے والے گروپوں کو پولیس اور دیگر اداروں کے حفاظتی حصار کی ضرورت پڑے گی، جو اس تحریک کے قد کو گھٹائے گا اور آواز کو محدود کرے گا۔ اور یہ تحریک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
مارچ سے چند دن پہلے، ایک غیر ضروری مخاصمت کے ذریعے، جذبات کو اس سطح پر لے جانا کہ خود خواتین کو آزادانہ نقل و حرکت سے خوف آئے اور وہ شراکت کے بجائے مزاحمت کی سوچ سے باہر نکلیں، یہ حقوقِ نسواں کی تحریک کا نقصان ہے۔ جس دن سب کو متفق ہونا تھا، اس دن جتھے آمنے سامنے کھڑے ہوں، یہ ہرگز پیغام رسانی اور تحریک یا موبلائزیشن کی کامیابی نہیں ہے۔
حقوقِ نسواں کی کیمپین پلانرز کو یہ بات سوچنی ہوگی۔