جنوبی پنجاب کے بلوچ اب جاگ رہے ہیں اور انھوں نے
سرائیکی شناخت کو مسترد کردیا ہے۔
جنوبی پنجاب کے بلوچوں سے انکی نسلی اور لسانی شناخت چھین کر زبردستی سرائکی بنانے کی بھونڈی کوشش کی جارہی تھی ۔ اسٹبلشمنٹ کے ٹکڑوں پر پلنے والے چند جعلی دانشوروں نے سرائیکی لفظ ایجاد کرکے عظیم بلوچ قوم سے ان کے بات دادا کی شناخت چھین لینے کی ناکام کوشش کی ۔
ابتدا میں پنجاب دشمنی کی جو لہر جنرل ضیا ان ڈائرکٹ چلا رہا تھا معصوم بلوچ بھی اس کے جھانسے میں آگئے لیکن اب وہ اس حقیقت کو سمجھ گئے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے دلال سرائکی کے نام پر اپنا الو سیدھا کررہے ہیں اور انکی بلوچ شناخت کو ختم کیا جارہا ہے ۔
بلوچ نے خود کو ہمیشہ بلوچ ہی کہا ہے ، یہ صرف پنجاب کے ٹکڑے کرنے کے لئے اسٹبلسمنٹ نے گھوڑا دوڑایا تھا اور جنوبی پنجاب کے لہجوں کو سرکاری سرپرستی میں سرائکی قرار دے دیا تھا ۔ اور ظلم یہ کہ بلوچوں کو بھی زبردستی سرائکی قرار دے دیا گیا ۔
دنیا میں جعلی قوم بنانے اور کسی قوم کو دوسری قوم کا نام دہنے کی اس سے بدترین مثال نہیں ملتی ۔
جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان ، راجن پور، تونسہ اور مظفر گڑھ میں آباد بلوچ اپنے کلچر کو زندہ کررہے ہیں اور بلوچی زبان کو بحال کروانا چاہتے ہیں ۔
پنجاب میں صرف پنجابی زبان ہے لیکن جنوبی پنجاب میں آباد بلوچوں کی اصل زبان بلوچی ہے ، بہتر ہوگا کہ جنوبی پنجاب کے بلوچوں کو بلوچی زبان سکھانے کے انتظامات کئے جائیں ۔
پنجابی اور بلوچی کو پنجاب کی زبانیں قرار دیا جائے اور سرائکی کو ختم کردیا جائے ۔
مردم شماری خانے میں بھی پنجابی اور بلوچی کا آپشن رکھا جائے ۔
جنوبی پنجاب کے بلوچوں کو سرائکی کے نام پر کچلنا سراسر زیادتی ہے ۔