Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
محمدلطف اللہ خاں 25 نومبر 1916ءکو مدراس میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہیں ابتدا سے ہی موسیقی کا شوق تھا۔ جس کی انہوں نے باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے۔
یہ 29جون 1951ء کا قصہ ہے جب ان کے ایک کلائنٹ یونس علی محمد سیٹھ نے ایک ایسی ’’مشین‘‘ کے بارے میں بتایا جو آواز ریکارڈ کرتی تھی۔ یونس علی محمد سیٹھ نے انہیں مزید بتایا کہ یہ مشین ٹیپ ریکارڈر کہلاتی ہے۔ ان کے پاس نمونے کی ایک مشین موجود ہے اور وہ لطف اللہ خاں صاحب سے اس مشین کی تشہیری مہم تیار کروانا چاہتے ہیں۔
لطف اللہ خاں صاحب محض ٹیپ ریکارڈر کا لٹریچر پڑھ کراسی وقت اسے خریدنے پر آمادہ ہوگئے اور یوں پاکستان میں آنے والا پہلا ٹیپ ریکارڈر ان کی ملکیت بن گیا۔ لطف اللہ خان صاحب نے اس ٹیپ ریکارڈر پر سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی اور پھر کچھ اہل خانہ اور احباب کی آوازیں۔ ایک دن ریڈیو سے بسم اللہ خان کی شہنائی نشر ہورہی تھی تو خاں صاحب نے اسے بھی ریکارڈ کرلیا۔ یہ تجربہ اچھا لگا تو انہوں نے ریڈیو سے مزید فن پارے ریکارڈ شروع کئے اور پھر اپنے گھر پر ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو قائم کرکے خود بھی نجی طور پر فن کاروں کو ریکارڈ کرنے لگے۔لطف اللہ خاں صاحب کا یہ مجموعہ آہستہ آہستہ موسیقاروں، سازندوں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور مذہبی عالموں کی تقاریر تک وسیع ہوگیا اورآوازوں کے اس خزانے میں کئی ہزار شخصیات کی آوازیں محفوظ ہوگئیں جن کا دورانیہ ہزاروں گھنٹوں تک پہنچتا ہے۔
لطف اللہ خاں ایک اچھے ادیب بھی تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ پہلوقیام پاکستان سے قبل عدیل کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔ ان کی یادداشتوں کے مجموعے تماشائے اہل قلم، سرُ کی تلاش اورہجرتوں کے سلسلے کے نام سے اور ایک سفر نامہ زندگی ایک سفر کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
لطف اللہ خاں کو ان کی کتاب ہجرتوں کے سلسلے پر 1999ءمیں وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ 7 ستمبر 2010ءکو اکادمی ادبیات پاکستان نے لطف اللہ خاں کو کمال فن ایوارڈ2009ءدیئے جانے کا اعلان کیا جبکہ 2011 ءمیں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا ۔ 3 مارچ 2012 کو لطف اللہ خان کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آ سودہ خاک ہوئے۔۔
محمدلطف اللہ خاں 25 نومبر 1916ءکو مدراس میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہیں ابتدا سے ہی موسیقی کا شوق تھا۔ جس کی انہوں نے باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے۔
یہ 29جون 1951ء کا قصہ ہے جب ان کے ایک کلائنٹ یونس علی محمد سیٹھ نے ایک ایسی ’’مشین‘‘ کے بارے میں بتایا جو آواز ریکارڈ کرتی تھی۔ یونس علی محمد سیٹھ نے انہیں مزید بتایا کہ یہ مشین ٹیپ ریکارڈر کہلاتی ہے۔ ان کے پاس نمونے کی ایک مشین موجود ہے اور وہ لطف اللہ خاں صاحب سے اس مشین کی تشہیری مہم تیار کروانا چاہتے ہیں۔
لطف اللہ خاں صاحب محض ٹیپ ریکارڈر کا لٹریچر پڑھ کراسی وقت اسے خریدنے پر آمادہ ہوگئے اور یوں پاکستان میں آنے والا پہلا ٹیپ ریکارڈر ان کی ملکیت بن گیا۔ لطف اللہ خان صاحب نے اس ٹیپ ریکارڈر پر سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی اور پھر کچھ اہل خانہ اور احباب کی آوازیں۔ ایک دن ریڈیو سے بسم اللہ خان کی شہنائی نشر ہورہی تھی تو خاں صاحب نے اسے بھی ریکارڈ کرلیا۔ یہ تجربہ اچھا لگا تو انہوں نے ریڈیو سے مزید فن پارے ریکارڈ شروع کئے اور پھر اپنے گھر پر ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو قائم کرکے خود بھی نجی طور پر فن کاروں کو ریکارڈ کرنے لگے۔لطف اللہ خاں صاحب کا یہ مجموعہ آہستہ آہستہ موسیقاروں، سازندوں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور مذہبی عالموں کی تقاریر تک وسیع ہوگیا اورآوازوں کے اس خزانے میں کئی ہزار شخصیات کی آوازیں محفوظ ہوگئیں جن کا دورانیہ ہزاروں گھنٹوں تک پہنچتا ہے۔
لطف اللہ خاں ایک اچھے ادیب بھی تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ پہلوقیام پاکستان سے قبل عدیل کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔ ان کی یادداشتوں کے مجموعے تماشائے اہل قلم، سرُ کی تلاش اورہجرتوں کے سلسلے کے نام سے اور ایک سفر نامہ زندگی ایک سفر کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
لطف اللہ خاں کو ان کی کتاب ہجرتوں کے سلسلے پر 1999ءمیں وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ 7 ستمبر 2010ءکو اکادمی ادبیات پاکستان نے لطف اللہ خاں کو کمال فن ایوارڈ2009ءدیئے جانے کا اعلان کیا جبکہ 2011 ءمیں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا ۔ 3 مارچ 2012 کو لطف اللہ خان کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آ سودہ خاک ہوئے۔۔
محمدلطف اللہ خاں 25 نومبر 1916ءکو مدراس میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہیں ابتدا سے ہی موسیقی کا شوق تھا۔ جس کی انہوں نے باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے۔
یہ 29جون 1951ء کا قصہ ہے جب ان کے ایک کلائنٹ یونس علی محمد سیٹھ نے ایک ایسی ’’مشین‘‘ کے بارے میں بتایا جو آواز ریکارڈ کرتی تھی۔ یونس علی محمد سیٹھ نے انہیں مزید بتایا کہ یہ مشین ٹیپ ریکارڈر کہلاتی ہے۔ ان کے پاس نمونے کی ایک مشین موجود ہے اور وہ لطف اللہ خاں صاحب سے اس مشین کی تشہیری مہم تیار کروانا چاہتے ہیں۔
لطف اللہ خاں صاحب محض ٹیپ ریکارڈر کا لٹریچر پڑھ کراسی وقت اسے خریدنے پر آمادہ ہوگئے اور یوں پاکستان میں آنے والا پہلا ٹیپ ریکارڈر ان کی ملکیت بن گیا۔ لطف اللہ خان صاحب نے اس ٹیپ ریکارڈر پر سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی اور پھر کچھ اہل خانہ اور احباب کی آوازیں۔ ایک دن ریڈیو سے بسم اللہ خان کی شہنائی نشر ہورہی تھی تو خاں صاحب نے اسے بھی ریکارڈ کرلیا۔ یہ تجربہ اچھا لگا تو انہوں نے ریڈیو سے مزید فن پارے ریکارڈ شروع کئے اور پھر اپنے گھر پر ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو قائم کرکے خود بھی نجی طور پر فن کاروں کو ریکارڈ کرنے لگے۔لطف اللہ خاں صاحب کا یہ مجموعہ آہستہ آہستہ موسیقاروں، سازندوں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور مذہبی عالموں کی تقاریر تک وسیع ہوگیا اورآوازوں کے اس خزانے میں کئی ہزار شخصیات کی آوازیں محفوظ ہوگئیں جن کا دورانیہ ہزاروں گھنٹوں تک پہنچتا ہے۔
لطف اللہ خاں ایک اچھے ادیب بھی تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ پہلوقیام پاکستان سے قبل عدیل کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔ ان کی یادداشتوں کے مجموعے تماشائے اہل قلم، سرُ کی تلاش اورہجرتوں کے سلسلے کے نام سے اور ایک سفر نامہ زندگی ایک سفر کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
لطف اللہ خاں کو ان کی کتاب ہجرتوں کے سلسلے پر 1999ءمیں وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ 7 ستمبر 2010ءکو اکادمی ادبیات پاکستان نے لطف اللہ خاں کو کمال فن ایوارڈ2009ءدیئے جانے کا اعلان کیا جبکہ 2011 ءمیں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا ۔ 3 مارچ 2012 کو لطف اللہ خان کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آ سودہ خاک ہوئے۔۔
محمدلطف اللہ خاں 25 نومبر 1916ءکو مدراس میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہیں ابتدا سے ہی موسیقی کا شوق تھا۔ جس کی انہوں نے باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے۔
یہ 29جون 1951ء کا قصہ ہے جب ان کے ایک کلائنٹ یونس علی محمد سیٹھ نے ایک ایسی ’’مشین‘‘ کے بارے میں بتایا جو آواز ریکارڈ کرتی تھی۔ یونس علی محمد سیٹھ نے انہیں مزید بتایا کہ یہ مشین ٹیپ ریکارڈر کہلاتی ہے۔ ان کے پاس نمونے کی ایک مشین موجود ہے اور وہ لطف اللہ خاں صاحب سے اس مشین کی تشہیری مہم تیار کروانا چاہتے ہیں۔
لطف اللہ خاں صاحب محض ٹیپ ریکارڈر کا لٹریچر پڑھ کراسی وقت اسے خریدنے پر آمادہ ہوگئے اور یوں پاکستان میں آنے والا پہلا ٹیپ ریکارڈر ان کی ملکیت بن گیا۔ لطف اللہ خان صاحب نے اس ٹیپ ریکارڈر پر سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی اور پھر کچھ اہل خانہ اور احباب کی آوازیں۔ ایک دن ریڈیو سے بسم اللہ خان کی شہنائی نشر ہورہی تھی تو خاں صاحب نے اسے بھی ریکارڈ کرلیا۔ یہ تجربہ اچھا لگا تو انہوں نے ریڈیو سے مزید فن پارے ریکارڈ شروع کئے اور پھر اپنے گھر پر ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو قائم کرکے خود بھی نجی طور پر فن کاروں کو ریکارڈ کرنے لگے۔لطف اللہ خاں صاحب کا یہ مجموعہ آہستہ آہستہ موسیقاروں، سازندوں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور مذہبی عالموں کی تقاریر تک وسیع ہوگیا اورآوازوں کے اس خزانے میں کئی ہزار شخصیات کی آوازیں محفوظ ہوگئیں جن کا دورانیہ ہزاروں گھنٹوں تک پہنچتا ہے۔
لطف اللہ خاں ایک اچھے ادیب بھی تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ پہلوقیام پاکستان سے قبل عدیل کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔ ان کی یادداشتوں کے مجموعے تماشائے اہل قلم، سرُ کی تلاش اورہجرتوں کے سلسلے کے نام سے اور ایک سفر نامہ زندگی ایک سفر کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
لطف اللہ خاں کو ان کی کتاب ہجرتوں کے سلسلے پر 1999ءمیں وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ 7 ستمبر 2010ءکو اکادمی ادبیات پاکستان نے لطف اللہ خاں کو کمال فن ایوارڈ2009ءدیئے جانے کا اعلان کیا جبکہ 2011 ءمیں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا ۔ 3 مارچ 2012 کو لطف اللہ خان کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آ سودہ خاک ہوئے۔۔