Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا اور وہ 2 مارچ 1923ءکو شکارپور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن اور قانون کی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے 1950ءمیں کراچی میں وکالت کا آغاز کیا۔1946ءمیں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ”سفید وحشی“ شائع ہوا اس کے بعد ان کی کہانیوں کے کئی اور مجموعے شائع ہوئے جن میں پنھل کان پوئِی خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ اسی زمانے میں ان کی شاعری کی بھی دھوم ہوئی۔
ان کی روانی طبع اور برجستگی کو دیکھ کر کئی قادرالکلام اساتذہ بھی حیران رہ گئے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”بھور بھرے آکاس“ 1962ءمیں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس مجموعہ پر 1964ءمیں حکومت نے پابندی لگادی۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ”کلھے پاتم کینرو“ 1963ءمیں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ بھی 1968ءپابندی کی زد میں آگیا۔ شیخ ایاز نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور ان کی اردو شاعری کے مجموعے بوئے گل نالہ دل، کف گلفروش اورنیل کنٹھ اور نیم کے پتے کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی سندھی شاعری کا ایک اردو ترجمہ بھی ”حلقہ مری زنجیر کا“ کے نام سے شائع ہواتھا۔ شیخ ایاز کا ایک بڑا کارنامہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ”شاہ جو رسالو“ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ ایاز کے اس ترجمے کی وساطت سے شاہ لطیف کا پیغام اردوداں طبقے تک بھی پہنچا۔ شیخ ایاز کے کئی نثری کارنامے بھی اہل نظر سے داد حاصل کرچکے ہیں۔ جن میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ”بقول ایاز“، خطوط کا مجموعہ ”جے کاک ککوریا کا پڑی“، مضامین کا مجموعہ” بھگت سنگھ کھے فانسی“ اور یادداشتوں کے مجموعے ”کراچی جا ڈینھن ئِ رایتون“ اور ”ساہیوال جیل جی ڈائری“ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ 1976ءمیں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ بھٹ شاہ میں شاہ لطیف کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا اور وہ 2 مارچ 1923ءکو شکارپور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن اور قانون کی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے 1950ءمیں کراچی میں وکالت کا آغاز کیا۔1946ءمیں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ”سفید وحشی“ شائع ہوا اس کے بعد ان کی کہانیوں کے کئی اور مجموعے شائع ہوئے جن میں پنھل کان پوئِی خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ اسی زمانے میں ان کی شاعری کی بھی دھوم ہوئی۔
ان کی روانی طبع اور برجستگی کو دیکھ کر کئی قادرالکلام اساتذہ بھی حیران رہ گئے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”بھور بھرے آکاس“ 1962ءمیں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس مجموعہ پر 1964ءمیں حکومت نے پابندی لگادی۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ”کلھے پاتم کینرو“ 1963ءمیں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ بھی 1968ءپابندی کی زد میں آگیا۔ شیخ ایاز نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور ان کی اردو شاعری کے مجموعے بوئے گل نالہ دل، کف گلفروش اورنیل کنٹھ اور نیم کے پتے کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی سندھی شاعری کا ایک اردو ترجمہ بھی ”حلقہ مری زنجیر کا“ کے نام سے شائع ہواتھا۔ شیخ ایاز کا ایک بڑا کارنامہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ”شاہ جو رسالو“ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ ایاز کے اس ترجمے کی وساطت سے شاہ لطیف کا پیغام اردوداں طبقے تک بھی پہنچا۔ شیخ ایاز کے کئی نثری کارنامے بھی اہل نظر سے داد حاصل کرچکے ہیں۔ جن میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ”بقول ایاز“، خطوط کا مجموعہ ”جے کاک ککوریا کا پڑی“، مضامین کا مجموعہ” بھگت سنگھ کھے فانسی“ اور یادداشتوں کے مجموعے ”کراچی جا ڈینھن ئِ رایتون“ اور ”ساہیوال جیل جی ڈائری“ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ 1976ءمیں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ بھٹ شاہ میں شاہ لطیف کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا اور وہ 2 مارچ 1923ءکو شکارپور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن اور قانون کی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے 1950ءمیں کراچی میں وکالت کا آغاز کیا۔1946ءمیں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ”سفید وحشی“ شائع ہوا اس کے بعد ان کی کہانیوں کے کئی اور مجموعے شائع ہوئے جن میں پنھل کان پوئِی خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ اسی زمانے میں ان کی شاعری کی بھی دھوم ہوئی۔
ان کی روانی طبع اور برجستگی کو دیکھ کر کئی قادرالکلام اساتذہ بھی حیران رہ گئے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”بھور بھرے آکاس“ 1962ءمیں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس مجموعہ پر 1964ءمیں حکومت نے پابندی لگادی۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ”کلھے پاتم کینرو“ 1963ءمیں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ بھی 1968ءپابندی کی زد میں آگیا۔ شیخ ایاز نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور ان کی اردو شاعری کے مجموعے بوئے گل نالہ دل، کف گلفروش اورنیل کنٹھ اور نیم کے پتے کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی سندھی شاعری کا ایک اردو ترجمہ بھی ”حلقہ مری زنجیر کا“ کے نام سے شائع ہواتھا۔ شیخ ایاز کا ایک بڑا کارنامہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ”شاہ جو رسالو“ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ ایاز کے اس ترجمے کی وساطت سے شاہ لطیف کا پیغام اردوداں طبقے تک بھی پہنچا۔ شیخ ایاز کے کئی نثری کارنامے بھی اہل نظر سے داد حاصل کرچکے ہیں۔ جن میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ”بقول ایاز“، خطوط کا مجموعہ ”جے کاک ککوریا کا پڑی“، مضامین کا مجموعہ” بھگت سنگھ کھے فانسی“ اور یادداشتوں کے مجموعے ”کراچی جا ڈینھن ئِ رایتون“ اور ”ساہیوال جیل جی ڈائری“ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ 1976ءمیں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ بھٹ شاہ میں شاہ لطیف کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا اور وہ 2 مارچ 1923ءکو شکارپور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن اور قانون کی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے 1950ءمیں کراچی میں وکالت کا آغاز کیا۔1946ءمیں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ”سفید وحشی“ شائع ہوا اس کے بعد ان کی کہانیوں کے کئی اور مجموعے شائع ہوئے جن میں پنھل کان پوئِی خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ اسی زمانے میں ان کی شاعری کی بھی دھوم ہوئی۔
ان کی روانی طبع اور برجستگی کو دیکھ کر کئی قادرالکلام اساتذہ بھی حیران رہ گئے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”بھور بھرے آکاس“ 1962ءمیں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس مجموعہ پر 1964ءمیں حکومت نے پابندی لگادی۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ”کلھے پاتم کینرو“ 1963ءمیں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ بھی 1968ءپابندی کی زد میں آگیا۔ شیخ ایاز نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور ان کی اردو شاعری کے مجموعے بوئے گل نالہ دل، کف گلفروش اورنیل کنٹھ اور نیم کے پتے کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی سندھی شاعری کا ایک اردو ترجمہ بھی ”حلقہ مری زنجیر کا“ کے نام سے شائع ہواتھا۔ شیخ ایاز کا ایک بڑا کارنامہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ”شاہ جو رسالو“ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ ایاز کے اس ترجمے کی وساطت سے شاہ لطیف کا پیغام اردوداں طبقے تک بھی پہنچا۔ شیخ ایاز کے کئی نثری کارنامے بھی اہل نظر سے داد حاصل کرچکے ہیں۔ جن میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ”بقول ایاز“، خطوط کا مجموعہ ”جے کاک ککوریا کا پڑی“، مضامین کا مجموعہ” بھگت سنگھ کھے فانسی“ اور یادداشتوں کے مجموعے ”کراچی جا ڈینھن ئِ رایتون“ اور ”ساہیوال جیل جی ڈائری“ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ 1976ءمیں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ بھٹ شاہ میں شاہ لطیف کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔