ذوالحج کا مہینہ سیدنا حضرت ابراھیم علیہ السلام ،حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لازوال کرداروں ان کے بےمثال طرزعمل کی داستان سناتا ہے۔یہ داستان پختہ ایمان،یقین کامل،توکل،جدوجہد مسلسل،اطاعت،حاضر دماغی اور بڑے مقصد کو مدنظر رکھنے کی داستان ہے۔اگر ہم غور کریں تو یہی وہ خوبیاں ہیں جو نہ صرف شخصیات کو ابدی حیات عطا کرتی ہیں بلکہ ایک قوم کی تعمیری ضروریات پورا کر کے اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کرتی ہیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی پیاری بیوی حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو اپنے ننھے بیٹے سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ کے حکم پر ایک بے آب و گیا صحرا میں چھوڑ جاتے ہیں۔بیوی وہ جو بادشاہ کی بیٹی ہے بیٹا وہ جو بڑی مرادوں کے بعد پیدا ہوتا ہےاور صحرا ایسا کہ جہاں سبزے کا ایک ذدہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔
اب تصور کیجئے حالات کی سنگینی کا آزمائش کی سختی کا لیکن اس عظیم خاندان کے لب پر شکوہ نہیں آتا جن کے لازوال کردار اور عملی صبر و استقامت کی مثالیں قرآن کریم میں بطور ماڈل پیش کی گئی ہیں۔ زندگی کی مدو جزر اور فلسفہ حیات کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم میں رول ماڈل سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ و صاحب زادے کو پیش کیا گیا ہے۔یہ مثال ہے اس عظیم توکل کی کہ رب تعالی نے بے وجہ اس آزمائش میں نہیں ڈالا صدقے جائیے اس اطاعت پر کہ ایک باپ اپناقیمتی خاندان حکم الہی پر بے یارومددگار چھوڑ جاتا ہےاور صدقے جائیے اس فرمانبرداری اور حکم الہٰی کے ادراک پر یہ عظیم بیوی بھی بلا چوں چرا حکم الہی بجا لاتی ہیں دل کی بے چینی کی پیاس کو خدا کے ساتھ کے یقین کے پانی کی پیاس سے بجھاتی ہیں۔
یہ عمل رب کو اتنا پسند آتا ہے کہ تا ابد ان پاک ہستیوں کے اعمال کو عبادات کی شرائط بنا دیا جاتا ہے۔تاریخ کہتی ہے کہ دنیا کی عظیم تہذیبوں کا ظہور دریاوں کےکنارے ہوا اور خوشحالی و شان و شوکت کے سائے تلے تہذیب و تمدن پروان چڑھتی ہیں لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم تہذیب جو ہزاروں سالوں کے اتار چڑھاؤ اور تلخیوں و ہنگاموں کے باوجود انسانیت کی رہبری و دانش مندی کے لئے زندہ و تابندہ ہے ایک بے آب و گیا صحرا میں ایک خاندان کی قربانیوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ حکمت خداوندی اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ نظام زندگی و موت اور تخلیق و تدبیر کی دینا میں ہر فرد کا ہر عمل ہر وقت قیمتی اور موثر ترین ہونے کے ساتھ ریکارڈ کا حصہ اور جزاء خیر کا حق دار ہے انقلابات اور انسانوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو فرد مرد و عورت اور بچہ و بزرگ جوانی کی دہلیز پر لڑکی ہو یا بچوں و بچیوں کی ماں جیسی عظیم شخصیت سب خیر و برکت کے برابر حق دار ہوتے ہیں الہامی راہنمائی و دانش مندی اور نظام رسالت و نبوت میں،بقول حکیم الامت حضرت اقبال لاہوری کے
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ،
آج 21 ویں صدی میں ایک بار پھر سے اسی ابدی اور پائدار ترقیاتی تہزیب نے دوبارہ زندگی حاصل کرنی ہے اور انسانیت کی رہبری و تعمیر نو کے ساتھ لمحہ موجود میں انسانی بے اطمینانی اور سکون کو فعال کرنے کے لئے ضابطے و میکنزم تشکیل دینا ہے تو انہی اسباق کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ اور اسی لئے کہا گیا جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں سے زیادہ مقدس و پاکیزہ اور پرنور و بابرکت دن سال بھر میں نہیں آتے ہیں.
محض زبان سےخدا کے ذکر کی بجائے نظام زندگی و سماجیات اور سوچ وفکر کے دھارے اس کی یاد سے منور کرنے ہو گے ۔مالک ارض و سماء پر یقین کامل کر کے لمحہ موجود میں اپنی جدوجہد کا رخ الہامی راہنمائی و روشنی اور شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑنا ہو گا اسی کی اطاعت کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اپنے علم و دماغ کو آج کی دنیا یعنی وقت کے دوپہر کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا ہو گا صرف آج کی بجائے آنے والے کل کے لیے سوچ بچار کرنی ہو گی۔اپنے کردار سازی اور قانون سازی کی درست سمت کا تعین کیے بغیر ہم اکیسویں صدی کی تیز رفتار دنیا کے باسی نہیں بن پائیں گے اور نہ ہی دور حاضر کی پیچیدگیاں انسانی ذہن ودل میں شکوک و شبہات اور بے یقینی کے جو بیج ڈال رہی ہیں ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے صرف واجب اور نفلی عبادات سے آگے بڑھ کر ان عبادات کے مقاصد کو عملی زندگی کے تناظر سے جوڑنا ہو گا۔بطور امت مسلمہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جس کا بوجھ ہمیں بہر صورت اٹھانا ہے ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
آج کا دور اندھا دھند اطاعت کی بجائے قرآنی تحقیق کے پیغام تفکر و تدبر کے ساتھ دل کو مطمئن کر کے ایک نئی دنیا بسانے کا دور ہے۔تاکہ اس کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی شخصیات دنیا بدلنے کی صلاحیت رکھیں۔ اور اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں اسوہ ابراھیمی کی روشنی و توانائی کشید کرتے ہوئے محکوم قوموں اور ملکوں سمیت پوری انسانیت کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت عملی تخلیق کریں اور ممکنہ طور پر استعماری طاقتوں کے ظلم و استہزاء اور جبر و ظلم سے تنگ انسانیت کو رحمت و برکت اور انصاف و ترقی کے آغوش میں ابدی پناہ عطاء فرمائے یہی دراصل وقت کے دوپہر میں زندہ سوال اور چیلنج ہے جس کے جواب پانے کے لئے سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی لازوال داستان اور بے مثل دانش مندی کی آرزو مندی اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے میں تشریح و تعبیر نو کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و فیصلوں کے ذریعے نوجوانوں اور طلباء وطالبات کے لئے نئے عمرانی و سماجی شعور کی بیداری اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انسانوں کے اطمینان و سکون کے لئے نئی دینا تشکیل دیا جاسکے اور قومی بقاء کی خاطر ممکنہ طور پر استعمال ہونے والے جذبات و احساسات اور معاشرتی و تمدنی زندگی کے وسائل عالم انسانیت کے مجموعی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں کام آسکیں