پندرہ فروری کو ہر عہد کے مقبول ترین شاعر مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کا یوم وصال ہےجنہیں ہم سے بچھڑے ہوے 152 برس سے بیت گئے مگر اس کے باوجود بھی وہ شاعری کے افق پر غالب ہیں، جن کی شاعری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے اور ہر زمانے کی شاعری ہے۔ اسد اللہ خان غالب اس عہد کے ترجمان ہیں جس نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہوتے ہوئے دیکھا اور سیاسی و تہذیبی بدحالی کے چشم دید گواہ رہے۔ غالب نے زندگی کی آسودہ حالی بھی دیکھی اور آخری عمر میں معاشی پریشانی کا بھی شکار رہے۔ غالب کی شاعری کا افق بہت وسیع ہے ۔ ان کی فکری آزادی ،فلسفئہ حیات و کائنات، ہمہ جہتی اور جدت طرازی نے انہیں معاصرین میں منفرد مقام عطا کیا ۔ حالا نکہ انہیں اپنے متقدمین اور ہم عصروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ جس پر غالب کو کہنا پڑا کہ :
“نہ ستائش کی تمنا ،نہ صلے کی پروا
گر نہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی”
غالب کے کلام نے ان کی حیات میں ہی ناقدین و مداحین کی توجہ حاصل کرلی تھی مگر ان پر اصل کام بیسویں صدی میں ہوا ۔ اکیسویں صدی بھی غالب کے نام ہی رہی اور اب بائیسویں صدی بھی غالب نام آور ہی کی ہے۔ یہی ان کی عظمت کا اعتراف ہے کہ وہ بیک وقت ماضی ، حال اور مستقبل کے شاعر ہیں۔
“آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے”
انجمن ترقی اردو نے غالب کی ان ہی خوبیوں کے تذکرے اور ان کے فن کی نئی جہتوں پر تازہ تخلیقات کو سامنے لانے کے لیے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر حکیم ظل الرحمٰن، ڈاکٹر یونس حسنی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر مظفر علی شہ میری، ڈاکٹر شبیر احمد قادری، ڈاکٹر رضا حیدر، محمود شام، جلیل عالی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط، کرامت اللہ غوری، فاروق عادل، مبین مرزا اور خالد معین سمیت متعدد غالب شناسوں نے اظہار خیال کیا ہے۔
اس طرح یہ پرچہ ایک دستاویز کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس پرچے کی تدوین و تیاری میں ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے جس عرق ریزی سے کام لیا ہے، اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ غالب کی اس برسی پر یہ مجلہ جو دراصل ایک دستاویز ہے، ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی علما یونیورسٹی کے میڈیا سائنس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور انجمن ترقیِ اردو پاکستان کے علمی وادبی جریدوں “قومی زبان” اور تحقیقی پرچے “اردو” کی نائب مدیرہ ہیں۔