پی ڈی ایم کی تحریک بہت زور و شور کے ساتھ شروع ہوئی ڈیڈ لائنیں استعفی سے لیکر لانگ مارچ دہمکیاں۔۔ استعفی اور ڈیڈ لائنوں سے نکلنے والی ہوائیں اتنے زور شور لیک ہوئیں کہ ..۔۔
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا۔۔۔
لانگ مارچ کی دھمکی تو کسی نہ کسی حدتک باقی ہے، لیکن توپوں کا رُخ جو پہلے “غیر مرئی” طاقتوں کی طرف تھا اب منتقل ہو کر مرئی “بچّے جموروں “ کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔بلکہ “غیرمرئی” طاقتوں کو للکارنے والے اب میٹھے میٹھے گِلوں پر آچُکے ہیں۔ یہ اب کیا ہے؟؟؟ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟؟
یادرہے کہ مولانا فضل الرحمن نے سب سے پہلے طبل جنگ “بچّہ جمورا” کے مداریوں کے خلاف ہی نہیں بجایا تھا بلکہ اس کے بعد نواز شریف نے بھی بلند آہنگ میں “مقدس ناموں” کی مالا جپ کر بظاہر بلاسفیمی کا ارتکاب کیا تھا۔ اس لئے کسی نہ کسی بہانے سجدہ سہو کرنا ہی پڑا۔اور اب وہ طبل جنگ ہلکی تھاپ والا طبلہ نوازی میں بدل گیا۔
یاد رہے ۲۰۱۹ کے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے و لانگ مارچ کا بوریہ بستر لپٹنے کا سبب بھی ن لیگ کی سرد مہری اور “مداریوں” کے وعدے، ہمارے “مداری” وعدے کرتے ہیں لیکن بعد میں۔۔ رات گئی بات گئی۔
درحقیقت موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی نااہل ترین ہی نہیں غیر سنجیدہ ترین بھی ہے، جس کے نتیجے میں “اگر” چاہے بھی تو کچھ ڈیلیور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ “مداری” کا بھی پیمانہ صبر لبریز اور نئے بندر کی تلاش کا عمل شروع ہو چکا ہو،اسی اُمید کے سہارے سارے “بندر” قطاریں لگائے نگاہ کرم کے منتظر ہیں۔
بس اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے تھوڑا بہت خوخیانا تو ضرورت ہوتی ہے ساتھ میں تھوڑا ناریل وکیلے کا راتب بھی منافعے میں مل جاتا ہے۔کچھ کی ضمانت ہو گئی ، کوئی گوشہ عافیت میں بٹھا دیا گیا اور کسی کے خلاف نیب کو ہلکے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔
اگر موجودہ “بچّہ جمورا” کے ستاروں میں تھوڑی بہت گردش آگئی تو انہی میں سے کسی کے نام قرعہ کھُلنا ہے کوئی آسمان سے تھوڑی لائیں گے؟ اس لئے اگر واقعتاً استعفی دے ہی دیتے تو سینٹ کے انتخابات میں حاضر سروس بچّہ جمورا کو مکمل کھلا میدان مل جاتا کہ بعد میں بھی اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوتی تو سینٹ کی سیٹ تو پکّی ہی رہتی ہے۔
اس لحاظ سے یہ یوٹرن یا کچھ بھی کہیں سیاسی طور پر بہتر فیصلہ ہی سمجھا جائے گا۔ لیکن یوٹرن یوٹرن ہوتا ہے مولانا فضل الرحمن کے بزرگ تو ہر قسم کی بدعت کی مخالفت کرتے تھے اب مولانا اس “بدعت حسنہ” کو قبول کرکے ہمارے دوسرے مکتب فکر کے بھائیوں کو بھی خوش کرلیں کہ جب سیاسی بدعت حسنہ قبول کرلی تو ان کی “بدعت حسنہ” بھی قبول کرکے اتحاد بین المسلمین کا سبب بنیں۔
ایک گھسا پٹا قصہ ہے کہ ایک انتہائی شریر بچّہ کے مرض شرارت کے علاج کے لئے اسے ڈھیلی نیکر پہنادی گئی کہ اس کے بعد وہ بچّہ شرارت کے قابل نہیں رہا کہ اس کے ہاتھ ہروقت نیکر سنبھالنے میں مصروف رہنے لگے۔
اسی طرح ۲۰۱۸ کے انتخابات میں مداری نے اس بات کا اہتمام کیا کہ بچّے کو ڈھیلی نیکر پہنائی جائے اس لئے تین سال سے سوائے “نیکر” سنبھالنے کے کچھ نہ کرسکا۔
انتخاب کے فوری بعد اس فقیر نے اپنے پی ٹی آئی کے احباب سے عرض کی تھی کہ اس ڈھیلی نیکر پہننے کی بجائے وزیراعظم فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرکے قوم سے نئے اور بھرپور مینڈیٹ کی درخواست کریں۔۔ خیر دوبارہ انتخابی پُل صراط سے گذرنا کس کو پسند ہوتا انجام وہ ہی نہیں بلکہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
اب بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ممکنہ طور پر آنے والی نئی حکومت کے لئے ڈھیلی نیکر تیار ہورہی ہے۔ سینٹ کے انتخابات کے بعد ممکنہ طور پر سینٹ کی اکثریت بھی پی ٹی آئی کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ اس کے بعد اگر کوئی ان ہاؤس تبدیلی بھی ہوئی تو آنے والی حکومت کے لئے مضبوط اپوزیشن اور سینٹ میں پی ٹی آئی کی اکثریت ڈھیلی نیکر بن کر درد سر ہی رہے گی۔
اسمبلی کی تحلیل و نئے انتخابات کی صورت میں بھی سینٹ میں پی ٹی آئی کی اکثریت کسی بھی دوسری پارٹی کی حکومت کے لئے قانون سازی میں رُکاؤٹ ہی رہے گی۔
اس “بچّہ جمورے” کے توقعات سے زیادہ نااہلی کے نتیجے میں اب (فوجی و نام نہاد سولین کی مشترکہ حکومت کا)یہ ماڈل ناکامی کی طرف جارہا ہے، اس حقیقت کو سوائے “بچّے جمورے” کے تقریباً سارے ہی کھلاڑی سمجھتے ہیں اور ان وقتا فوقتا آنے یا لائے جانے والے تلاطموں کا ایک مقصد کچھ حدتک “مداری” کے موڈ کو چیک کرنا بھی ہوتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت کے ابتدائی غیر ذمہ دارانہ بیانات میں بجائے “بچّے جمورے “ کو نشانہ بنانے کے، براہ راست مداری پر حملہ کرکے اسے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی موجودہ “بچّے جمورے” ہی پر انحصار کرنے پر مجبور کردیا۔
حالانکہ مناسب طریقہ یہی ہوتا کہ “مداری” کو الگ اور “بچّے جمورے” کو ٹارگیت کرکے “تقسیم کرو اور حکومت پکڑو” کی چال استعمال کرتے۔ بعد میں تھوڑی سی تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مولانا فضل الرحمن نہ چاہنے کے باوجود اپنے جذبات پر وقتا فوقتا قابو نہیں کر پارہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مداری اس بچّہ جمورے سے مایوس ہو کر متبادل جو کہ میدان میں موجودہ قوتوں میں ہی آسکتا ہے پر بھی انحصار نہ کر پائے کہ وہ بھی “مداری” کو قابل قبول نہ رہیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟
برما کے فوجی انقلاب نے کچھ خطرے کی گھنٹیاں بھی بجادی ہیں۔ برما کے فوجی انقلاب کی اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حالیہ انتخابات میں آنگ سانگ سوچی کی NLD پارٹی کو بھرپور اکثریت مل گئی تھی۔ اور اتنی طاقتور حکومت فوجی جنتا کے لئے ناقابل قبول تھی۔
اس لئے جنتا نے پہلے تو انتخابات میں دہاندلی کا الزام لگایا ۔۔ جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا۔۔ اس کے بعد جنتا نے فوجی بغاوت کردی۔
اس بات سے یہ سامنے آئی کہ “مداری” کہاں کا بھی ہو اسے “بچّہ جمورا” ڈھیلی نیکر والا ہی چاہیے تھا۔ہمارے ہاں بھی ہیوی مینڈیٹ والوں (بھٹو اور نواز شریف ) کا انجام تاریخ کا حصہ ہے۔
روایتی طور پر ہماری فوجی و غیر فوجی حکومتیں امریکی و یوروپی فوجی و اقتصادی لائف لائن پر انحصار کرتی رہی ہیں ۔ اس انحصار نے ان ممالک کو ہمارے معاملات میں اثرانداز ہونے کے لئے ٹھیک ٹھاک دلیل بنادیا تھا۔
چونکہ فوجی حکومتیں ان سرپرستوں کے لئے ناقابل قبول سمجھی جاتی تھیں (جب تک ان کے مفاد میں نہ ہو) اس لئے موجودہ سولین چہرے کے ساتھ چھپی ہوئی فوجی حکومت کا ماڈل سب کے لئے قابل قبول تھا۔
موجودہ صورتحال میں “بچّہ جمورا” ناکام، کوئی دوسرا بچّہ جمورا قابل اعتماد نہیں ( موجودہ والا ضدی ہے سر پھرا بھی ہے لیکن مداری کا تابع بلکہ تابع مہمل ہے) اس حالت میں مداری کے نقاب اُتارکر بذات خود ہی اسٹیج پر آنے کے امکان کو کم ہی سہی مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا ۔
چونکہ موجودہ صورتحال میں ہمارا اقتصادی و فوجی انحصار امریکہ و مغربی ممالک پر نہ ہونے کے برابر ہے، اور اس کے ساتھ انکی ہمارے اوپر اثر انداز ہونے کی صلاحیت روبہ زوال ہے۔چین جس پر ہمارا انحصار بڑہتا جارہا ہے کو جمھوریت یا آمریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہی کچھ برما میں ہورہا ہے۔
اس صورت میں امریکہ و یورپ کے پاس صرف اور صرف ایک ہتھیار باقی بچا ہے ہے جو کہ وہ برما پر استعمال کرچکا ہے جب اس نے برمی فوجی اور اعلی سرکاری حکام کے ویزوں پر پابندی لگادی ۔
صرف یہی خوف ہے جو ہمارے پاپا جونز کو روک سکتا ہے کہ تقریباً تمام ہی فوجی، سیاسی و سول اشرافیہ کی اولاد و اثاثے امریکہ و برطانیہ میں ہیں۔ شاید ان مفادات کی بناء پر نقاب پوشی جاری رہے۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔مشتری ہو شیار باش۔