کشمیر کی گزشتہ ستر سالہ تاریخ اس حقیقت پر دلیل ہے کہ ہندوستان کی طرف کشمیریوں کا کبھی اکثریتی جھکاؤ نہیں دیکھا گیا۔ لفظ اکثریت کہنا غلط ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیری من حیث القوم اور جموں کا پورا مسلم بیلٹ اپنے اندر گزشتہ ستر سالوں سے ہند مخالف جذبہ پالے ہوئے ہیں۔ سید علی گیلانی کی رحلت کے بعد سوال یہ ہے کہ اب کے بعد کیا ہو گا۔
شیخ عبداللہ کی مقبولیت عوام میں ایک طرف لیکن عوام کو ہند نواز بنانے میں وہ ہمیشہ ناکام ہوا۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ محاذ رائے شماری کی تحریک ایک طرف دبا دی گئی تو دوسری طرف موئے مقدس کی تحریک نے جنم لیا۔ ہندوستان کتنی بھی کوشش کرتا کہ مزاحمتی جذبہ ماند پڑ جائے لیکن کبھی نہ کبھی مزاحمتی تحریک کسی نہ کسی شکل میں نمودار ہوتی رہی۔ مہاراجا کا فرضی الحاق شیخ عبداللہ کی حمایت کے باوجود عوامی تصدیق ابھی تک حاصل نہ کرسکا۔ ہندوستان نے دھونس، دباؤ، لالچ سب پینترے اپنائے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا۔ مسلم کانفرنس کی ساری قیادت ملک بدر کردی گئی۔
مقبوضہ کشمیر کی موجود مزاحمتی قیادت کے ساتھ بے پناہ زیادتیاں کیں۔ شیخ، مفتی، بخشی، صادق وغیرہ کے زرئعے لوگوں کو فریب دینے کی بے پناہ کوششیں بھی کی۔ لیکن نا ہی سختی نا ہی فریب مزاحمتی تحریک کو ختم کرسکی۔ تاریخ گواہ ہے شیخ عبداللہ نے قوم کے ساتھ غداری کی۔ ایک وقت تھاشیخ عبداللہ نے محاذ رائےشماری کے لئے مسلسل کوشش کی اور عوام کے ہیرو بن گئے لیکن جب 1975 میں انہوں نے اندراگاندھی کی جھولی میں سر ڈالا تو اپنا دوغلہ پن پھر سے ظاہر کیا۔ شیخ کی عوامی مقبولیت کے باوجود عوام اس اقدام میں اس کے ساتھ ہمیں کھڑے دکھائی نہیں دیتے۔ بلکہ اس قد آور قائد کے خلاف نفرت میں اضافہ ہی ہم نے دیکھا ۔
اس نے لاکھ کوشش کی اپنے کارندوں کے ذریعے اور ایجنسیوں کے ذریعے ہر اس آواز کو دبانے کی جو مزاحمت کی صدا بلند کرتا لیکن مزاحمت ماند پڑنے کے بجائے اور تیز ہوگئی۔ اس نے سبھی پینترے آزمائے لیکن وہ عوام کو ہندوستانی نہ بنا پایا۔ 1988 میں مسلح تحریک شروع ہوئی تو اس وقت سید علی شاہ گیلانی اسمبلی ممبر تھے مسلح تحریک شروع ہوتے ہی اس تحریک کو عوامی تائید ملی، گیلانی صاحب کو مین اسٹریم سیاست کو ترک کر دینا پڑا اور انہوں نے ہند مخالف مزاحمت کھل کر شروع کی، اس میں کوئی شک نہیں کہ گیلانی صاحب کو جماعت اسلامی کا ساتھ حاصل تھا لیکن جب 1996 میں جماعت نے یو ٹرن لیا تب بھی گیلانی صاحب کی ذاتی مقبولیت کا گراف گھٹنے کے بجائے بڑھ گیا۔
حریت کانفرنس یا گیلانی صاحب کیا ہیں وہ عوامی sentiment کے نمائندے ہیں۔ جب انہوں نے جماعت سے الگ ہو کر تنظیم بنائی تو ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی کیونکہ وہ جس چیز کی نمائندگی کرتے تھے وہ عوام کے دلوں کی آواز تھی۔ وہ اپنے موقف میں کبھی لچک نہ لائے، جب پاکستان نے گیلانی صاحب والی حریت کو سائیڈ لائن کیا اور حریت کے دو حصے کئے، حریت کانفرنس گیلانی کی سپورٹ بند کی گئی، مشرف کے دور میں گیلانی صاحب والی حریت کو بالکل ہی نظر انداز کیا گیا اس کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہ آئی، کیونکہ پاکستان کے اس رویے کو کشمیر کے سواد اعظم نے کبھی تسلیم نہ کیا، کشمیر میں جس طرح نیشنل کانفرس، کانگریس یا دوسری ہند نواز تنظیموں کے لئے سازگار ماحول ہے اس طرح کا ماحول حریت کے پاس نہیں ہے نا ہی ان کے پاس اتنا مظبوط تنظیمی ڈھانچہ ہے اس کے باوجود وہ یہاں کی ہر پارٹی سے زیادہ مضبوط ہے اور مقبول بھی، کیونکہ حریت کشمیری قوم کے جذبات اور خواہشات کی ترجمانی کرتی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہند مخالف جذبہ اتنا گہرا ہے کشمیریوں میں کہ کبھی کھبی اس کے اظہار کے لئے قیادت پر بھی عوام کا انحصار نہیں رہتا اور عوامی تحریک کو محض رخ دینے کے لئے حریت قیادت کو آگے آنا پڑا۔ 2008، 2010 یا 2016میں جو عوامی مزاحمت ہوئی، اسے سمجھنے کے لئے کافی ہے، 2016 کی مزاحمت اس قدر اچانک تھی کہ حریت کانفرنس کو بھی اس کو سمجھنے میں کئی دن لگ گئے۔
گیلانی صاحب کے انتقال سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک خلا پیدا ہوا ہے لیکن یہ خلا زیادہ دیر نہیں رہے گا، ہندوستان کی کشمیر کے تئیں مسل پاور اسٹریٹجی اور کشمیریوں پر بھروسہ نہ کرنے کی وجہ سے لوگ اور متنفر ہوئے ہیں۔ اس نفرت سے جذبات اور قوی ہونگے اور یقیناً کچھ افراد ایسے ضرور نکلیں گے جو اس خلا کو پورا کریں گے، مزاحمتی لیڈر کے لئے کانسچونسی بنانا کوئی مشکل نہیں ہوتا، یہاں کانسچونسی پہلے سے موجود ہے، بلکہ ہندوستان اور کشمیریوں میں خلیج اور بڑھ گئی ہے۔ عوامی جذبات کو جلد ہی کوئی رخ دینے والا ملے گا اور عوام کو ایک باصلاحیت نمائندہ بھی، مسرت عالم یا ان جیسے کئی جوان رہنما ہیں جن پر لوگوں کو بھروسہ ہے، ہندوستان زیادہ دیر ان کو بند بھی نہیں رکھ سکتا ہے ، بلکہ جذبات کے طوفان کو روکنے کے لئے انہیں ان ہی میں سے کسی کی ضرورت پڑے گی۔