پاکستانی ریاست اور معاشرہ مختلف حوالوں سے عالمی و مقامی تنظیموں اور مغربی حکومتوں کی تنقید کی زد پر رہتا ہے۔ مروجہ انسانی حقوق کے درجنوں پہلو ایسے ہیں، پاکستان میں جن کی خلاف ورزی کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی مذہب تبدیلی کا ہے جس کے بارے میں بالعموم یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور پھر مسلمان مردوں سے ان کی شادی کردی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسبان سمجھی جانے والی غیرسرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار ہندو ،دلت اور عیسائی خواتین کو اس مہم کا خصوصی شکار باور کرواتے ہیں اور کثیر تعداد میں ہندو اوردلت آبادی کا مسکن ہونے کی بنا پر صوبہ سندھ اس معاملے میں شہ سرخیوں میں رہتا ہے۔
یہ تنظیمیں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے اور واقعات کے ایک گنجلک سلسلےکے ذریعے اپنے موقف کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں، سول سوسائٹی کا تخلص کرتے مرد و خواتین کا احتجاج ریکارڈ ہوتا ہے۔مضامین لکھے جاتے ہیں۔ متاثرہ خاندان زنجیرِ عدل ہلاتے ہیں جس میں انھیں ملکی و غیرملکی تنظیموں کی امداد اور تعاون بھی میسر آجاتا ہے۔کبھی شدت پسند ہندوستانی وزیرِ داخلہ امِت شاہ کے پیٹ میں “مظلوم” پاکستانی اقلیتوں کا مروڑ اٹھتا ہے تو کبھی مذہبی آزادیوں کی خاطر بنایا گیا امریکہ بہادر کا کمیشن “جبری مذہب تبدیلی کا شکار” ان اقلیتوں کے بہانے پاکستان پر چڑھ دوڑتا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ حرکت میں آتے ہیں اور یوں پاکستان کے خلاف مذہبی جکڑبندیوں اور انتہاپسندی کا مقدمہ مزید طویل ہوجاتا ہے۔
ریاستِ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اکثر پالیسیاں مغربی حکومتوں، اداروں اور این جی اوز کی ایما اور دباؤ پر تشکیل دی جاتی ہیں۔ پالیسیاں اور قوانین بناتے ہوئے زمینی حقائق، معاشرتی حساسیات اور آئینی محدودات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ حالیہ دنوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جب کہ پارلیمان کی راہداریوں میں ایک نئے بل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کا مقصد مبینہ طور پر”جبری تبدیلیِ مذہب” پر قابو پانا ہے۔ قانونی و آئینی باریکیوں اور شرعی تقاضوں سے قطع نظر یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جبری تبدیلیِ مذہب کے الزام کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی اس بڑی تعداد میں دیگرمذاہب کی خواتین اغوا کے بعد قبولِ اسلام پر مجبور کی جاتی ہیں؟کیا ہندو اور عیسائی خواتین کو بالجبر مسلمان مردوں سے بیاہنے کے واقعات فی الحقیقت موجود ہیں؟
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے گزشتہ سال ایک چشم کشا تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جو جبر کے زور پر مذہب تبدیلی کے پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس مہم کی تائید میں گردش کرتی تمام دستاویزات، ان میں بیان کردہ اعداد و شمار اور ان کے سارے دلائل کا انحصار چند اخباری خبروں اور مضامین پر ہے۔ عورت فاؤنڈیشن، ہندو پنچایت ، شرکت گاہ اور ایسی دیگر تنظیمیں اپنے مؤقف کو سہارا دینے کے لیے پہلے سے موجود چند رپورٹوں کا حوالہ دیتی ہیں ۔ تاہم آئی پی ایس کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ بطور حوالہ استعمال کی گئی رپورٹوں کا ذریعہ معلومات بھی غیرمصدقہ خبریں، سیاسی بیانات اور متضاد دعوے ہی ہیں۔ ان کی تیاری میں شاذ و نادر ہی کسی مبینہ ”مغوی خاتون“یا ”اغواکار“ مسلمان مرد کا مؤقف لیا جاتا ہے۔ تمام تر واویلا لڑکیوں کے والدین کے اس الزام کو بنیاد بنا کر کیا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی کو اغوا کرکےاس کی مرضی کے خلاف مذہب تبدیل کروایا گیا اور مسلمان مرد سے ہونے والی شادی میں بھی اس کی رضامندی شامل نہیں تھی۔ اس سب کے باوجود پروپیگنڈہ مشینری تو ایک طرف ، یورپی حکومتیں ، مغربی جامعات اور اقوام متحدہ جیسے ادارے بھی پاکستان کو مطعون کرنے کو انہی رپورٹوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔
مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف مہم چلانے والی تنظیموں کے اپنے دعوے بھی تضادات سے بھرپور ہیں۔ کچھ تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ سالانہ ۱۰۰۰ خواتین جبری شادی اور مذہب تبدیلی کا شکار ہوجاتی ہیں، جبکہ اس کے برعکس ایک اور دعوے کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد ماہانہ ۲۵ کے لگ بھگ ہےجو مجموعی طور پر سالانہ ۳۰۰ سے زیادہ نہیں بنتی۔ اگرچہ جبری تبدیلیِ مذہب کا کوئی ایک حقیقی واقعہ بھی قابلِ مذمت ہے اور متاثرہ فریق مکمل حق رکھتا ہے کہ اسے انصاف دلوایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق کے بالکل برعکس، تحقیقی اخلاقیات کا خون کرتے ہوئے ایسی رپورٹیں شائع کی اور پھیلائی جاتی ہیں جن سے ایک طرف تو پاکستانی ریاست اور سماج کا چہرہ مسخ کرنا مقصود ہے اور دوسری جانب اسلام کو تشدد پسند مذہب اور عام مذہبی طبقے کو وحشی اور متشدد کے طور پر پیش کرنا درکار ہے۔
آئی پی ایس کے محقق ڈاکٹر غلام حسین کئی برس سے اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کی تحقیق سے اخذ کردہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غیرمسلم خواتین کے قبولِ اسلام کے واقعات یقیناً وقوع پذیر ہورہے ہیں تاہم اکادکا واقعات کے علاوہ اس میں جبر کا پہلو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر لڑکیوں کے قبولِ اسلام کی پشت پر پسند کی شادی کی خواہش کارفرما ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ اگر لڑکی والدین کی مرضی کے بغیر، گھر سے بھاگ کر، یا خاندان سے چھپ کر شادی کرتی ہے تو اہلِ خانہ عزت بچانے کی خاطر اسے اغوا یا جبری استحصال کے ساتھ ہی نتھی کریں گے۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ نجی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اکثر افراد عام حالات میں تو پسند کی شادی کو لڑکی کا حق قرار دیتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو دقیانوسیت زدہ ٹھہراتے ہیں کہ یہاں لڑکیوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے، تاہم اگر کوئی بالغ غیرمسلم لڑکی اپنی مرضی کے تحت اسلام قبول کرکے پسند کی شادی کرلے تو یہی افراد اورتنظیمیں اپنے موقف کے برخلاف اہلِ خاندان کی حمایت میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔
انفرادی اور گروہی سطح پر کچھ لوگ اگر اسلام قبول کرتے ہیں تو اس میں کئی قسم کے معاشی اور معاشرتی محرکات کارفرما ہوسکتے ہیں تاہم یہ کہنا قرینِ قیاس نہیں ہے کہ یہ سب جبر کے زیرِ اثر ہو رہا ہے۔اسلام قبول کرنے کا ایک بڑا رجحان دلت برادری میں پایا جاتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو چاہے لاکھ اپنی الگ شناخت کا مطالبہ کرلے، ہندو اشرافیہ اسے اپنا حصہ ہی شمار کرتی ہے۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ لوگ ہندو کہلائے جانے کے باوجود ہندومت کے اندرونی تعصبات کا شکار ہیں اور اس بنا پر انھیں بہت سے مذہبی و معاشرتی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب اسلام اپنے آفاقی نظامِ مساوات کے سبب ایسی ہر تقسیم کی شدید مذمت کرتا اور اس کا عملی توڑ کرتا ہے۔ چنانچہ یہی دلت جب اسلام میں اپنا رتبہٴ انسانیت محفوظ تصور کرتے ہیں تو بلاتامل اسلام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ عیسائی اقلیت کا بھی ہے ۔
ایک اور دلچسپ بات جو آئی پی ایس کی رپورٹ میں بیان کی گئی ہے اس کے مطابق تبدیلیِ مذہب کے معاملے پر سرحدپار سے خصوصی دلچسپی لی جا رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں پاکستان میں تبدیلئ مذہب کے حوالے سے انٹرنیٹ پر مواد تلاش کرنے اور اس کا پرچار کرنے میں کافی نمایاں ہیں۔ خود ہندوستان کی کئی ریاستوں میں سرے سے تبدیلیِ مذہب ہی کو غیرقانونی قرار دے کر اب پاکستان میں مذہب کی تبدیلی کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ پس پردہ مقصد شاید یہی ہے کہ پاکستان میں بھی ہر قسم کی تبدیلیِ مذہب کے خلاف حالات سازگار کرکے بالآخر اس عمل ہی کو خلاف آئین بنا دیا جائے۔ حیران کن طور پر یہ ایجنڈا ان طبقات کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے جو اپنے تئیں شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے اور سچے علم بردار ہیں۔
ایک دہائی پر مبنی اس بے بنیاد پروپیگنڈے کا مذکورہ رد سامنے آنے کے بعد حکومتِ پاکستان، پارلیمان اور عدلیہ کی اصل ذمہ داری تو یہ تھی کہ وہ ایک جانب اس مہم کا حصہ بننے والی تنظیموں اور افراد کی نشان دہی کرکے ان کو کٹہرے میں کھڑا کرتے اور دوسری جانب عالمی سطح پر اس مہم کا مؤثر توڑ کرنے کے لیے قابلِ عمل اقدامات اٹھاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسا انتظام کیا جاتا جس کے تحت اسلام قبول کرنے کے خواہش مند خواتین و حضرات بغیر کسی خوف اور جھجک کے یہ قدم اٹھا سکتے اور بعد ازاں ان کا تحفظ بھی یقینی رہتا۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں کعبے کے پاسبان ہی صنم خانے کے مجاور بننے کو تیار بیٹھے ہیں۔