محترم سینیٹر مشاہداللہ خان اپنے نامہ اعمال لےکر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ امید اور دعا ہے کہ رب ذوالجلال ان سے مغفرت کا معاملہ فرمائے۔ آمین۔ محترم مشاہداللہ خان 1952ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی اور کالج تک تعلیم راولپنڈی میں ہی حاصل کی۔ انکے والدین غیرمنقسم ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو راولپنڈی کو اپنا مستقل مستقر بنایا۔
انکے مرحوم والدین دونوں ہی جماعت اسلامی پاکستان کے رکن تھے۔ محترم مشاہداللہ خان خود بھی طالبعلمی کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ اورعملی سیاست کے دوران پی آئی اے کےمزدوروں کی نمائندہ تنظیم پیاسی سے وابستہ رہے۔ اپنی طالبعلمی کے دوران ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں انہیں اور محترم جاوید ہاشمی کو سردیوں میں برف کی سِلوں پر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن اس مردِحر کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہیں آئی۔
مرحوم غلام اسحاق کے ہاتھوں نواز شریف کی منتخب حکومت کی برطرفی کے بعد مرحوم مشاہداللہ خان نوازشریف کی سیاسی جدوجہد کے راہی ہوگئے اور اپنی بقیہ سیاسی زندگی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ گزاری۔ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں نواز شریف نے انہیں بلدیہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ 12 اکتوبر 1999ء کے غیرقانونی انقلاب کے خلاف احتجاجاََ بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کے عہدہ سے مستعفیٰ ہوئے اور ریگل چوک کراچی میں مصنوعی انقلاب کو للکار کر بہادری اور سیاسی وفاداری کی نئی تاریخ رقم کی۔
لوگوں کےلئے شاید یہ بات حیران کن ہو کہ 1983ء میں پی آئی اے سے سیاسی بنیادوں پر جبری برطرفی کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ شہید محمد صلاح الدین، مرحوم سید محمدعلی (عرب نیوز جدہ والے اور ایم کیو ایم کے بانی چئیرمین عظیم احمد طارق مرحوم کے حقیقی ماموں) اور سینئیر صحافی نصیر احمد سلیمی کی شراکت داری میں شائع ہونے والے ہفت روزہ تکبیر میں شعبہ مارکیٹنگ کے سربراہ کی حیثیت میں خدمات انجام دیں۔
موجودہ ناکارہ، نااہل اور کرپٹ حکومت کو بے نقاب کرنے اور آڑے ہاتھوں لینے والوں میں سینیٹ آف پاکستان میں وہ سب سے توانا اور موثر آواز تھے، اپنی تقریر میں شعروں کے برجستہ اور برمحل استعمال سے وہ اشعار کی معنویت میں اضافہ کرتے۔
بلا شبہ انکی وفات سے سیاست میں دیانت، متانت، بردباری اور وفا شعاری کا ایک باب بند ہوا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔