گونجتا ہوا قہقہہ، جرأت مندانہ فیصلہ، پیار بھری گالی اور برمحل شعر اکٹھے ہو جائیں تو ایک ہی شخصیت ذہن میں آتی ہے، مشاہد اللہ خان۔ لیکن اُس شب میری ملاقات ایک مختلف انسان سے ہوئی۔ وہ 12/اکتوبر 1999ء کی شب تھی، میں دفتر سے ابھی اُٹھا نہیں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف مشاہد بھائی تھے، پوچھا کہ آسکتے ہو؟ اُس وقت رات کے کوئی ڈھائی تین بج رہے ہوں گے، لہٰذامیں نے کسی قدر حیرت کے ساتھ سوال کیاکہ مشاہد بھائی! کیا ابھی؟
”ہاں ابھی“۔
ان کا لہجہ سنجیدہ تھا، صاف لگتا تھا کہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے۔
”جی آتا ہوں“۔
میں نے جواب دیا اور فوراً ہی چل پڑا، میں پہنچا توہمیشہ کی طرح گرم جوشی کے ساتھ گلے ملے اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ ان کی محفل ہمیشہ جوان رہتی ہے لیکن آج مجمع نہیں تھا،یہی سبب ہوگا کہ کمرے میں دھواں کم تھا، تنہا ان کا ذاتی سگریٹ بیچارہ کیا کر لیتا؟ لڑکا چائے رکھ کر واپس ہوا تو کچھ دیر وہ پیالوں کو گھورا کیے پھر ایک لمبا کش لے کر کہا:
”میں نے ایک فیصلہ کیا ہے“۔
”کیا؟“۔
میرے سوال پر کہاکہ جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا۔
”کیا ا ِسے پارٹی کی حمایت حاصل ہے؟“۔
”نہیں“۔
”کیا کچھ ہم خیال دوست آپ کا ساتھ دیں گے؟“۔
”کھل کرنہیں“۔
”تو گویا آپ نے تنِ تنہا چھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ بھی اندھیرے میں“۔
میں نے خیال آرائی کی:
”جو بوجھ آپ اٹھانے جا رہے ہیں وہ کسی ایک آدمی کے بس کا نہیں“۔
میری باتوں سے وہ بدمزہ ہوگئے، اس لیے کہا:
”میں نے تمھیں اپنا ساتھ دینے کے لیے بلایا ہے،ہمت توڑنے کے لیے نہیں“۔
ان کے لہجے میں بے پناہ سنجیدگی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ عمل کا وقت ہے، مصلحت کوشی کا نہیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر میں نے ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ فرمائیے، میرے لیے کیا حکم ہے؟ انھوں نے مجھے اپنا منصوبہ بتایا جس کے مطابق وہ ریگل چوک پر مظاہر ے کا ارادہ رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس کی مناسب تشہیر بھی کی جائے:
”میں چاہتا ہوں کہ پریس کانفرنس کا اہتمام تم کرو اور اس طرح کرو کہ کسی کو کانوں کان خبرنہ ہو لیکن اتنی بھر پور بھی ہو کہ اس کی تپش جنرل پرویز مشرف محسوس کرے“۔
”گویا آٹا گوندھنا بھی ہے اور ہلنا بھی نہیں“۔
میں نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا تو کہا کہ صلاحیتوں کا امتحان تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے۔
”جیسا آپ چاہیں“۔
میں نے ہتھیار ڈال دیے اور اس مشکل ذمہ داری کی انجام دہی کے لیے سوچنا شروع کر دیا۔ میرے صحافت میں آنے کے بعد یہ پہلا مارشل لا تھا، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جب ماضی میں مارشل لا لگائے گئے ہوں گے تو ان مواقع پر جمہوریت پسندوں نے احتجاج کی آواز کیسے بلند کی ہو گی۔ میرے پیشِ نظر ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے مشاہد بھائی جیل چلے گئے تو پھر پتہ نہیں کب چھوٹیں گے، اس دوران میں ان کے اہلِ خانہ پر نہ جانے کیا بیت جائے، لہٰذا میں نے انھیں ان کے فیصلے کے نتائج سے آگاہ کرنے کی ایک کوشش اور کی:
”آپ کو اندازہ بھی ہے کہ گرفتاری کی صورت میں کیا ہوگا؟“۔
”بالکل ہے“۔
”آمریت کے خلاف جہاد برحق، مگر یہ تلوار وہ اٹھائیں جنھوں نے مزے کیے ہیں“۔
اب وہ تقریباً ناراض ہوگئے اور کہا کہ مجھے تم سے یہ امید نہ تھی، کیا میاں صاحب نے مجھے عزت نہیں دی؟ وفاق میں مشیر اور ملک کی سب سے بڑی بلدیہ (کراچی) کا سربراہ نہیں بنایا؟ کیا مشکل میں اُن کا ساتھ چھوڑ دوں؟۔
”کیابچوں کے لیے کچھ انتظام ہو گیا ہے؟“۔
”ان کے لیے اللہ کافی ہے“۔
”بھابھی سے مشورہ کر لیا؟“۔
”ابے یار کر لیا، تو بتا، اپنے حصے کا کام کرے گا کہ نہیں؟“۔
مشاہد بھائی جھلا گئے تو میں نے انھیں یقین دلایا کہ آپ کا کام آپ کی خواہش کے مطابق ہو جائے گا۔
اگلے روز پریس کانفرنس تھی جو اللہ کے فضل سے بھر پور رہی، اس زمانے میں جتنے بھی غیر ملکی چینل پاکستان میں کام کرتے تھے، سب کے سب اس میں موجود تھے اور بعض چینلوں نے تو اسے براہ راست نشر بھی کیا۔ اب میری پریشانی یہ تھی کہ کہیں انھیں پریس کلب سے نکلتے ہی گرفتار نہ کر لیا جائے مگر وہ انتظام کر کے آئے تھے۔ کلب کی لابی میں باتیں کر تے کرتے جب وہ اچانک غائب ہو گئے تو میں نے اطمینان کا سانس لیا اور ٹیرس کے آخری کونے میں پڑی ایک کرسی پر جا کر بیٹھ گیا، میرا اندازہ تھا کہ اس پریس کانفرنس کے بعد مشاہد بھائی کی گرفتاری یقینی اور مظاہر ہ ناممکن ہو گا۔ میں ابھی ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک جملہ میرے کانوں سے ٹکرایا:
”مسلم لیگ والوں نے تو آج کمال ہی کر دیا“۔
اس سے پہلے کہ میں نظر اٹھا کر دیکھتا، ایک تبصرہ اور سنائی دیا:
”یا ر! کمال کیا کر دیا،مشاہد جیسے لوگ ہی تو قربانیاں دیا کرتے ہیں، کوئی بڑاآدمی بھی کبھی ہمت کرے تو جانیں“۔
پریس کلب میں لوگ آتے ہیں، اپنی کہتے ہیں اور چلے جاتے ہیں کوئی پروا نہیں کرتا مگر اس روز تو ہر شخص کی زبان پر مشاہد بھائی کا ذکر تھا،مجھے خوشی ہوئی کہ محنت ٹھکانے لگی۔ اگلی دوپہر مظاہرہ تھا،میرے خیال میں جس کا امکان کم تھا لیکن اس کے باوجود میں وقتِ مقررہ سے ذرا پہلے ریگل چوک پہنچ گیا۔ زندگی معمول کے مطابق تھی، بسیں ہارن بجا رہی تھیں، مسافراُن پرچڑھ اور ُاتررہے تھے، کنڈیکٹر شور مچا رہے تھے، دکانیں گاہکوں سے بھری ہوئی تھیں اور لوگ اپنی پسندکی چیزیں خرید رہے تھے۔
”اس طرح کی صورتِ حال میں مظاہر ہ کیسے ہو سکتا ہے؟“۔
میں نے سوچا اور موٹر سائیکل محفوظ مقام پر کھڑی کر کے نیوز پیپرا سٹینڈ پر جا پہنچا، ٹھیک چار بج کر چالیس منٹ پر ایک آواز سنائی دی:
”نواز شریف!“۔
”زندہ باد“۔
نعرے کا جواب خود نعرہ بلند کرنے والے کی طرف سے بھی دیا گیااور چوک کے مختلف گوشوں سے بھی یہی صدا بلند ہو ئی۔ میں نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا تو کئی شناسا چہرے دکھائی دیے۔ میری نگاہوں نے نعرہ لگانے والی آواز کا تعاقب کیا، سفید شلوار قمیص میں ملبوس مشاہداللہ سڑک کے عین درمیان میں کھڑے دایاں بازو اوپر اٹھائے نعرہ زن تھے اور کچھ لوگ ”غدار ہے،غدار ہے، مشرف کا غدارہے“ کاشور مچاتے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہے تھے،پھرایک اور نعرہ بلند ہوا:
”مشرف آمریت“۔
اس دوران سفید کپڑوں میں ملبوس بہت سے لوگوں کا ہجوم ان پر یلغار کر چکا تھا اور کاندھوں تک پھٹی ہوئی آستینوں میں مشاہد بھائی کے بازومجھے دور سے دکھائی دے رہے تھے۔
”مردہ باد“۔
اس بار اُن کی آواز تو حملہ آوروں کے شور میں دب گئی لیکن چوک میں بکھرے ہوئے کارکنوں کا جواب جوش و جذبے سے بھر پور تھا۔مار پیٹ کا عمل کچھ دیر جاری رہا پھر یہ لوگ انھیں ایک غیر سرکاری گاڑی میں ڈال کر کسی نا معلوم مقام کی طرف لے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں اس روز مشاہد بھائی کے علاوہ بھی کئی افراد گرفتار ہوئے جن میں کراچی ہی نہیں اندرون سندھ کے کئی کارکن بھی شامل تھے، ڈیرہ اللہ یار (بلوچستان) کے سردار احمد علی کھوسہ (اب مرحوم) بھی مشاہد بھائی کی محبت میں کھنچے چلے آئے تھے جن کا بیٹا کینسر کا مریض تھا اور مقامی اسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا۔یوں اُس روز کراچی کی سڑکوں پر ایک تاریخ رقم ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب جمہوریت کے خلاف کارروائی کو اس جی داری کے ساتھ چیلنج کیا گیا اور وہ بھی مسلم لیگ کی طرف سے۔ جنرل مشرف کی طرف سے مارے گئے شب خون کے سبب بے حوصلہ کارکنوں کو حوصلہ اور حکمت عملی دونوں ہی مل چکے تھے۔
اس سے قبل میری شناسائی ایک ایسے مشاہداللہ خان سے تھی جنھیں میں ایک سنجیدہ سیاسی کارکن تو سمجھتا تھا لیکن میرے خیال میں وہ کوئی زیادہ گہرے آدمی نہیں تھے لیکن یہ واقعہ اس تاثر کی نفی کر رہا تھا۔ ان کا ساتھ دینے کے فیصلے پر میں نے فخر محسوس کیالیکن جب کسی عقوبت خانے کے تاریک کمرے میں بندتشدد برداشت کرتے ہوئے مشاہداللہ خیال میں آئے تو میں اداس ہو گیا۔ اسی دوران مجھے صلاح الدین بٹ۲؎ مل گئے، کہنے لگے کہ ایسے ہی لوگ معاشر ے کا ضمیرہوتے ہیں، ان کی قدر کرنی چاہیے، میرا حوصلہ بڑھ گیا۔
14 اکتوبر کو ہونے والی یہ گرفتاری، گرفتاریوں کے ایک لا متناہی سلسلے کی ابتدا تھی۔ رہائی کے کچھ ہی دنوں کے بعد انھیں دوبارہ پکڑ لیا گیا۔ کسی نا معلوم مقام کی طرف لے جاتے ہوئے ان کے قریب بیٹھے ایک اہلکار نے ان سے سوال کیا:
”آپ جانتے ہیں آپ کو کیوں پکڑا گیا؟“۔
اس طرح کی صورت حال میں خان صاحب لا تعلقی کے انداز میں کچھ اس طرح سے بات کیا کرتے ہیں کہ مخاطب تلملا کر رہ جاتا ہے۔ انھوں نے بڑی لا پروائی سے منہ ڈھیلا کر کے پوچھا:
”کیوں پکڑا ہے؟“۔
”صاحب کو آپ کے دوست پسند نہیں“۔
”کون سے دوست؟“۔
انھوں نے اسی لا تعلقی سے سوال کیا تو اس نے کہا:
”جدہ والے جناب!“۔
یہ سن کر خان صاحب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ایک بار پھر گرفتار ہوئے توان کے منہ پر سزائے موت کے قیدیوں والا غلاف چڑھادیا گیا اور اس دوران میں ان سے نہایت دھمکی آمیز انداز میں بچوں کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ اس طرح کی بات پر جذباتی لوگ غصے میں آکر کچھ الٹا سیدھا کہہ بیٹھتے ہیں،اگر قیدی ہوں تو حوصلہ ہار جاتے ہیں۔ خان صاحب نے یہ دھمکی سن کر خاموشی اختیار کی، درود شریف پڑھااور سوچا ؎
ادھر آ ستم گر، ہنر آزمائیں
تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں
رہائی کے بعد انھوں نے اسلام آباد کا مسلم لیگ ہاؤس ایک بار پھر آباد کر دیا۔
ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ بار بار کی گرفتاری اور قید تنہائی جیسی صعوبتوں سے کبھی مایوسی نہیں ہوئی؟ میرا سوال سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر کہا کہ ایسی کیفیت میں ایک بار مجھے امام ابو حنیفہؒ کی یاد آئی، حکمرانوں کا جبر اِن پر بڑھ گیا تو انھوں نے فرمایا:
”اشرفیوں کے توڑے اور حکمران کے کوڑے، دونوں مجھے حق بات کہنے سے روک نہیں سکتے“۔
اس خیال کے آتے ہی میں مطمئن ہو گیا اور اس کے بعد مجھے کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔
صلاح الدین صاحب کے جماعتِ اسلامی اور”جسارت“ سے اختلافات ہوئے تو ان کی ہمدردی حزبِ مخالف یعنی صلاح الدین صاحب کے ساتھ تھی جو کم وسائل کے باوجودذاتی ہفت روزہ جاری کرنے کا اردارہ رکھتے تھے، مشاہدایک دن ان کے پاس پہنچ گئے او ر کہا:
”میرے لائق کوئی خدمت؟“۔
”آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟“۔
صلاح الدین صاحب نے پوچھا تو کہنے لگے کہ جو آپ چاہیں، میں کسی ذاتی غرض سے نہیں، آپ سے تعاون کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ صلاح الدین صاحب نے انھیں ”تکبیر“ کا بزنس منیجر بنا دیا۔ اس زمانے میں ”تکبیر“ کا ماحول بڑا دلچسپ تھا۔ دفتر میں قہقہوں، جملے بازی اور گفتنی، ناگفتنی لطیفوں کا شور بپا رہتا، مشاہد ان سرگرمیوں کی جان تھے، اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نہ وہ خود کام کرتے ہیں اورنہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ خان صاحب نے اس تاثر کی کبھی تردید کی اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی، حقیقت اس سے مختلف تھی۔ نہ جانے کیا سبب ہے کہ وہ آج بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
میا ں صاحب کی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں انھیں وزیر بنانے کی بات چلی تو دوستوں کے حلقے میں وہ صبح شام کہا کرتے:
”یار! کوئی ایسی وزارت ملے کہ کلرکی نہ کرنا پڑے“۔
انھیں موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کا قلم دان سونپا گیا تواحباب نے انھیں مبارک باد دی کہ اِن کے دل کی مراد بر آئی لیکن ان کے وزیر بننے سے اس وزارت میں اسی طرح جان پڑ گئی جس طرح ایک نوزائدہ ہفت روزے کا بزنس منیجر بن کر انھوں نے اشتہاروں کے ڈھیر لگا دیے تھے۔ ایک بار میں نے ان سے پو چھا کہ مشاہد بھائی! یہ آپ اپنے گردغلط فہمیوں کی دیوار کیوں کھڑی کیے رکھتے ہیں؟ جواب میں انھوں نے بے تکلفی کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:
”ابے چھوڑ نا یار!‘‘۔
زندگی کے بیشتر مرحلوں میں ان کایہی بے ریا جذبہ محبت بروئے کارآتا ہے جس کے نتیجے میں نہ وہ جیل جانے سے ڈرتے ہیں، نہ تشدد سے خوف زدہ ہوتے ہیں، حتیٰ کہ وزارت قربان کرنی پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اْن کی وزارت ایک بیان کے نتیجے میں گئی جسے سمجھنے سے زیادہ نہ سمجھنے کی کوشش کی گئی لیکن عام حالات میں ان کا بیان برجستگی، شعریت اور عوامی لب و لہجے کا شاہکار ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد کا لاک ڈاؤن۳؎ ان کی نظر میں پاکستان کی اقتصادی خود انحصاری کے خلاف سازش کے مترادف تھا، عمران خان جس میں بھاڑے کے ٹٹو کا کردار ادا کر رہے تھے،چناں چہ اُنھوں نے ایک مصرع میں دل کی بات کہہ دی ع
ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا
پارلیمنٹ کا ایوان ہو یا جلسہ عام، ان کی تقریر صحرا میں نخلستان کی حیثیت رکھتی ہے، ڈوب کر
شعر پڑھتے ہیں اور سننے والے کو ڈوبنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ وہ رات دیر تک محفل آرائی کرتے ہیں، فجر کی نماز بر وقت اداکرتے ہیں پھر جی بھر کر سوتے ہیں۔ان مصروفیات میں وہ شاعری کا مطالعہ کب کرتے ہیں؟یہ رازکبھی نہ کھل سکا لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اساتذہ ہوں یا تلامذہ، اِن سب کے لاتعداد شعر انھیں ازبر ہیں۔افتخار عارف کہتے ہیں کہ شعر و ادب سے ان کی وابستگی حیران کن ہے۔
خان صاحب اور ان کے بھائیوں نے سیاست کا پہلا سبق راول پنڈی کے گلی کوچوں اور کالج کی راہداریوں میں سیکھا اور قیدو بند کی لذت سے آشنا ہوئے ،پی آئی اے کی ٹریڈ یونین کے زمانے میں اس میں نکھار آیا اور میاں نواز شریف کی قیادت میں یہ عروج پر جا پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ یار باشی،شعر شناسی اور شعلہ بیانی کی سرگرانی کے باوجود بازارِ سیاست کی کج ادائی ان کی نگاہ سے چھپ نہیں سکتی،ایسے ہی مشکل مرحلے ہوتے ہیں جب قیادت کو ان کے مشوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح کے سنجیدہ ماحول میں بھی ان کی زندہ دلی برقرار رہتی ہے اور وہ ہنستے مسکراتے ایسی بات کہہ دیتے ہیں جو سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے۔
قومی زندگی میں اپنی غیر معمولی اہمیت اورسیاسی رہنماؤں کی صف میں نمایاں ہونے کے باوجود وہ اپنے دوستوں کے حلقے میں وہی پُرانے بھائی جی ہیں، کسی جدی پشتی سیاست داں اور گلی کوچے سے اٹھ کر عوام کی نمائندگی کرنے والوں کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے۔