ہم خود چاہے اہم ہوں نہ ہوں، زندگی میں مختلف شخصیات سے ملنے انہیں جانچنے اور ان سے متعلق کوئی بھی رائے استوار کرنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔ اگرچہ جب کبھی کسی شخصیت سے متعلق رائے کو تحریری شکل دینے کا موقع ملے تو لکھنے پڑھنے کی مہارت اور الفاظ کی جادوگری کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن بعض اوقات مشاہدہ اور تجربہ ہی مدعا بیان کردینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن میری کشمکش کچھ عجیب ہے۔ مجھے ایک ایسی شخصیت کے متعلق لکھنا ہے جو کہ میری پیدائش سے بھی پانچ سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی لیکن ان کے اثرات اس قدر ہیں جنہوں نے میرے ہم عصروں ہی نہیں، گزشتہ اور بعد میں آنے والی نسلوں کی زندگیوں پر بھی بے پناہ اثرات مرتب کیے اور یہ اثرات محض ایک فرد کی زندگی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ کیپیٹل ازم اور کمیونزم جیسے نظام بھی ان کی فکر کی لپیٹ سے بچے بغیر نہ رہ سکے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی انیسویں صدی کے ایک ادیب، مصنف، محقق اور سیاسی رہنماکے طور پر جانے جاتے ہیں، جماعت اسلامی کے بانی اور اور اس کے پہلے امیر۔ ان کے قلم نے بہت سی معرکۃ الاآراء کتب کو تخلیق کیا۔ تفہیم القرآن کو تو اردو ادب میں شاہکار کا درجہ ہی حاصل نہیں بلکہ اس نے نوجوان ذہنوں پر مغرب کی تہذیبی بالادستی کے مقابلے میں اسلام کو ضابطہ حیات کے طور پر سمجھنے اور دیگر تمام ازموں کے مقابلے میں اسلام کو قابل فخر ازم کے طور پر قبول کرنے کے لیے ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے۔ سید مودودی کو جو چیز اہل علم کی صف میں سب سے زیادہ منفرد و ممتاز کرتی ہے، وہ اقامت دین سے متعلق ان کا تصور ہے۔ اُن کے خیال میں دین محض عبادات اور چند رسوم و رواج کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی گزارنے کے لیے ایک مکمل ضابطہ ہے جس میں ذاتی زندگی، لین دین کے معاملات سے لے کر امور سلطنت چلانے کے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے اور یہ کہ جس طرح کسی بھی مسلمان کے لیے انفرادی زندگی میں عبادات کی اہمیت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دین اس سے اجتماعی دائرے میں بھی اللہ کے پیغام کو عام کرنے اور ریاستوں کے نظام کو اس کے تابع کرنے کے لیے جدوجہد کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ مولانا مودودی نے جب اس بات کو اچھی طرح سمجھا تو عملی زندگی میں کچھ اس طرح اختیار کیا کہ آج دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پولیٹیکل اسلام کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے پس منظر میں مولانا مودودی کا نظریہ و فکر پوری طرح موجود نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی فکر سے ایک جہان کو متاثر کیا اور اس ضمن میں ترکی ، مصر، تیونس میں بعض انتخابی کامیابیوں کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔
میرا مولانا مودودی سے تعلق ان کی کتب کی وجہ سے ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اپنے گھر میں ان کے لیے ایک مربی اور پیشوا کے طور پر ہمیشہ اچھے الفاظ کے ساتھ یاد رکھے جانے والی شخصیت ہونے کی وجہ سے ہے۔ میں نے اپنے ہاں ان کے نام ہمیشہ عزت کے ساتھ لیتے ہوئے سنا۔ میرے والد محترم کو ان سے دو بار براہ راست ملاقات کا شرف حاصل ہوااور اس کی روداد سناتے ہوئے والد صاحب کا جذباتی انداز ہمارے اندر بھی مولانا مودودی کے ساتھ ایک دلی اپنائیت اور محبت کے جذبات کو پروان چڑھاتاگیا۔ آج جبکہ مولانا مودودی کو ہم سے رخصت ہوئے 41 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، میں نے ضروری سمجھا کہ ان کے حق میں ، میں بھی اپنی گواہی رب کائنات کی بارگاہ میں پیش کر دوں۔ اللہ تعالیٰ دین حق کے لیے ان کی تمام کوششوں کو شرف قبولیت بخشے اور ان کا شمار اپنے پسندیدہ بندوں میں فرمائے۔ آمین