میں جماعتیوں کی اُس نسل سے ہوں جسے سید علی گیلانی جیسے لوگوں سے عشق ورثے میں ملا ہے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ جن سے کبھی ملے نہیں، براہ راست جنہیں کبھی سنا نہیں لیکن اپنائیت، محبت کا ایسا ،یکطرفہ ہی سہی، تعلق کہ ساری زندگی ایسے محسوس ہوتا رہا کہ وہ مرکز ہیں اور ہم دائرہ۔ سچی بات یہ ہے کہ گیلانی، قاضی اور گل بدین ہمارا فخر اور عشق رہے اور ہیں۔
ہم لوگ سلیم ناز بریلوی کو سنتے اور گاتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا:
تین سپہ سالاروں نے دکھلائی ہمیں راہِ آزادی
کفر کے ایوانوں میں جن کی جدوجہد نے آگ لگا دی
جن کی لاکھوں شمعیں روشن ہیں بیت المقدس تا کراچی
لوگو اُن تینوں کے نام ہیں گیلانی، حکمت اور قاضی
آج جب سید علی گیلانی بھی رخصت ہوئے تو ان سے متعلق تمام یادیں فلم کے طرح دماغ میں چل پڑیں۔ تحریک آزادی کا عروج اور ہمارے ہاں یکجیتی کشمیر کے پروگرامات۔ مجھے علی گیلانی صاحب کی تصویر کے اوپر جیل کی سلاخوں والے پورٹریٹ اٹھا کے ان جلسوں میں شریک ہونا آج بھی یاد ہے۔ ماہنامہ مجاہد کے آفس جانا ہوتا تو دیوار پر کمانڈر شمس الحق، اشرف ڈار، عبداللہ بانگرو کے ساتھ اس بوڑھے بابے کی تصویر کو دیر تک دیکھنا بھی یادوں میں تاحال محفوظ ہے۔ جمعیت/ جماعت کے اجتماعات میں سید علی گیلانی کی ٹیلی فون کے ذریعے آنے والی آوازیں آج بھی سماعت میں تروتازہ محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی “روداد قفس” کو بار بار پڑھنا بھی یاد ہے۔ عمر بڑھی اور عشق بھی بڑھتا گیا۔ جمعیت میں فعال ہوا تو ان سے ہم کلام ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب گھر کے فون کے گرد امی، ابو، بھائی جمع تھے۔ میں نے نمبر ملایا۔ اس وقت گیلانی صاحب دہلی کی کسی ہسپتال میں زیر علاج تھے اور خبریں آ رہی تھیں کہ ان کے علاج کے لیے شائد بھارت پاسپورٹ جاری کر دے۔ کسی اور نے فون اٹھایا۔ اصلاً تو ابو نے بات کرنا تھی لیکن وہ نہ کر سکے۔ بس ان کے آنسو بہتے رہے۔ میں نے آگے بڑھ کر گیلانی صاحب کا پوچھا۔ اگلے ہی لمحے السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ کی ایک نحیف لیکن پرعزم آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔ میں نے بتایا کہ پاکستان کے شہر راولپنڈی سے بات کر رہا ہوں۔ فوراً کہا “آپ کا خیر مقدم ہے۔” ان الفاظ میں چھپی اپنائیت، محبت کا اثر تھا کہ یہ الفاظ مجھے نہیں بھولتے۔ باقی گفتگو میں بس اتنا ہی یاد ہے کہ میں نے کہا تھا: آپ اگر پاکستان آئیں اور راولپنڈی آنے کا موقع ملے تو میرے گھر ضرور آئیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب جب اسے یاد کرتا ہوں دل فخر سے سرشار ہو جاتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خود کو خوش نصیب محسوس کرتا ہوں کہ میں سید علی گیلانی کے دور سے تعلق رکھتا ہوں۔