انتخابات اور امن، یہ دونوں نعمتیں میسر نہیں ہیں اس لئے 8 فروری کے صبح ہونے سے پہلے پشین کے پرامن ترین علاقے خانوزئی میں پہلا دھماکہ آزاد امیدوار و سابق وزیر اسفندیار کاکڑ کے دفتر پر ہوا اسفندیار کاکڑ نے بتایا کہ ان کے خیال میں خانوزئی کے اندر دھماکے کا تصور نہیں تھا اور وہ خود موقع پر موجود نہیں ہے جبکہ خانوزئی و کایرازت سے جماعت اسلامی کے نوجوان امیدوار اور دھماکہ والے جگہ پر زخمیوں کی حالت زار میں مصروف عمل صابر خان صالح پانی زئی نے بتایا کہ اس دفتر کی چاریواری نہیں ہے اور کوئی حفاظتی انتظامات بھی موجود نہیں تھی۔
ابھی درجنوں افراد کے زخمیوں و شہادتوں کی خبر گیری کررہے تھے کہ قلعہ سیف اللہ شہر میں جمعیت علمائے اسلام ف کے انتخابی دفتر پر خود کش دھماکا ہوا یہاں صوبائی امیر و سابق وزیر مولانا عبد الواسع امیدوار ہے وہ خود موجود نہیں ہے البتہ شہر کے وسط میں واقع ہونے کے باعث درجنوں افراد یہاں بھی گاڑھے زخمی ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر دونوں دھماکوں میں تیس افراد شھید ہوئے ہیں اور سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں مولانا عبد الواسع صوبائی امیر جے یو آئی ف نے فوری طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ اپنے تمام امیدواروں اور کارکنوں سے کہتے ہیں کہ وہ انتخابی دفاتر چھوڑ کر متبادل محفوظ جگہوں پر انتخابی مصروفیات جاری رکھیں نگران صوبائی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا جبکہ متضاد دعوے بھی شامل ہیں۔
حکومتی ترجمانوں کے بیانات میں البتہ نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب نے بھی بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا کیونکہ قلعہ سیف اللہ، کان مہترزئی کے انتخابی حلقے سے موصوف تعلق رکھتے ہیں ہفتہ رفتہ صوبہ کے وسیع بلوچ علاقوں میں بھی ڈیڑھ درجن کے قریب دھماکے ہوئے اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی نصف درجن سے زائد دھماکے ہوئے لیکن یہ سارے دھماکے آج کے دو زور دار دھماکوں کے سامنے پٹاخے ثابت ہوئے یعنی ان میں کم سے کم جانی نقصان ہوئے تھے البتہ مچھ میں سرمچاروں اور حکومتی فورسز کے درمیان گھمسان کی تین روزہ لڑائی میں عام شہری بری طرح متاثر ہوئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ انتخابات کا اصل دن 08 فروری کیسے گزرے گا اس پر ورکنگ و نگرانی کی خصوصی توجہ درکار ہے تاکہ کم سے کم جانی نقصان میں انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جائیں_
انتخابات سے چارہ نہیں البتہ تیسری دنیا کے اندر انتخابات میں صبر و تحمل اور امن و امان کا قیام حکومتوں و پارٹیوں کے لئے یقینی چیلنج رہا ہے باقی ملک کے نسبت بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے ضروری اقدامات درکار ہیں ورنہ غربت و لاچارگی اور بھوک و سماجی شعور کی ناپختگی نے پہلے سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں پشتون علاقوں میں ایک بڑا چیلنج انتخابات کے دوران چمن باڈر دھرنا بھی ہے جو اب تک تمام مثبت و توانا کوشش کے باوجود حل نہیں ہوسکا یعنی ریاستی سطح پر عام آدمی کے مفادات و حقوق اور کاروبار و احساس دردمندی کے لئے ضروری کردار ادا نہیں کیا جاتا ہے جو کسی بھی وقت سلگتے چنگاری کا شعلہ بن سکتا ہے ملکی منظر نامے میں بہتری و توانائی لانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے کمزور علاقوں اور صوبوں کے حالات زار پر میڈیا و پاکستانی کمیونٹی خاموش تماشائی بننے کے بجائے زندہ و توانا کردار ادا کریں ورنہ مایوسیوں و احساس کمتری کا راج رہے گا اور انسانی زندگیوں میں بہتری و توانائی لانے کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں _