مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے و پاک افغان ایران اقبال ڈائیلاگ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فورم کے زیر اہتمام خطے میں بدلتے ہوئے حالات و رحجانات اور ترجیحات میں نئی جہتیں و ضابطے طے کرنے کے لئے نئے بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کی ضرورت کے پیش نظر یکم اگست 2021ء بروز اتوار کے آن لائن مکالمے و جرگے میں برطانیہ سے 21 ویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان، ایرانی دانشور و ڈائریکٹر خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کوئٹہ ڈاکٹر سید تقی زادہ واقفی،پشاور یونیورسٹی سے دانش ور و محقق ڈاکٹر فخر اسلام، کوئٹہ کے معروف شاعر و ادیب اور دانشور و فنکار امان اللہ خان ناصر، لاہور سے ممتاز دانشور و تجزیہ نگار سلمان عابد،شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے چیئرمین ڈاکٹر لعل خان کاکڑ اور ممتاز ماہر سماجیات و عمرانیات مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ افغانوں کے اندرونی استعداد و توان کی صلاحیت و ظرفیت کو بڑھانے کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کی احیاء کے لئے OUT OF THE BOX یعنی روایتی انداز و اطوار اور حریفانہ کشمکش سے تمام پارٹیوں و اداروں اور فریقین و ممالک کو اوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی رہبری و دانش مندی جیسےوسیع الاطراف سیاسی وسماجی اورمعاشی و معاشرتی ترقی کے لئے ممکنہ طور پر افغانوں کی مدد کیا جاسکے،، مفکرین و دانش وروں نے کہا کہ لمحہ موجود میں افغانستان تاریخ کے سب سے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ، افغانوں کے لئے اصل سوال و چیلنج بیرونی سے زیادہ اندرونی معاملات میں غیر لچکدار رویئے ہیں جو جدوجھد و جستجو اور آزادی و دانش مندی کا رجحان فروغ دینے کے بجائے پوری قوم کو بند گلی میں دھکیلنے کی مشق بار بار کراتے ہیں اور بند گلی بھی وہ جس کے نکڑ پر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ آگ و بارود کی دینا آباد ہو،،
دانشوروں اور مفکرین نے کہا کہ آج 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں جب اقوام عالم اور پوری انسانیت کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری سے بد حال و پریشان حال ہیں افغانوں کے گھر شانتی و دانش مندی اور خوشحالی و سکون کے بجائے آپس میں الجھے ہوئے مسائل پر لچکدار رویئے نہ ہونے کے باعث عوام الناس اور مرد و خواتین اور بچوں و بچیوں کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی ورثہ و تاریخ و حال بھی بدترین منظر نامے کے انتظار میں کانپ رہےہیں جس نے بلاشبہ افغان عوام کا جینا حرام کر دیا گیا ہے اور مسجد و بازار اور سکول و دانش گاہ سب کچھ کو آگ کے نذر ہونے کی بدترین صورتحال درپیش ہیں سؤال یہ ہے کہ آخر افغان قوم و ملت کیسے سکون کا سانس لیں اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ممکن ہو سکے،،، جس کے لئے نئے اپروچ اختیار کرتے ہوئے اس مکالمے و جرگے میں سہ نکاتی ایجنڈا و میکنزم پیش کرتے ہیں اول،جنگ کے شعلوں کے درمیان مشترکات و آبرو مندی کے رحجانات و ترجیحات تلاشِ کئے جائیں اور عملی حرکت و تغیر کے ذریعے قوم کو مشکلات و بربادی سے نکالا جائیں،دوم وقت کی دوپہر میں چیلنج سمجھ کر موجودہ قیادتوں پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے امن و آشتی کا ارمان و منزل حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، ھمسایوں سمیت تمام فریقین بشمول چین و ترکی اور پاکستان و ایران سے حالات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،سوم سب سے اہم افغانوں کو اسٹیس کو برقرار رکھنے کا ہمیشہ نقصانات رہے ہیں اب وہ اپنے اپنے موقف سے اوپر اٹھ کر قوم و ملت کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کے لئے سوچیں تب ہی وہ ممکنہ طور پر حالات جہاں سے عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی سوسائٹی کی تعمیر و ترقی کے لئے نئے بنیادوں کو تلاش کرنے کی ضرورت کا ادراک و احساس کرسکیں گے اور یہی دراصل انسانیت کی رہبری و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے افغانوں کو آباد و شاد رکھنے کا کلیہ و فارمولا ثابت ہوسکتا ہے،
ہم اس موقع پر پاکستان و افغانستان اور ایران و چین و ترکی کے دانشورانہ روایت و فکری اثاثے سے اپیل کی گئی کہ وہ اس طویل و کثیر الجہتی اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کو پامال کرنے والے بے رحمانہ سلوک جنگ سے افغان سوسائٹی کو سنجیدگی سے نکالنے کے لئے اپنے تجربات و مشاہدات اور خدمات و دانش مندی اخلاصِ نیت اور انسانوں کی تکریم و تعظیم کے لئے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے نسلوں کی بقا ء اور جغرافیہ کو محفوظ کرنے کے لئے بروئے کار لایا جائے میڈیا کے روشن دماغ تجزیہ و تحقیق نگار اور شاعر و ادیب کے ساتھ ساتھ علماء کرام و مفکرین سے دست بستہ درخواست گزار ہیں کہ وہ حالات کی نزاکت اور افغانی سوسائٹی کی بنیاد و اساس کو فعال و متحرک کرنے کے لئے اس تاریخی موقع پر اپنے خیالات و نظریات سے علی الرغم انسانی احترام، آزادی اور قیام امن و بحالی تکریم انسانیت کے لئے ثمر بار سرگرمیوں میں ہاتھ بٹائیں.