کھردری چادر اور پگڑی باندھے وحیدالدین خاں اس دینا فانی سے کوچ کر گئے ہیں رمضان المبارک کے مبارک لمحات میں قرآن کریم کے سائے تلے خوبصورت انداز میں زندگی گزارنے کے بعد موت ہی وہ منزل ہے جس کے سر کئے جانے کے بعد مالک ارض و سماء کے مطوب انسان یعنی مطیع و فرمانبردار انسان جنتوں اور انعامات کے منتظر ہوتے ہیں آخرت کی وسعتوں اور ترقی یافتہ زندگیوں کا احاطہ و تصور شائد ابھی ہمارے روایتی اسلامی تعلیمات نہیں کر پاتے ہیں اس لئے آخرت کی بنیاد خوف رکھی گئی ہے حالانکہ مالک ارض و سماء کی خواہش ہے کہ انسان اپنے مالک و خالق کائنات کی تخلیق و تدبیر اور تقدیر و قضاء پر غور وفکر کرکے مثبت و ثمر بار سرگرمیاں زندگیوں میں ترتیب دیں اور ذہن و دماغ اور جسم و قلب کو فعال و متحرک اور مثبت و قابل قدر بنائے تب وہ جنتوں کے وارث و حقدار قرار پاتے ہیں والذین آمنوا اشدو حب الی اللہ کہ ایمان لانے کے بعد یا ایمان لانے کے ساتھ سب سے زیادہ محبت و عقیدت اور احترام و اہمیت مالک و مولا کے لئے مخصوص ہے یہی مولانا وحیدالدین خاں صاحب مرحوم کی ڈسکوری اور انسانوں سے محبت و درد مندی تھی رب العالمین آسانی فرمائیں مغفرت کاملہ عطا ء فرمائیں بہت خوب صورت اور باوقار زندگی علم و عمل کا راستہ اختیار کرنے اور نئے نسلوں کو دین فطرت پر مطمئن و قانع کرنے کا فن و ہنر مندی فراہم کی گئی کاش ہمارے معاشرے میں داعی و مبلغ اور انسانوں سے محبت و الفت رکھنے والے افراد مرد و خواتین اور طلباء وطالبات سمیت نوجوان نسل کے لئے ان کی زندگی اور ٹیکنالوجی بیس علمی و فکری معیار اپنانے سے بہت دور اور بہت وسعت تک مولانا وحیدالدین خاں صاحب مرحوم سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت موجود رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید عزیز الرحمٰن نے ان کے بارے میں اپنے قلم بند کیے ہیں، ان کے شکریے کے ساتھ ہم یہ سطور بھی یہاں پیش کررہے ہیں:
آج سے کوئی پچیس،اٹھائیس برس قبل مولانا کی پہلی کتاب مذہب اور جدید چیلنج پڑھنے کا اتفاق ہوا،وہ مولانا کی پہلی کتاب تھی،جو ہماری نظر سے گزری، لیکن اس نے مولانا کے قلم کے سحر میں جکڑ لیا پھر تو کتاب تو کیا شاید ہی ان کی کوئی تحریر ایسی ہو جو نظر سے نہ گذر سکی ہو۔
ہم جیسے طالب علموں کے لئے مولانا کی زندگی میں ایک اور عمدہ مثال بھی موجود ہے کہ کسی علمی شخصیت سے کس درجے استفادہ کیا جائے، کس ڈھب سے اختلاف کیا جائے اور کس طرح اتفاق اور اختلاف کو متوازن رکھتے ہوئے اس کی عقیدت کو برقرار رکھا جائے۔مولانا نے خوب لکھا، اتنا لکھا کہ آخر کے پچاس ساٹھ برسوں میں شاید ہی کوئی اہل قلم ان کے سرمایہ تحریر کا مقابلہ کرسکے۔ جس قدر بھی لکھا وہ رواں دواں اسلوب میں لکھا، ایسا اسلوب، جو پڑھنے پر آپ سے آپ مجبور کرتا تھا۔پھر علوم اسلامی کے ہر ایک پہلو پر لکھا۔ان کی کتنی ہی باتوں سے پہلی نظر میں اتفاق ہوا،کچھ باتیں ایسی رہیں جنھیں پڑھ کر غور و فکر کا موقع ملا پھر کہیں اتفاق کی کیفیت پیدا ہوئی تو کہیں اختلاف کی، اور کتنی ہی باتیں ایسی تھیں کہ انہیں ذہن نے کبھی قبول نہیں کیا۔ہم جیسے طالب علموں کے لئے مولانا کی دو چار نہیں شاید درجنوں باتیں قابل قبول نہیں تھیں، لیکن ان کے قلم کا کمال یہ تھا کہ اس کے باوجود ان کی ہر تحریر بلکہ ان کے لکھے ہوئے ہر ہر لفظ سے دلچسپی ہر لمحے برقرار رہی۔
مولانا اول و آخر داعی تھے ان کی یہ کیفیت ان کی ہر تحریر میں نمایاں تھی،شاید ان کے کام پر ہونے والے اشکالات کا یہ ایک بہت بڑا جواب بھی ہے۔
مولانا سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکی، اس کا افسوس رہے گا، لیکن ڈیجیٹل دنیا نے ان کی گفتگو سننے اور انہیں بولتے ہوئے دیکھنے کا موقع ضرور فراہم کیا ،مگر وہ جس قدر عمدہ لکھتے تھے، ان کی گفتگو اسی قدر روکھی محسوس ہوتی ہے،شاید یہ ان کی طبعی سادگی کا کا اثر تھا۔
وہ اپنا کام مکمل کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ تعالی ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کے ساتھ اپنی رحمت کا خاص معاملہ فرمائے۔