یہ مضمون سید قطب شہید کی معروف کتاب ” معالم فی الطریق” سے استفادہ کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔
معاشرے میں شہری و تمدنی اور دیہاتی و قبائلی ضروریات پوری کرنے کے لئے،عسکریت کے بجائے تعمیری تصورات ،جمہوریت اور ڈویلپمنٹ ترقیاتی اپروچ کی صحیح سمت کے تعین کے بغیر معاشرتی ترقی اور خوشحالی در آنا ممکن نہیں ہے جمود اور معاشرتی افراتفری کے باعث معاشی و ثقافتی فوائد حاصل کرنے سے بھی ہمیں محروم رکھا گیا ہے علمی و فکری مکالمے اور نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق سائنسی و تعلیمی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو کے بغیر 21 ویں صدی کے تقاضے اور ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے مزہبی جمود اور قید مذہبی سے نکل اصول مذہبی اور حکمت قرآنی و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹنے اور گامزن ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اسی بنیادی احساس و ادراک کئے بغیر معاشرتی ترقی اور سائنسی و فکری مکالمے و بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو ممکن نہیں ہے مکہ و مدینہ کے اسلامی معاشرے و سماجیات کی تشکیل و تعمیر نو میں وحی الہٰی اور شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے موثر اور ثمربار قوت بننے کی صلاحیت و استعداد پیدا فرمایا ، وحی الہٰی کی روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و دانش کی راہیں ہموار ہوگئی تھی آج بھی معاشرے و سماجیات کو بدلنے کے لئے نئے عمرانی و سماجی شعور اور آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و فیصلوں کے ذریعے نوجوانوں اور بزرگوں و خواتین سمیت طلبہ وطالبات اور عام انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے ساتھ جمود اور کم ظرفی سے نکل کر مثبت و ثمر بار راستوں کو آباد کرنے کی ضرورت پوری ہوسکیں، 20 ویں صدی کے معروف مصنف و شارح قرآن کریم جناب سید قطب شہید کی دلکش تحریر اسی بنیادی ضرورت اور احساس کی نشاندھی کرتی ہے کہ اِسلام کا اصل مشن دنیا کے اندر اسلام کا فرضِ اولین یہ ہے کہ جاہلیت کو انسانی قیادت کے منصب سے ہٹا کر زمامِ قیادت خود اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے مخصوص طریقِ حیات کو جو مستقل اور جُداگانہ اوصاف و خصائص کا حامل ہے ، نافذ کرے۔ اس صالح قیادت سے اُس کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے جو صرف انسان کے اپنے خالق کے سامنے جھک جانے اور انسان اور کائنات کی حرکت میں توافق و ہم آہنگی قائم ہو جانے سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کو اُس مقامِ رفیع پر فائز کر دے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے تجویز کیا ہے اور خواہشاتِ نفس کے غلبہ و استیلاء سے اُسے نجات دے۔ یہ وہی مقصد ہے جسے حضرت ربیع بن عامر نے فارسی فوج کے قائد رستم کے جواب میں بیان کیا تھا۔ رستم نے پوچھا تھا کہ “تم لوگ یہاں کس غرض کے لیے آئے ہو؟“ ربیع نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی میں داخل کریں۔ دُنیا پرستی کی تنگ گھاٹیوں سے نکال کر دونوں جہانوں کی وسعتوں سے ہمکنار کریں، انسانی ادیان کے ظلم و ستم سے نجات دے کر انہیں اسلام کے نظامِ عدل میں لائیں۔ “
اسلام انسان کی ان نفسانی خواہشات کی تائید و توثیق کیلئے نہیں آیا جنکا انسان مختلف نظریات و تخیلات کے رُوپ میں اور گوناگوں رسم و رواج کے پردے میں اظہار کرتا رہا ہے۔ اسلام کی ابتدا کے وقت بھی ایسے نظریات و رسوم پائے گئے تھے اور آج بھی مشرق و مغرب میں انسانیت پر خواہشاتِ نفس کا غلبہ و حکمرانی ہے۔ اسلام خواہشات کی اس حکمرانی اور اہوائے نفس کو مضبوط بنانے نہیں آیا، بلکہ اسلئے آیا ہے کہ وہ ایسے تمام تصورات و قوانین اور رسوم و روایات کی بساط لپیٹ دے۔ اور انکی جگہ اپنی مخصوص بنیادوں پر حیاتِ بشر کی تعمیرِنو کرے ، ایک نئی دنیا تخلیق کرے ، زندگی کی نئی طرح ڈالے جسکا مرکز و محور اسلام ہو۔ ،،