بلوچستان کی ترقیاتی اپروچ اور حکمت عملی پر حکومت اور اپوزیشن دونوں سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں اور بدھ 27 جنوری 2021ء کو سپریم کورٹ میں وزیر اعلی جام کمال اور حکومت کے خلاف توہین عدالت اور پی ایس ڈی پی کی پٹیشنز کی سماعت کے لئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ، ایم پی اے ملک نصیر شاہوانی ، ایم پی اے نصراللہ زیرے ، ساجد ترین ایڈووکیٹ کے ہمراہ پیش ہونگے. وزیر اعلی جام کمال نے بھی حال ہی میں ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ بھی اس سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ بلوچستان حکومت پی ایس ڈی پی 2020-2021 کیس سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں سپریم کورٹ گئی اور ساجد ترین ایڈووکیٹ اور ملک سکندر ایڈووکیٹ نے حال ہی میں 2020-2021 پی ایس ڈی پی سپریم کورٹ کے فیصلے اور پلاننگ کمیشن کی گائیڈلائنز کے خلاف بنانے پر حکومت بلوچستان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی۔
دونوں ہی مقدمات کی سپریم کورٹ آف پاکستان ایک ساتھ سماعت کرے گی
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ جے یو آئی ، ساجد ترین و نصیر شاہوانی ںی این پی مینگل اور نصر اللہ زیری کا تعلق پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی سے ہے نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ حکومت بلوچستان نے نااہلی کی تمام حدیں پار کردی ہیں اور کرپشن کی تمام حدود کو عبور کرلیا ہے ، ہم بلوچستان کے مستقبل کیلئے سپریم کورٹ جا رہے ہیں
جام حکومت کی کرپشن اور نااہلی پر بلوچستان کی اپوزیشن خاموش نہیں بیٹھ سکتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ انصاف کے ساتھ اس کیس کا فیصلہ کرے گی۔جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور اس کے اتحادی نصف درجن پارٹیاں بلوچستان عوامی پارٹی،پاکستان تحریک انصاف،عوامی نیشنل پارٹی،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی عوامی و جمہوری وطن پارٹی سمیت صوبائی حکومت کی بیروکریسی اس موقف کا اظہار تسلسل سے کرتے ہیں کہ مالی نظم و ضبط اور قانون سازی و بہتر ورکنگ اس مخلوط حکومت کی پہچان ہے اب دیکھتے ہیں کہ فاضل جج صاحبان علم و ترقی اور قانون و انصاف کے لئے اس اہم ترین مقدمے میں کیا پیشِ رفت کرتے ہیں بلوچستان 18 ویں آئینی ترمیم اور 07این ایف سی ایوارڈ سے پہلے تنخواہوں کے لئے وفاقی حکومت کے سامنے مجبور ہوتا تھا مگر پیچلھے دس سالوں میں وسائل کی کمی دور ہونے کے بعد میکنزم بنانے میں ذہنی و قبائلی روایات کی روکاوٹ دور نہیں ہوپاتے ہیں بلوچستان میں حکومت کرنے والی پارٹیوں میں اس وقت پشتون بیلٹ کی پارلیمانی پارٹیاں جمعیت علماء اسلام گروپ در گروپ میں تقسیم ہے اور قوم پرستوں کی فکری و عملی بنیادوں میں اضحمال اور شک و شبہ کی ہوا چل پڑی ہے بلوچوں میں دو ڈویژنوں نصیر آباد اور سبی میں جاگیرداری نظام اور قبائلی سیاست کی گرفت برقرار ہیں اور مکران و قلات کے ساتھ نوزائیدہ رخشاں خاران ڈویژنز میں بلوچ نیشنلزم کے پارلیمانی لیڈروں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سردار اختر جان مینگل کے ساتھ بلوچ سرمچاروں اور وفاق پرستوں کی ملی جلی آرا پائی جاتی ہیں مجموعی طور پر کوئٹہ شھر کے علاؤہ کوئی دوسرا شھر ڈویلپمنٹ و ترقی کے معیار پر پورا نہیں اترتا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب نے وزارت اعلی کے دوسالہ مختصر مدت میں اپنے آبائی شہر اور مکران ڈویژن یعنی ساحلی علاقوں کے مرکزی شہر تربت کو ڈویلپمنٹ کی راہ پر لے آئے ہیں مگر سبی و ڈیرہ مراد جمالی اور لورالائی و خضدار کے ساتھ ژوب و چمن اور لسبیلہ و گوادر سب کے سب بنیادی انسانی ضروریات اور 21 ویں صدی کے شہری و تمدنی ترقیوں سے اب تک محروم در محروم چلے آرہے ہیں ان حالات میں صوبے کے محدود وسائل کی حفاظت اور درست استعمال بہت بنیادی ضرورت ہے مگر کاش سیاست دان اور منتخب صوبائی اسمبلی خود آئینی اختیار و حدود کار کے اندر میکنزم تشکیل دینے میں کامیاب ہوتے اب دیکھتے ہیں کہ فاضل عدالت عظمیٰ پاکستان کے سب سے پسماندہ اور محروم صوبے کی معیشت و معاشرت اور تمدن و دانش مندی کے لئے کیا بنیادی فریم ورک تجویز کرتی ہے،،