سال نو 2021ء کے آغاز پر امیدوں اور آرزوؤں کے پلڑے میں یکایک سانحہ مچھ کوئٹہ کے قریب پیش آیا جس نے میڈیا کے تناظر میں پورے ملک میں خطرات کی گھنی بجادی لیکن بجا طور پر بلوچستان جو کیثر الااقوام اور خوبصورت زبانوں کی دھرتی ہے اور جغرافیائی اعتبار و معدنی ذخائر اور لائیو اسٹاک و زراعت کے ساتھ ساحل پر واقع بے پناہ نعمتوں سے مالا مال ہے، خوفناک نقصان اور خوف و دہشت میں مبتلا رہا۔ صوبے کی معیشت اور سیاست کے ساتھ زندگی و سماجیات عمومی طور پر کوئٹہ شھر و صوبائی دارالحکومت سے مشروط ہے۔ اس خوبصورت اور تاریخی شہر کے بعد صوبے میں واقع بڑے شہروں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز لورالائی،سبی ،ڈیرہ مراد جمالی،خضدار،تربت اور نئے ڈویژن رخشاں کے مرکز خاران میں تھوڑی بہت زندگی اور معیشت و معاشرت کے اثرات نظر آتے ہیں جن میں بلاشبہ لورالائی اپنے تاریخ،وسعت نظر اور بھرپور حسن و معاشی تگ و دو کے باعث نمایاں اور امتیازی روایات کا مرکز ہے اس لئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اپنے دوسرے مرحلے کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں سے پشتون علاقوں کے واحد مرکز لورالائی کو مرکزی احتجاجی جلسے کے لئے چنا۔ لورالائی اپنے مضبوط روایتی انداز کے باوجود 1988ء کے پاکستان میں جمہوری حکومتوں اور پرویز مشرف کے آمریت کے قریبی ادوار میں مکمل محرومی کا شکار رہا ہے جس کے باعث خوبصورت شہر افراتفری اور بنیادی نوعیت کے مسائل سے دوچار نظر آتا ہے مگر کرونا وائرس کی آفت سے صرف ایک سال پہلے یعنی 2019ء لورالائی پر مسلط کردہ دہشت گردی کے باعث انتہائی سنگین اذیت میں رہا اور لاکھوں انسانوں کا یہ گلہ بجا ہے کہ اس مشکل ترین سال میں مرکزی وفاقی پارٹیوں کے سربراہان اور علاقائی جماعتوں کے مشران نے لورالائی کے عوام اور نوجوانوں و بزرگوں اور خواتین سمیت لاکھوں انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونا مناسب نہیں سمجھا۔ اس گلے شکوے کے اظہار کے لئے شھر کے من چلے اور حساس نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے کو چنا ہے۔ اگرچہ اس کے باوجود لورالائی شہر کو واقعتا دلہن کی طرح پی ڈی ایم کے پارٹیوں کے سربراہان کے تصاویر اور پرچموں سے سجایا گیا ہے اور پارٹیوں کے کارکنان میں جذبہ و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں مقابلے کی دوڑ بھی نمایاں ہے۔
ملکی سیاست میں نوارد نئے لیڈرز خاص کر محترمہ مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے نوزائیدہ نوجوان چیرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کی آمد پہلی مرتبہ لورالائی کے عوام منتظر ہیں۔حسب سابق وہ مصروفیات اور سیکورٹی سمیت ملک کے دور دراز نظر انداز علاقوں میں جانے سے گریز کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آمد سے کترائیں گے، اس لیے رفو چکر ہو سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صاحب اور جناب محمود خان اچکزئی صاحب دونوں لورالائی سے خاصی قربت اور شناسائی رکھتے ہیں اور ان کی پارٹیاں لورالائی اور قرب و جوار سے مسلسل بھاری نمائندگی حاصل کرتے رہے ہیں، اس لئے وہ روایت سے ھٹ کر ایک بڑے اتحاد اور مہمان لیڈروں کی جلو میں لورالائی کا دورہ کررہے ہیں۔ صوبے کی بلوچ قوم پرست جماعتوں کے سربراہان جناب سردار اختر مینگل اور جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ دونوں خضدار اور تربت مکران یعنی بلوچ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں دیکھئے صوبے کے پس منظر میں وہ لورالائی کی زرخیز سیاسی اور ادبی مٹی پر کھڑے ہو کر کیا پیغام دیتے ہیں؟ صوبے میں بلوچوں اور پشتونوں کی آبادی تعداد کے اعتبار سے قریب قریب ہونے کے باوجود علاقائی تقسیم اور سیاسی مفادات بالکل الگ نوعیت کے ہیں جس پر کبھی تفصیل سے اظہار خیال اور قلم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لورالائی جلسہ 13 جنوری کی سہ پہر 02 سے 06 بجے کے درمیان ہوگا جس میں نصف صوبے کے کارکنان اور عوام الناس سے شرکت کے رابطے مکمل اور ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی مجموعی ساکھ و سیاست اور جناب عمران خان مخالف مہم سے لورالائی جلسہ عام سے کتنی توانائی و قوت بہم پہنچائی جاسکتی ہے مگر پاکستان کے جمہوری کلچر و پارٹیوں کی اندرونی کمزوریاں طشت ازبام ہوچکی ہیں۔ حکومت مخالف تحریک کے روح رواں و سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب کی پارٹی سابق صوبائی امیر و سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان مولانا محمد خان شیرانی صاحب کے اختلاف اور روایتی اسلامی موقف کے برعکس اسرائیل کے تسلیم و رضا مندی کے حق میں دلائل نے جہاں عام مسلمان نوجوان اور پرعزم نظریاتی کارکنوں کی دلیل و حجت اور جذبات و احساسات کو زبردست نقصان پہنچا یا ہے، وہیں مولانا فضل الرحمان صاحب اور ان کی بلوچستان میں صوبائی تنظیم کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان تین دن لورالائی میں اپنے روایتی انداز میں مختلف مقامات پر گفتگو اور اپنی بکھری ہوئے صفوں کو سیدھا اور منظم کرنے کی کوشش کریں گے اگرچہ پرویز مشرف کے طرح جناب عمران خان بھی وزیر اعظم بننے سے قبل لورالائی کے دو دورے اور جلسے کر چکے ہیں مگر سال 2019 ء دہشت گردی کی عفریت کے باوجود وزیراعظم صاحب اب تک نہیں آئے ہیں اور نہ ہی لورالائی یونیورسٹی،مشہور زمانہ لورالائی میں واقع بلوچستان ریزڈینشل کالج اور لورالائی کینٹ کے عقب میں تاریخی ڈگری کالج پر قدم رنجہ فرماچکے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان صاحب ایک دفعہ بغیر کسی ترقیاتی پیکیج اور اس خوبصورت شہر کی 21 ویں صدی میں ضروریات کے پیش نظر نئے منصوبوں اور پالیساں اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب بزادر صاحب کے قبیلے کا ایک حصہ بھی لورالائی سے متصل پہاڑی سلسلے کوہ سلیمان کے وسیع و عریض سلسلے میں آباد ہونے کے باعث لورالائی شہر سے دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ پنجاب کے حاتم طائی کے تصور کے باوجود لورالائی کے دورے کے دوران کچھ نہیں کر پائے اور کوئٹہ و پشین کے دورے میں تربت و مکران کے لئے ہسپتال اور پیکج کا اعلان کردیا تھا، دیکتھے ہیں کہ پی ڈی ایم کے جلسے سے رنجیدہ اور نظر انداز لورالائی کے عوام کے لئے کیا خوشخبری لاتے ہیں اور سال نو کے موقع پر مہنگائی و بد انتظامی پر قابو پانے کے ملک میں نئے عمرانی و سماجی معاہدے کی تشکیل و تعمیر نو کی طرف مکالمے و ڈائیلاگ کا راستہ کھول دیا جاتا ہے یا روایتی انداز میں الزام تراشی کرکے سیاسی اور مذہبی لیڈرز واپس لوٹ جاتے ہیں۔ میں اپنے شہر کے ناطے گزشتہ تین دنوں سے لورالائی میں موجود رہا جہاں بھرپور تیاریاں اور جوش و خروش کے ساتھ یہ نادر تبصرے بھی سنے کہ اگر ہمارے معاشرے کو سیاسی پارٹیوں سے نجات مل گئی تو بہت کچھ وقت پر ٹھیک ہوسکتا ہے.