جسے عام طور پر برا اور قابلِ نفرت سمجھا جاتا ہے اور نئے زمانے کی روایت کے مطابق ہر سال یوم رد بدعنوانی یا اینٹی کریپشن ڈے منایا جاتا ہے مگر عمومی تفہیم کے ساتھ اس کے گہرے مضر اثرات اور اس کے جامع نقصانات پر سوسائٹی اور اشرافیہ
وسیع نظر نہیں دوڑاتے ہیں اور نہ ہی اس پر مکالمے و ڈائلاگ کی زیادہ تفصیلی و بہتر فضا ء نہیں بن پاتا ہے. آج ہم سب
چند لمحات اس گھناونے ناسور کے ہمہ پہلو اثرات اور اس کے وسیع الاطراف خرابیاں زیر بحث لا کر اس کے نقصانات سے بچنے کا
طریقہ کار اختیار کرنے کی کوششوں پر غور وفکر کرتے ہیں۔
کریپشن کا آغاز انسان کے اندرونی حصے دل و دماغ اور فکر و روئیے کی خرابیوں سے ہوتا ہے اور بلاشبہ انھیں بنیادی تصورات کی فریم ورک فراہم کرنے اور زندگی کے مختلف مراحل میں سماجی و معاشرتی عدل و انصاف،روایات ،نصاب تعلیم و تدریس اور تربیت و پرورش کی نظام زندگی کے ساتھ تزکیہ و احسان کے تصورات بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
اس لئے انفرادی سطح پر اصلاح نفس یعنی انسان سازی کے ساتھ انسانی شخصیت کی تعمیر وترقی معاشروں میں خاندان اور ریاست کے اداروں کی بنیادی ذمہ داری شمار ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح اجتماعی طور پر معاملات زندگی اور تمام دائروں میں انصاف اور بنیادی تصورات کی درستگی اور قرآنی حکمت عملی کے تناظر میں تزکیہ و تطہیر اور ذات و سوسائٹی کی اصلاح
حکومتوں کے اولین فرائض میں شمار ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مناسب اور متوازن ضروریاتِ زندگی اور عدل و انصاف و دانش و حکمت
کی فراہمی اولین ترجیح جب بھی ریاستوں اور معاشرتی نظام سیاست اور مذہب کی رہی ہیں تو وہاں اس ناسور کے اثرات کم ہی رہے ہیں۔ رزق حلال پر قناعت اور معاشی طور پر محنت و مشقت کے ساتھ صبر و تحمل کا مزاج ڈویلپٹ ھوسکیے گا،،
19 اور 20 ویں صدی میں جہاں مادی ترقی میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور بلاشبہ علم و ہنر کے مادی علوم و فنون سے
بھرپور وابستگی اختیار کرنے کی وجہ سے ماضی کی زندگی اور قرون اولیٰ کے معاشروں کی مثالیں موجود ضروریات زندگی
کے لئے اجنبی اور ایک لحاظ سے لاتعلق معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے جو معاشرے اور ان کی اشرافیہ وقت اور حالات کی معاشی و سماجی ترقیوں اور نزاکتوں کا ادراک اور احساس کے ساتھ ممکنہ طور پر علمی و تحقیقی فریم ورک فراہم کرنے میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں وہ یقنیی طور پر افراط و تفریط کے شکار ہو کر تنزلی کی وجہ شہرت پاتے ہیں۔
اس پس منظر میں معاشرے میں عدل اجتماعی اور فکر و دانش کی پاکیزگی بھی دستیاب نہ ہو تو اچھے بھلے مضبوط روایات میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور بلاشبہ معاشرے ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
میرٹ کی عدم دستیابی اور انسانوں کی بنیادی عزت یعنی تکریم انسانیت جس معاشرے میں کمی کا شکار ہو جاتا ہے تو دوسری طرف عدم استحکام اور فکر و نظر کی کمزوری کا آغاز ہوتا ہے۔ قانون کے لئے احترام اور خوبیوں کی بنیاد پر معاملات میں اعتدال و توازن برقرار نہ رہ سکے تو اقربا پروری اور خوبیوں کی بجائے زور آور کو نوازنے کا عمل مالی و اخلاقی زوال کی
جانب معاشروں کو گامزن کرنے کی شروعات ہوتی ہیں۔
اس گھناونے کھیل کا اختتام ریاست کے رٹ اور معاشی عدم استحکام، غربت اور خانہ جنگی پر واقع ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں بنیادی قانون اصولوں کو تضادات سے موازنےکی اصولوں میں نہایت اہم کردار شمار کیا جاتا ہے یعنی اضداد کی بنیاد پر
خرابیوں کو معاشرے کے سکون اور خوبیوں سے بھرپور احساس دلانے کی خاطر کریپشن کے بجائے انصاف اور بنیادی تصورات
کی فریم ورک میں اخلاق و کردار کے بلند پایہ معیار کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے زندگی کی بنیادی ضروریات کی میرٹ پر
فراہمی اولین ترجیح ہو تو سکون کی سانسیں معاشرے کو نصیب ہو سکتے ہیں اور تحفظ و امن کے قیام میں یقینی طور پر
پیش رفت ممکن العمل ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام مراکز بالخصوص پالیسیاں تشکیل دینے والے ادارے و محکمے، قانون ساز اسمبلی اور تعلیمی اداروں میں نصاب اور سیاسی و سماجی ضرورتوں کے ساتھ معاشی و تعلیمی ماحول میں دیانتداری کو معاشرے اور نسلوں کے اذہان میں راسخُ کرنے کے لئے بھرپور علمی و فکری اقدامات اٹھائے اور خوبیوں پر مشتمل انتہائی پاکیزہ معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں۔ معاشروں میں انصاف اور عوامی اطمینان کی لہر پیدا کرنے کے لئے جزا و سزا کے نظام کو
ہر طرح کے تحفظات اور دباؤ سے آزاد ہونے والے معاشرے ہی ترقی و خوشحالی کے ابتدائی قدم اٹھاسکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کارکنان و ہمدردوں کے ساتھ اپنے مخالفین کے لئے بھی میرٹ و انصاف کی یقنی طور پر ضمانت فراہم کرنے کے لئے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کریں۔
حکومتی سطح پالیسیاں تشکیل دینے کے عمل کو شفاف اور حکماء کی مشاورت سے بھرپور بنائے تاکہ سماجی و معاشی انصاف کے پیش نظر شعور اور آگاہی میں پیش رفت ہو اور عوام کو نظام سیاست اور انتظامی روئیے و مشینری پر اعتبار بڑے،،،
پاکستان اور تیسرے دینا کے ممالک اور معاشروں میں احتساب کا نظام بھی نظام انصاف اور نظام سیاست کی متنازعہ اور گندا ترین بن چکا ہے اس لئے صرف ایک یوم منانے سے حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی فرض منصبی پورا نہیں ہوپاتا ہے،بلکہ اس ناسور سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہمہ پہلو اثرات مرتب کرنے کے لئے وسیع الاطراف کوششوں کی بھرپور توانائی کی ضرورت ہے۔