مثبت اقدام ، مگر !
گلگت اور بلتستان میں قمری میلے کا انعقاد قابل تعریف ہے۔ یہ میلہ کے دور دراز علاقوں اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) پر واقع وادی گریز (قمری ، منی مرگ ، کلشئی )کے صدر مقام قمری میں منایا گیا۔ 24 سے 26 نومبر 2021ء تک ’’قمری میلہ(فیسٹیول) ‘‘ کا انعقاد ایک مثبت اور تعمیری اقدام ہے۔
منتظمین بالخصوص ادارے قابل تحسین و تقلید ہیں۔ اس طرح کی تعمیری سرگرمیوں سے یقیناً لوگوں کے شعور و تعلیمی افادیت کو اجاگر کرنے اور صحت مند سماجی ، ثقافتی ، تہذیبی اور اتحاد و یگانگت کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح کے پروگراموں میں مقامی زبان و بیان کی ترویج بھی اہم جز و ہوتا ہے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ کوئی ایسی سرگرمی نہ ہو جو مقامی مذہبی ، سماجی ، تہذیبی، ثقافتی نظریات اور روایات کے خلاف ہو یا جس سے لوگوں میں مثبت کی بجائے منفی اثرات مرتب ہوں، یعنی لوگوں کے جذبات کا احترام نہایت ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
انجمن ترقی اردو کی بابائے اردو کانفرنس
انتیس نومبر: آج علی سردار جعفری کا یوم پیدائش ہے.
میلہ سرگرمیاں!
حالیہ ’’قمری میلہ ‘‘ میں مختلف علمی ، ثقافتی اور کھیلوں کی سر گرمیاں ہوئیں۔ان سرگرمیوں میں بچوں کے تقریری مقابلے، گُھڑ سواری، دوڑ ، گدھا ریس ، پتھر دوڑ ہوئی۔والی بال، رسہ کشی، کرکٹ کے میچ ہوئے۔ بھیڑ اٹھانے کی دوڑ، بوری دوڑ، بز کاشی اور دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔ جبکہ مقامی سطح پر مستعمل یا متروک اشیاء کے نمونے بھی نمائش کے لئے رکھے گئے۔ ان سرگرمیوں کی اہمیت و افادیت سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔
میلہ میں طبی کیمپ بھی لگایا گیا۔ جہاں مریضوں کا چیک آپ ہوا۔ میلہ کو عوام میں پذیرائی ملی اور بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ میلہ کی کامیابی میں مقامی اساتذہ اور اسکول کے بچوں کا کردار سب سے اہم اور بنیادی رہا۔ یہ علاقہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کا حلقہ انتخاب ہے۔ امید تھی کہ وہ خود شریک ہونگے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان کی عدم حاضری کو عوامی سطح پر شدت سے محسوس کیاگیا۔
تعمیری پہلو!
قدیم تاریخ کا مطالعہ کریں یا جدید دنیا کا مشاہدہ ان سرگرمیوں کے بڑے مقاصد میں مقامی لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہوتی ہے۔ تاکہ لوگوں میں آگاہی پیدا ہو سکے اور تجارت پا سکے۔ غالباً ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کی وجہ سے رواں برس کے ’’میلہ ‘‘ ان تینوں باتوں کا موقع شاید نہیں ملا۔
اگرچہ اس میلہ کا ذکر تقریباً ایک سال قبل ہونے لگا تھا۔ گلگت بلتستان کے سینئر صحافی اور اس وادی کے فرزند طارق حسین نے اپنی وال پر ایک سے زائد بار لکھا تھا۔ اپنے رواں برس کے سفر (28جولائی سے 5 اگست )میں بھی میں نے اس کی بازگشت بھی سنی تھی۔ اگر یہ میلے سابقہ باز گشت کا تسلسل ہے تو پھر مذکورہ باتوں کا خیال نہ رکھنا مناسب عمل نہیں ہے۔ اگر یہ ہنگامی پروگرام تھا تو پھر مجبوری ہے۔
رواں برس اور وقت !
میلے کا انعقاد جن دنوں میں ہوا ہے ، ان دنوں میں 80 فیصد سے زائدمقامی لوگوں کی شرکت تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ ستمبر کے شروع میں ہی لوگوں کا شہروں کی طرف رخ ہوتا ہے۔ نومبر کے آخری دنوں میں تو صرف وہی لوگ ان علاقوں میں موجود ہوتے ہیں، جنہوں نے برف باری کے سیزن میں یہیں رہنا ہے۔ نومبر میں سیاحیوں کی شرکت تو دور کی بات ہے۔ بلکہ مقامی لوگوں کا گائوں اپنے سے کچھ ہی دور جانا جوئے ِشیر لانے کے مترادف ہے۔
تجارتی سرگرمیاں تو تقریباً ناممکن ہیں۔ مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھیں تو بظاہر یہ رواں برس کا میلہ ایک غیر ضروری سرگرمی لگتی ہے۔ تاہم اس میں مثبت پہلو یہ ہے کہ کسی عمل کا آغاز ہوا ہے۔ تاہم یہ سرگرمی بھی مقامی سیکیورٹی اداروں کے پرجوش تعاون اور مثبت سوچ کے ساتھ ہوئی۔ امید ہے کہ مستقبل کے لئے بہتر سے بہتر حکمت عملی طے کی جائے گی ۔
مستقبل کے لئے تجاویز !
مستقبل کے پروگرام کے حوالے سے چند باتوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔
(1)۔ مقامی نام کا استعمال فیسٹیول(انگریزی )یا میلہ (اردو) کے لئے ’’شنا زبان‘‘ میں خاص لفظ غالباً’’برنگ سہ ‘‘ یا ’’بیالی یا۔۔۔۔؟؟‘‘ مستعمل ہے ۔ اسی طرح علاقے کا نام ’’کامری(Kamri) ‘‘ نہیں بلکہ ’’قمری(Qamri)‘‘ہے۔ رواں برس کے میلہ میں علاقے کا نام ’’کامری‘‘ استعمال ہوا، جو درست نہیں ہے۔
(2)۔ موسم کا انتخاب سب سے اہم ہے ، اس لئے اس طرح کی سرگرمیوں کے لئے بہترین موسم جون کے آخری عشرے سے ستمبر کے پہلے عشرے تک کا وقت بہترین ہے ، بالخصوص جولائی کے پہلے 20 دن نہایت ہی مناسب ہیں ۔ ان ایام میں مقامی لوگوں کی 99 فیصد یہاں موجودگی یقینی ہوتی ہے۔ سیاحت کے حوالے سے بھی بہترین موسم اور ماحول ہوتا ہے۔ ان ایام میں تجارتی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی ہیں۔
(3)۔ سیاحیوں کو ان علاقوں تک رسائی کی اجازت دی جائے۔ اس کے بغیر میلہ ایک بے مقصد سرگرمی ہوگی ۔ آج کی گلوبل دنیا میں سیاحیوں کو اجازت نہ دینا غیر دانشمدانہ عمل ہوگا۔
(4)۔ مختلف سرگرمیوں کے لئے مقامات کا انتخاب بھی ان علاقوں میں اہم ہے ۔ وادی گریز بنیادی طور پر 3 وادیوں یعنی وادی قمری ، وادی منی مرگ اور وادی کلشئی پر مشتمل ہے ۔ ہر سال مختلف پروگرام مختلف علاقوں یا ہر سال الگ الگ مقام پر بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً رواں برس قمری ، آئندہ برس منی مرگ و دومیل اور اس سے اگلے برس کلشئی میں ۔
(5)۔ قریبی علاقوں کے لوگوں کی شرکت کے لئے سہولیات کی فراہم بھی ضروری ہے۔ مثلاً ضلع استور کی وادی گدئی اور ملحقہ علاقوں ضلع سکردو کی وادی گلتری کے لوگوں کے لئے براستہ برزل ٹاپ ،ضلع استور کے علاقہ رٹو ، ضلع بالا اور ملحقہ علاقوں کے عوام کی شرکت کے لئے براستہ کالاپانی ، قمری ٹاپ ،قمری روڈ کی مرمت اور قابل سفر بنانا ہے۔ ویسے بھی یہ راستہ تاریخی اور بہترین متبادل ہے۔
مرمت کے اخراجات کروڑوں میں نہیں۔ بسنجیدہ کوشش کی جائے تو ایک کروڑ کے اندر ہی اس تاریخی سڑک کی مرمت ہوسکتی ہے۔ یہ سڑک و گذشتہ 20 سال سے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی کے سفر کےلئے ناقابل استعمال ہوچکی ہے۔ وادی نیلم کے عوام کے لئے براستہ دودگئی ٹاپ اور گگے نالہ آمد و رفت کو آسان بنانا ہے۔ مذکورہ بالا تمام علاقوں کی زبان ، تہذیب و ثقافت اور تاریخی رشتے ایک ہیں ۔
(6)۔ میلہ کے انتظامات میں مقامی لوگوں کی شرکت و حصہ داری کو زیادہ سے زیادہ بنا نا اہم ہے۔ مقامی لوگوں کا کردار مہمان فنکار کی بجائے حقیقی کردار ہونا چاہئے ۔
(7)۔ مقامی سطح پر تیار ہونے یا متروک ہونے والی استعمال یا ثقافتی اشیاء کی تیاری کی حوصلہ افزائی اور تعاون فراہم کرنا بھی اہم ہے۔ مثلاً مقامی کمبل ’’جولی اور ربہ ‘‘ ، مقامی گرم چادر ’’دوپٹی‘‘، مقامی قدیم قالین ’’پھچہ یا فژہ ‘‘، برف پر سفر کے لئے ’’ترکژے ‘‘ اور ’’کوریے‘‘، کپڑے دوھنے کی ’’ زُوٹنی ‘‘، گندم کی صفائی کےلئے ’’مُزل” اور “کنزو” ،’’یونش (پنچکی)‘‘ اور اسی طرح درجنوں برتن اور دیگر ضروریات کی اشیاء ہیں اور بیشتر اب متروک ہوچکی ہیں۔
(8)۔ گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں کی مشاورت سے اس طرح کے پروگراموں کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنے اور مزید بہتری کے لئے اقدام کئے جاسکتے ہیں۔