ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور جنگلات و نایاب جنگلی حیات اور بناتات کے سے بچاو کے لئے عالمی سطح پر ’’نیشنل پارک‘‘ یا ’’پروٹیکٹڈ ایریاز(محفوظ علاقے )‘‘ کا ایک تصور غالباً 18ویں صدی میں پیش کیاگیا اور اس وقت دنیا کی آبادی بہت کم تھی ۔ پاکستان میں بھی اسی تصور کی بنیاد پر 1975ء میں اسلام آباد میں ’’ مرگلہ نیشنل پارک ‘‘ اور گلگت بلتستان میں ’’خنجراب نیشنل پارک ‘‘ قائم کیاگیا اور غالباً اس تصور کو پیش کرنے کا بنیادی مقصد انسانوں کے غیر محتاط رویہ اور سلوک سے زمین اور ماحول کو بچانا ہے۔
گلگت بلتستان کے معروف کالم نگار اور ورلڈ لائف سے منسلک ماہر علی احمد جان کے ایک مضمون ’’ماحولیاتی انصاف یا استحصال‘‘ کے مطابق ’’ہر ملک کو اپنے کل رقبے کا ایک حصہ (4 فیصد) محفوظ (علاقہ )قرار دینا ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 45 نیشنل پارک ہیں اور ان میں سے نصف درجن سے زائد گلگت بلتستان میں ہیں ‘‘۔ ماحولیاتی تحقیقی سے صحافت سے منسلک سینئر صحافی شبینہ فراز اپنے مضمون ’’نیشنل پارک: جس کے دامن میں پھلتی پھولتی حیات ہی اصل سرمایہ ہے!‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’ یہ ایسے ‘محفوظ علاقےہوتے ہیں جہاں حیاتیات اور نباتات کو قدرتی ماحول میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتی ہیں کہ ’’ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان پچھلے 10 سالوں سے اوّلین 10 نمبروں پر موجود ہے اور اس سال یہ 5ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے، ایسے میں ایک مضبوط ماحولیاتی نظام ہی موسمیاتی تبدیلیوں نامی بلا کا راستہ روک سکتا ہے اور ایک پھلتا پھولتا ماحول ہی ایک مستحکم معیشت کی بنیاد بن سکتا ہے‘‘۔
نیشنل پارک کی اقسام !
دنیا میں ’’محفوظ علاقوں ‘‘ کی کئی اقسام ہیں ، جن میں ایک قسم ’’نیشنل پارک ‘‘ ہے اور نیشنل پارک بھی تین اقسام کے ہیں (1)۔ وہ محفوظ علاقے ، جہاں صرف سائنسی تحقیق ہوسکتی ہے ۔ (2)۔ وہ محفوظ علاقے جہاں سیاحت کی اجازت ہوتی ہے ، لیکن آبادی نہیں ہوتی ۔ (3)۔ وہ علاقے جہاں مقامی آبادی کو سخت شرائط کے ساتھ محدود سرگرمیوں کی اجازت ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان میں نیشنل پارک !
گلگت بلتستان میں نیشنل پارک کے حوالے سے عملی اقدام 1975ء سے کئے گئے ،کیونکہ شاہراہ قراقرم کی تکمیل کے بعد ’’ نایاب جنگلی حیات ‘‘ کے تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئی اور پیپلزپارٹی کے بانی اور وزیر اعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو شہید نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے ’’خنجراب نیشنل پارک‘‘ قائم کیا ۔ اس کے بعد مختلف حکومتی نے نصف درجن کے قریب نیشنل پار ک بنائے اور ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان دو نئے پارک کا رقبہ ملاکر مجموعی طور پر گلگت بلتستان کے کل رقبے کا غالب حصہ اب ’’نیشنل پارک ‘‘ بن چکا ہے ۔
ہمالین نیشنل پارک !
حکومت گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات ، جنگلی حیات و ماحولیات نے 21 جنوری 2021ء کو نوٖٹیفکیشن کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان کے 5ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ضلع استور کی مختلف وادیوں ’’میر ملک ، منی مرگ ، قمری (کلشئی سمیت)، چھوٹی دیواسائی ، کالا پانی اور (Community Control Hunting Areas)شکار کے لئے مختص ’’آئی گیا‘‘کے مجوزہ کے علاقے پر مشتمل ’’ہمالین نیشنل پارک ‘‘قائم کیاگیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ان علاقوں کا کل رقبہ 1989 مربع کلومیٹر ہے ۔ حدود متعین کرتے ہوئے بتایا گیاہے کہ ’’ شمال میں رٹو، شمال مشرق میں گوریکوٹ بلش بر(Community Control Hunting Areas)، شمال غرب میں زائپور (Community Control Hunting Areas)، جنوب میں ’’IIOAJK‘‘ ، جنوب مشرق میں چھوٹا دیواسائی ، مشرق میں ’’آئی گیا (Community Control Hunting Areas)مجوزہ علاقے اور مغرب میں وادی نیلم تک ’’ ہمالین نیشنل پارک ‘‘ کی حدود ہوگی ۔ ایک اندازے کے مطابق مذکورہ حدود کے اندر 60 سے زائد گائوں کی 50ہزار سے زائد آبادی ہے اور اور وادی گریز کی تین وادیاں ’’قمری ، منی مرگ اور کلشئی ‘‘ خونی لکیر لائن آف کنٹرول(ایل اوسی )سے منسلک ہیں ۔ یہ تمام علاقے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کے حلقہ انتخاب میں شامل اور وزیر اعلیٰ کا آبائی گائوں ’’رٹو‘‘ہمالین نیشنل پارک کے شمال میں ہے۔
نیشنل پارک اور احتجاج ؟
ماضی میں نیشنل پارک کے قیام پر کبھی بہت بڑے پیمانے پر شور نہیں ہوا، غالباً اس کے دو اسباب ہیں ۔ پہلا سبب اکثر پارکوں سے آبادی بہت کم متاثر ہوئی اور کہیں آبادی تھی بھی تو مناسب طریقے سے منتقل کردیا گیا یا ان کو سہولت دے دی گئی ہے۔ دوسرا سبب یہ کہ مقامی لوگوں کے تعاون ، مشاورت اور مفاہمت سے پارک بنائے گئے ہیں ۔ غالباْ گلگت بلتستان میں ’’سینٹرل قراقرم نیشنل پارک‘‘ واحد پارک ہے ،جس کی حدود میں 230 گائوں کی تقریباً ایک لاکھ آبادی ہے۔ دو نئے نیشنل پارک کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے یکم دسمبر 2020ء کو گورنر ہائوس گلگت بلتستان میں نے کیا۔ ان میں ’’ہمالین نیشنل پارک اور ننگاپربت نیشنل پارک ‘‘ شامل ہیں۔ ان پارکوں کی حدود کہاں سے کہاں تک ہوگی اور کون کونسے علاقے شامل ہونگے عوام کو مکمل لاعلم رکھا گیا۔ 21جنوری 2021ء کو ہمالین نیشنل پارک کے نوٹیفیکشن کے اجراءکے ساتھ ہی عوامی احتجاج شروع ہوا اور ایک نئی بحث شروع ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت اور ان کے بعض حامی ’’ہمالین نیشنل پارک )) کے حق ، جبکہ متاثرین اور مخالفین کا ایک بڑا حصہ سخت احتجاج کر رہا ہے۔
نیشنل پارک میں پابندیاں !
دینا میں جن علاقوں میں آبادی ہے وہاں مقامی عوام کو اعتماد میں لیکر ان کی مشاورت ، معاونت اور مفاہمت سے شرائط و قیود طے کی جاتی ہیں ،مگر ہمالین نیشنل پارک کے قیام کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا،بس ایک حکم شاہی جاری ہوا۔ معروف صحافی علی احمد جان اپنے مضمون میں نیشنل پارک پر لاگو ہونے والی پابندیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’نیشنل پارک اس محفوظ علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں مقامی لوگوں کو کسی قسم کی معاشی و اقتصادی سرگرمی یعنی گھاس چرائی، لکڑی کی کٹائی ، آباد کاری یا کاشتکاری کی اجازت نہیں ہوتی ۔‘‘ مذکورہ علاقوں میں زندگی کا انحصار ہی جنگلات، مال و مویشی ، زراعت، کھتی باڑی اور نباتات پر ہی ہے ۔ منفی 18تک کی سردی اور برف باری میں زندہ رہنے کے لئے واحد ایندھن لکڑی ، مکانات کی تعمیر کا واحد ذریعہ لکڑی اور آمدنی کے اہم ذرائع کھتی باڑی و مال و مویشی اورمحدود سطح پر نباتات کی فروخت ہے ۔
مقامی عوام سراپا احتجاج کیوں!
نیشنل پارکوں کے قوائد و ضوابط پر غور کرتے ہیں تو وہاں پکی سڑک تک تعمیر نہیں ہوسکتی ہے، اس کی واضح مثال ’’دیواسائی نیشنل پارک‘‘ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے 3 جولائی 2020ء کو اسلام آباد میں 15 نیشنل پارکوں کے قیام کی اجازت دینے کی تقریب سے خطاب میں واضح طور کہا کہ ’’میری درخواست ہے کہ سیاحت کے لیے نئے علاقوں کو اس وقت تک نہ کھولا جائے جب تک اس حوالے سے قوانین تیار نہیں ہوجاتے کہ علاقے میں کس چیز کی اجازت دینی ہے اور کس سے روکنا ہے۔میں نے کئی ایسے علاقے دیکھے ہیں جہاں گاڑیوں کو جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ،وہاں صرف لوگوں کو گھوڑوں پر یا پیدل جانا چاہیے، گاڑیاں چلیں گی تو وہ علاقے تباہ ہوجائیں گے‘‘۔ یعنی وزیر اعظم نیشنل پارک والے علاقوں میں گاڑیوں کی آمد ورفت پر مکمل پابندی عائد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسی غیر یقنی صورتحال میں کیا بعید کہ کل کوئی اور حکومت آئے اور جبری طور پر علاقے خالی کرادے ۔ اس غیر یقینی صورتحال میں عوام کے پاس احتجاج اور قانونی مزاحمت کا راستہ ہی بچتا ہے۔مقامی لوگوں سے مشاورت، معاونت اور مفاہمت کے بغیر بننے والے نیشنل پارک کے قیام کے بعد قانونی طور پر مقامی عوام نہ صرف زندہ رہنے کے تما م ذ رائع بلکہ صدیوں سے آبائو اجداد کی زمینیوں سے بھی محروم ہونگے ۔ یہی وہ ایشو ہے جس نے عوام کو احتجاج اور مزاہمت پر مجبور کیا ہے ۔ عوام کا کہناہے کہ نیشنل پارک کے قیام اورغیر مقامی ’’ ایف سی اہلکاروں ‘‘کی تعینات کے بعد یہاں کے میکنوں کے پاس زندہ درگور یا پھر قانونی مزاحمت کا راست ہی بچتا ہے۔
(جاری ہے)