پیپلزپارٹی نے ملتان کے جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کے سیاسی سفر کا آغاز بہت بڑی حکمت عملی اور بہتر انداز میں کیا۔
اس بچی کا لب و لہجہ اور انداز اپنی مرحومہ ماں بے نظیر بھٹو سے کافی حد تک مماثل ہے۔ مختصر، جامع اور لکھی ہوئی تقریر جس کا بھی مشورہ تھا وہ قابل تحسین ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری کی سیاسی تربیت میں مزید کچھ توجہ دی جائے اور کسی سنجیدہ استاد کا انتخاب ہوتو یہ بچی سیاست میں بہت جلدی اپنا بہتر مقام بنالے گی۔پی ڈی ایم نے بھی سربراہ سے پہلے تقریر کا موقع دیکر حوصلہ افزائی کی ہے۔
ملتان کے جلسے میں مریم نواز شریف کا لب و لہجہ کافی سخت اور تقریر کافی جاندار تھی۔ ملتان کے جلسے کی خاص بات یہ ہے کہ ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے مرحومہ بے نظیر بھٹو نے اپنے باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز کیا تو ایک آمر مسلط تھا اور اس سفر میں مولانا فضل الرحمان ساتھ تھے۔ آج بھی عملاً آمریت ہی ہے اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کی بیٹی نے سیاسی سفر کا آغاز کیا تو مولانا فضل الرحمن ان کے سرپرست ہیں۔
ملتان کے جلسے میں تین سابق وزرائے اعظم کے بچے سرگرم نظر آئے، دو سابق وزرائے اعظم کی بیٹیاں اور ایک وزیر اعظم کے بیٹے متحرک تھے۔ جہاں آصفہ بھٹو زرداری کے سیاسی سفر کے لیے ملتان کا جلسہ اہم تھا، وہیں پہلی بار سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے چاروں بیٹوں کو متحرک کرکے سیاسی صف اول میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، یہ کامیابی نہ صرف ملتان بلکہ سرائیکی پٹی میں پیپلزپارٹی کے لیے اہم ثابت ہوگی۔
ملتان کے جلسے میں حکومت نہ صرف عملا ناکام رہی بلکہ جلسے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور ایک دن کے جلسے کو تین دن کا کردیا، حکومت اجازت دیتی تو لوگوں کی توجہ شرکاء کی تعداد پر ہوتی، مگر حکومتی ہٹ دھرمی نے شرکاء کی تعداد سے توجہ ہٹاکر جلسہ ہوتا ہے یا نہیں پر لگادی اور اپوزیشن نے جلسہ اپنے شیڈول کے مطابق پہلے سے طے مقام پر کرکے حکومتی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے واقعات ہی ہوتے ہیں جو حکومتوں کی ساکھ تباہ کرکے ان کا مستقبل تاریک کر دیتے ہیں۔
تشدد کے ذریعے جلسہ روکنے کا جس کا بھی مشورہ تھا، یقینا وہ فرد یا افراد سیاسی بصیرت سے خالی یا حکومت کے دشمن ہونگے۔