گونگی ہجرت پاؤں سے میرے لپٹی رہتی ہے
سات سمندر پار سے بولے میری چپ کا شور
گزشتہ دنوں محترم جناب طاہر حنفی صاحب کی مشہور کتاب “گونگی ہجرت” موصول ہوئی- جوں جوں کتاب کا مطالعہ کیا، سوچ کے نئے در وا ہوتے چلے گئے… مختلف کیفیات نے ذات کا احاطہ کیے رکھا، اور یہی اپنے تاثرات کو قلم بند کرنے کی تحریک بنا-
زیرِ تبصرہ کتاب “گونگی ہجرت” طاہر حنفی صاحب کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، وہ اپنے پہلے شعری مجموعے ” شہرِ نارسا” کے منفرد ادبی لہجے اور اعلیٰ تخیل سے قارئین کے دل موہ چکے ہیں-
شاعری یقیناً عطائے ربّی ہے اور شاعری کا بنیادی رکن شعر گوئی ایک توفیق ہے جو یقیناً ہر کسی کے بس کی بات نہیں-
طاہر حنفی صاحب کی شاعری زندگی کے سینکڑوں رنگوں سے قارئین کو روشناس کراتی ہے- اس میں ایک طرف کرب کی آمیزش ہے تو ساتھ ہی ساتھ امید کے چراغ بھی جلتے چلے جاتے ہیں- ماضی کے درد و رنج کی نوحہ گری ہے تو مستقبل میں نئی منزلوں کا سراغ بھی ملتا ہے- انقلابی سوچ کے ساتھ سماجی و معاشی بے ضابطگیوں پر جرأت سے لب کشائی کی گئی ہے تو وہیں کسی طرف چوڑیوں کی سریلی کھنک قاری کو مدہوش و مسحور کیے دیتی ہے-
انتظار کرتا ہے آج بھی ترا طاہر
اب بھی رت سہانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
طاہر صاحب کا قلم جدت پسندی اور قدیم شاعری کے رحجانات کے بیچ ایک رابطے، ایک پُل کا کام کرتا ہوا نظر آتا ہے- ایک طرف قاری خزاں کے موسم کی چاپ سنتے ہوئے اداسی کے بے کراں سمندر میں گم ہورہا ہوتا ہے تو اگلے ہی لمحے اسے موسمِ بہار کی آمد کی نوید سنائی جاتی ہے- سُروں کی تال پر لفظوں کا مدھر رقص، قاری کی قلبی کیفیات کو یکسر تبدیل کر کے مسرت و شادمانی کے خوشگوار موسم کے حسیین رنگ بھر دیتا ہے اور وہ لمحہ بہ لمحہ، لمس بہ لمس، حرف بہ حرف اس انوکھے احساس سے سرشار ہوتا چلا جاتا ہے… یہ یقیناً طاہر حنفی صاحب کے سچے شاعر ہونے کی گواہی دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہاں حقیقی جذبوں سے اس باغ کی آبیاری کی گئی ہے، جہاں تاحد نگاہ پھر خوشنما گلوں کے کھلنے کا منظر اور ان کی خوشبو نظر و دل کو مسحور کیے دیتی ہے-
پتوں کی شہہ رگوں کو کبھی بے نقاب کر
پت جھڑ کو میری آنکھ میں آ کر گلاب کر
تو بات کر کہ سلسلۂ گفتگو بنے
ہونٹوں کو ایک لفظ پہ رکھ اور کتاب کر
انسانی رویوں اور معاشرتی مسائل پر طاہر صاحب کا قلم جا بجا شکوہ کناں نظر آتا ہے-
…. میں کیا بتاؤں کہ کیا المیہ ہے بستی کا
جو خیمہ زن ہیں وہی بستیاں جلاتے ہیں
… عہد منافقت میں کہاں جراتِ سخن
ہر کوئی مصلحت کو ہے ایماں کیے ہوئے
طاہر حنفی صاحب کا اسلوب جداگانہ ہے- روایتی شاعری کے برعکس وہ جدّت پسندی کے نئے رحجان کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں- انکی خوبصورت غزلیں اور فکر انگیز نظمیں بیشتر جگہوں پر جدید طرزِ احساس کے ساتھ زندگی سے حقیقی مکالمہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں-
میں شہرِ سنگ میں داخل تو ہو گیا ہوں
مجھے تو شیشے کا ہر در دکھائی دیتا ہے
…….
ہر ذی نفس اٹھائے ہوئے ہے بدن کا بوجھ
جس کو ملا وجود وہ مزدور ہو گیا
اکثر مواقع پر آپ کے اندر کا نڈر انسان بے دھڑک، بغیر کسی خوف کے اقتدارِ اعلیٰ کے ایوانوں کے بلند ستونوں کو بھی ہلا دینے کی سعی کرتا نظر آتا ہے، اور ظلم و بربریت کے خلاف ڈٹ جاتا ہے-
پھر تمہیں اس شہر میں سچ بولنا ہوگا محال
جھوٹ کا اجلا لبادہ جب عطا ہو جائے گا
…….
ٹہنی کے سب مکین ہواؤں سے لڑ پڑیں
اپنی بقا کے واسطے ہے یہ شجر کا حکم
اپنے مخصوص انقلابی لہجے میں طاہر صاحب خضرِ راہ کا رول نبھاتے ہوئے بھٹکے مسافروں کی راہ میں امید کا روشن چراغ تھامے، راستہ دکھاتے ہوئے ملتے ہیں-
تم اس سے پہلے کہ سورج سیاہ پڑ جائے
لہو کی شمع جلاؤ سحر کی بات کرو
اسی طرح دوسری طرف وہ تشدد زدہ منفی سوچ میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے، سماجی اور معاشرتی ظلم کے خلاف پرامن احتجاج کی تلقین بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں-
بہت کیے ہیں وار طاہر اس نے میری ذات پر
مگر مرا شعورِ امن بن گیا ہے مری ڈھال
…….
پڑھو تو امن پڑھو اور لکھو تو خیر لکھو
ورق ورق پر نہ تم شور و شر کی بات کرو
انسانی احساسات اور حاصل کی طلب کو غیر معمولی انداز میں بیان کرتے ہوئے ایک جگہ یوں مخاطب ہیں کہ……
کسی کو ایک ذرہ بھی ہے کافی
کوئی ساری خدائی چاہتا ہے
گونگی ہجرت پڑھتے ہوئے جو بات راقم الحروف کو بہت زیادہ متاثرکن لگی وہ طاہر صاحب کا انفرادی سوچ سے اجتماعی سوچ کی طرف ایک سفرِ مسلسل ہے جس پر وہ کہیں مصلحت کرتے ہوئے نظر نہیں آتے- ان کی فکری سوچ، شعری سلیقہ لیے ہوئے، نہایت نفیس انداز میں قاری کو اپنا ہم خیال بنالیتی ہے اور وہ بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے –
جھوٹ کی اجلی شعاعوں کی نمائش کب تلک
سچ کا ذرہ دیکھنا اک دن خدا ہو جائے گا
اپنی شاعری میں طاہر حنفی کہیں بھی شکستہ دلوں کو تنہا نہیں چھوڑتے بلکہ ان کے ہم آواز بنتے ہوئے، زخموں پر مسیحائی کا مرہم رکھتے ہوئے، درد کی صدا بن جاتے ہیں-
گلاب چہروں کا لکھتے ہو تذکرہ طاہر
اجاڑ آنکھ کی، ویراں نظر کی بات کرو
غبار چہروں کا مسکن بھی دیکھ لو طاہر
چمن کے ذکر سے پہلے کھنڈر کی بات کرو
یقیناً عصرِ حاضر کے ادبی خزانے میں “گونگی ہجرت” ایک خوبصورت اضافہ ہے جسکی بازگشت مستقبل میں بھی سنائی دیتی رہے گی- طاہر حنفی صاحب باذوق قارئین کو ایک خوبصورت فکری و انقلابی سوچ دینے پر یقیناً داد کے مستحق ہیں-