لیاقت علی خان کا قتل ایک ایسی سازش ہے جس کی ذمہ داری تمام اداروں پر عائد ہوتی ہے، ایک ایسا سیاہ باب جس میں ہر بااثر حلقے نے اپنا منہ کالا کیا۔ سازشی اتنے منظم اور طاقتور تھے کہ جب تحقیقات کسی نتیجے پر پہنچنے لگیں تو تحیققاتی افسر کا طیارہ تباہ کر دیا گیا۔ تحقیقاتی فائل کس طرح سرکاری ریکارڈ سے غائب کر دی گئی اور کس نے کی؟ سازشی اتنے با اثر تھے کہ آج تک لیاقت علی خان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ روس کی دعوت مسترد کرنا اور امریکن بلاک سے قربت انکی سیاسی غلطی تھی، جی ہاں یہ غلط فہمی اتنی عام کر دی گئی کہ حقیقت کہیں چھپ گئی، دستاویزات اور تاریخ کو جھٹلا دیا گیا۔ لیاقت علی خان قتل کیس کی دوسری قسط میں آپ کو بتائینگے ٹھوس ثبوت و شواہد کیساتھ واضح کرینگے کہ حقیقت کیا ہے۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ڈی کلاسیفائیڈ پیپرز میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے، یہ تاثر بھی سراسر غلط اور بے بنیاد ہے، اس کی تفصیل بھی پیش کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتائینگے کہ اس عظیم سانحہ میں میڈیا کا کیا کردار تھا، کون کون لوگ تھے جنہوں نے بیگم رعنا لیاقت کے خلاف گمراہ کن مہم چلائی، میڈیا کی دشمنی اتنی شدید تھی کہ قومی سانحے پر بعض اخبارات نے قائد ملت کے قتل کی خبر تک نہ چھاپی۔ یہ حقائق عوام کے سامنے آنا ضروری ہیں، تا کہ سچ اور جھوٹ کو پرکھا جا سکے، قاتلوں کے چہروں کو پہچانا جا سکے، ان کرداروں کا پہچانا جا سکے جنہوں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور پاکستان کو ٹھکرا کر پوری ریاست اور قوم کو اندھیروں میں ڈھکیلا۔ ظلم و جبر کی یہ داستان اب بھی جاری ہے، سازشی عناصر کے جانشین اب بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں، جھوٹے نعروں اور جھوٹے خوابوں سے بائیس کروڑ عوام کا بہلا رہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں تحقیقی ڈاکومنٹری لیاقت علی خان کیس، حصہ دوئم