کراچی میں جماعت اسلامی کی کامیاب حقوق کراچی ریلی نے شھر کی سیاست میں جوہری تبدیلی کا اعلان تو کردیا ہے۔ پر ہنوز دلی دور است۔
درحقیقت کراچی میں جماعت اسلامی ہمیشہ ہی موجود رہی ہے لیکن اس کی سیاسی غلطیوں اور عوام کی نبض شناسی کی غلطیوں نے انہیں اس حال پر پہنچایا ۔درمیان میں اشک شوئی کے لئے “اُن” کا نام اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے آسان حربہ بھی ہے۔ ممکن ہے “وہ” بھی کچھ ذمہ داری رکھتے ہوں لیکن شاید خود احتسابی بھی ضروری ہے۔
اس کے باوجود انکی خدمات اور کرپشن سے پاک ہونے کا مثبت تاثر کراچی میں ہمیشہ پہی رہا ہے۔ اسی وجہ سے جب ۲۰۰۱ کے بلدیاتی انتخابات میں جب ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو اہل کراچی نے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان مرحوم کو کراچی کی میئر شپ کی ذمہ داریوں کا تاج پہنایا اور انہوں نے بھی واقعتاً اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کر کے حلیفوں و حریفوں سب سے داد و تحسین وصول کی۔
اس شھر میں جماعت اسلامی کی کمزوری یہی تھی کہ وہ بعض مسائل پر جو کہ کراچی والوں کی نفسیاتی دکھتی رَگ بن چکی ہے پر کھلا موقف لینے سے پہلو تہی کرتی رہی جن میں کوٹہ سسٹم شامل ہے، حالانکہ سرکاری ملازمتوں کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ کوٹہ سسٹم نہ ہونے سے بھی کراچی کے عوام کی شرح ملازمت میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں پڑسکتا۔
لیکن اس کے نفسیاتی اثرات جس میں اہل کراچی بالخصوص اردو بولنے والے بطور دوسرے درجے کے شھری سرکاری اداروں میں چاہے چپراسی کلرک ہی کیوں نہ میں ملازمت پر غیراعلانیہ پابندی نے کراچی والوں میں غصہ اور احساس محکومیت پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار انجام دیا۔
اس احساس محکومیت اور مظلومیت سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ایم کیو ایم نے ایک بدبودار نسل پرستی کا نعرہ اُٹھایا اور باقی تاریخ کا حصہ ہے، آخر میں کراچی والوں کو نہ سرکاری نہ نوکریاں ملیں دوسری طرف پوری ایک نسل تباہ اور رہی سہی کراچی کی صنعت، تجارت و تعلیم کو تباہ کرکے کراچی کو 30,000 لاشوں کا تحفہ دیکر مزید لاوارث چھوڑ دیا گیا۔
اہم بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم عوام کو ورغلانے میں کامیاب ہو چکی تھی کہ جماعت کراچی کے عوام (مہاجر) کے خلاف متعصبانہ پالیسیوں پر بات نہیں کرتی ہے۔
واقعتاً جماعت اسلامی کے لئے بھی یہ ایک مشکل مرحلہ تھا وہ کراچی اور حیدر آباد میں دہائیوں سے جمع شدہ سیاسی حمایت کے سرمائے کی برف کو لسانیت و عصبیت کی دھوپ میں تحلیل ہوتا دیکھتی رہی۔ اسکے ساتھ ہی نہ جانے کتنے قیمتی لوگ اس پروسیس میں “نامعلوم افراد” کے ہاتھوں خاک میں مل گئے۔۔
ایم کیو ایم نے اپنے حامیوں کو اپنی فسطائیت زدہ سیاست ہی نہیں بلکہ چائنا کٹنگ اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کے ذریعے مایوس کیا لیکن اسکے بعد اسکے باوجود دیگر نسل پرست جماعتوں کے مقابلے میں انکئ مثال وہ مشہور جملہ ہے جو امریکی صدر روزویلٹ سے جو کہ نکاراگوا کے ڈکٹیٹر اینیستاسو سوموزا کے بارے میں روایت کیا جاتا ہے “ممکن ہے کہ سوموزا کتیا کا بچہ ہو لیکن یہ ہمارا کتیا کا بچّہ ہے” ۔
اس لئے ان تمام شکایات کے باوجود اہل کراچی نے انہیں بطور necessary evil یا “لازمی شیطان “ کے طور پر برادشت کیا، کہ جیسے بھی ہیں ہمارے بدمعاش ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ اہل کراچی اور بالخصوص اردو زبان بولنے والوں کے لئے اپنی ہی اولاد کھانے والے آدم خور ثابت ہوئے۔
اس وجہ سے کہ نہ صرف عشق کی وہ کیفیات نہ رہیں بلکہ کراچی کے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشنوں میں آبادی بڑی حدتک لا تعلق رہی۔
بلکہ الطاف حسین کے 2016 کے بدنام زمانہ خطاب نے ایک نیا موقع فراہم کیا ۔ایک طرف سے الطاف حسین کھلی ملک دشمنی پر اتر آئے اور اس نے شھری آبادی کو حقوق کی جنگ میں جب الوطنی کا انتخاب کرنے میں آسانی فراہم کی۔
جب ایم کیو ایم زیر عتاب آئی تو عوام کچھ ہمدردی کے جذبات (جسکا تعلق لسانیت سے تھا) کے باوجود باوجود اسی لاتعلقی و سرد مہری کا اظہار کیا۔
اس وقت ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا تھا جسے جماعت اسلامی نے فوری پُر کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اسی پُرانے انداز پر چلتی رہی ۔اس کے نتیجے میں اس لئے ۲۰۱۸ کے انتخابات میں کراچی میں جماعت اسلامی کے آزمودہ دیانتدار و قابل اعتماد اُمیدوار بھی تبدیلی کے سیلاب نیں بہ گئے۔
دوسال کے مختصر عرصے میں ہی تبدیلی کے غبارے میں بڑی حدتک ہوا تو نکل ہی چکی ہے تو فطری طور پر نئے چورن فروشوں کی بہ نسبت اب وقت آگیا کہ ہر آزمائش میں پورے اترنے والوں کی طرف دیکھا جائے۔
دوسری طرف بیس پچیس سال میں جماعت نے پہلی مرتبہ کھُل کر کراچی کے حقوق کا نعرہ لگا کر اہل کراچی جو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ کو ایک قابل اعتماد بارہا آزمائی ہوئی متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی۔
جماعت اسلامی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ بہت کم لوگوں یا گروہوں کو کھوئی ہوئی زمین یا مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایم کیوایم کی حیات نو کے بارے میں مشکل ہی لگتا ہے لیکن پی ٹئ آئی نے اپنے ووٹروں کو جس بُری طرح مایوس کیا، ایسا نہیں لگتا کہ وہ کراچی میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔
اسکے باوجود اگر موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرسکی اور وزیراعظم عمران خان نے جس کراچی پیکیج کا اعلان کیا تھا اسکا نصف پر بھی عمل کرسکے تو کھیل بدل بھی سکتا ہے۔لیکن اب تک یہ حکومت جس قسم کی ہوش ربا نااہلیوں کی داستان ہے اس بات کا امکان کم ہے پھر بھی ناممکن بہرحال نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کا رومانس جتنی جلدی انکی نااہلی کی بناء وینٹیلیٹر پر پہنچ گیا اس کا فائدہ جماعت کی خاموش خدمت کے ٹریک ریکارڈ بے تحاشا قربانیوں اور حافظ نعیم کی جارحانہ قیادت نے کم از کم مقابلے میں کھڑے ہونے کے قابل بنادیا۔
لسانیت سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ذہانت سے اپنے پیغام کو کراچی والوں کے لئے تیار کیا جس میں نہ صرف کراچی کے شھری حقوق ہی نہیں بلکہ ملازمتوں میں حصے پر بھی بات کی گئی۔ اب ایسا لگتا ہے کہایک بار پھر جماعت کراچی میں ایک بڑی طاقت بن کر اُبھر رہی ہے۔
ضرورت اس بات کہ ہے بجائے “اُن” کی پالیسیوں سے ہمت ہار کر بیٹھنے کے جارحانہ طور پر زمین پر کام کیا جائے۔۔ سیلاب کا ریلہ شدید ہوگا تو “وہ” بھی بند باندھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
آج حافظ نعیم کی جارحانہ قیادت (اور مرکز کی بھرپور سپورٹ بھی) کے ساتھ جماعت اسلامی نے عوام کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھنا شروع کیا تو ماحول میں ڈرامائی تبدیلی نظر آئی۔
اس کا بڑا کریڈٹ ایم کیو ایم سے مایوسی اور پی ٹی آئی نے جس خوفناک طریقے سے اس شھر میں اپنا سیاسی سرمایہ ضائع کیا کو جاتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کیا جماعت اسلامی کے کارکنان و قائدین اس مومینٹم کو انتخابات تک جاری رکھ سکتے ہیں؟؟
کھیلوں کی اصطلاح میں یہ کہا جاتا ہے ہے کہ بڑے ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیمیں عموماً سالہا سال تک مسلسل ٹاپ رہنے والی ٹیموں کی جگہ عموماً اوسط درجے کی ٹیمیں جو اپنی توانائی اور حوصلوں کو آخری جست کے لئے محفوظ رکھتی ہیں ہوتی ہیں، مسلسل ٹاپ رہنے کی محنت ٹیم و کھلاڑیوں میں تھکاؤٹ پیدا کر سکتی ہے اور “آخری معرکے” کے وقت تازہ دم حریف کے لئے کامیابی کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں بلدیاتی انتخابات سر پر ضرور ہیں لیکن پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی و ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کروانا نہیں چاہیں گی۔ بظاہر جماعت اسلامی کے لئے بہت زیادہ انتخابی تاخیر اس مومینٹم کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔
کیا جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات کے التوا کی صورت میں اس مومینٹم کو 2023کے عام انتخابات تک برقرار رکھ پائے گی؟
ایک بار پھر کراچی میں پی ٹی آئی کی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم نے جو بھی کراچی پیکیج کا اعلان کیا تھا اگر پی ٹیُ آئی اسکے نصف پر بھی عمل کروا سکی تو ۔۔ کہانی تبدیل ہو سکتی ہے لیکن اب تک انکا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ۔۔۔یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں۔